تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     02-02-2016

ہم کسے چنیں ‘چارواک یا گاندھی؟

آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کا اپنے چیلوں سے جیسے دل ٹوٹا ‘ویسا کسی لیڈر ‘کسی گرو یا کسی مہاتما کا نہیں ٹوٹا ہوگا ۔گاندھی جی نے سادگی کو اپنا اصول بنایا اور اس پر عمل کر کے دکھایا ۔انہوں نے کانگریس کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بنایا اور کروڑوں لوگوں کو سادگی کا سبق پڑھایا لیکن جوں ہی ملک آزاد ہوا‘کانگریسی لیڈروں کی تیس سال دبی نجی خواہشات نے زور مارا اور وہ سب انگریزوں کی نقل کرنے لگے ۔گورے انگریز تو چلے گئے لیکن ان کی جگہ کالے انگریز آگئے ۔
گاندھی جی کواس بات کا بڑا افسوس تھا کہ سارے وزیر بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے لگے ‘کاروں میں چلنے لگے‘ان کے محافظ غصے باز پوشاکیں پہننے لگیں ۔لیڈروں نے خود کو عوام سے دور کرلیا ۔وہ نئے حاکم‘حکمران بن گئے ۔گاندھی جی نے آزاد بھارت کے وزراء سے کہا کہ وہ اگر اپنی مرضی سے سادگی کی زندگی اپنا لیں تو وہ ساری دنیا کو اپنی جانب کھینچ سکتے ہیں لیکن ہواالٹا ہی !ان کے ہر دل عزیزشاگر دجواہر لعل نہرو اس تین مورتی ہائوس میں جاکر رہنے لگے ‘جو دارالحکومت کا سب سے بڑا اور سب سے خوبصور ت بنگلہ ہے ۔ان کے دوسرے شاگرد ڈاکٹر راجند ر پرشاد صدارتی ہائوس میں رہنے لگے ‘جو انگریز وائسرائے کا گھر تھا اور جو کسی بھی مغل بادشاہ کے محل سے بھی بڑا ہے ۔ اگر راجیندر بابو اور نہروجی جیسے عظیم انسان ٹھاٹھ باٹ کی لالچ میں پھنس گئے توپھر چھوٹے موٹے لیڈروں کا کیا پوچھنا تھا؟
راجندربابو‘نہروجی‘مولانا آزاد‘راجاجی جیسے لیڈروں کا ذاتی سلوک سادہ اور صاف رہا لیکن لیڈروں کے ٹھاٹھ باٹ کی یہ جو غیر گاندھی وادی روائت شروع ہوئی‘یہی آگے چل کے بد عنوانی کی عادت بن گئی ۔گاندھی جی کاوہ اصول طاق پر رکھ دیا گیا کہ ساری ملکیت معاشرے کی ہے ۔ہم تو محض ان کے ٹرسٹی ہیں ۔اب ہمارے لیڈروں کے اصول دیکھیں ۔کوئی کہتا ہے کہ ساری دولت لیڈروں کی ہے ۔جو جتنی لوٹ سکے ‘لوٹ لے۔آج گاندھی جی کے اس ملک میں ایک بھی ایسابڑا لیڈر کھوج نکالنا مشکل ہے ‘جس کی زندگی اس کی ایمان کی کمائی پر چل رہی ہو۔ اگر لیڈر حضرات سادگی سے رہنے لگیں تو عوام پر اس کا زبردست اثر ہوگا ۔بد عنوانی تو ختم ہوگی ہی ‘اکانومی ترقی بھی تیزی سے ہوگی لیکن اب پالیسیاں ایسی بن رہی ہیں کہ لوگ کمائیں یا نہ کمائیں لیکن خرچ زیادہ سے زیادہ کریں ۔
حقیقت میں آج کا بھارت سماج گاندھی سماج نہیں ‘چارواک سماج بنتا جا رہا ہے ۔فلسفہ ِچار واک کا بنیادی منتر یہی ہے کہ جب تک جیو ‘سکھ سے جیو!مقروض بنو اور گھی پیو۔لیڈرحضرات اپنے ملک میں
'سمارٹ سٹیز‘کھڑی کر رہے ہیں۔ہمیں ہمارے سودوسوشہروں کی کتنی فکر ہے لیکن ہمارے لاکھوں گاؤں آج بھی غریبی ‘گندگی ‘محرومیت اور بد حالی میں سڑ رہے ہیں ۔شہروں میں بڑے بڑے ہسپتال اور سکول و کالج بن رہے ہیں ‘جہاں و ہی لوگ قدم رکھ سکتے ہیں ‘جن کی جیبوں میں لاکھوں روپیہ بھرے ہیں ۔بھارت کا اوسطاًباشندہ ان ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں جھانک بھی نہیں سکتا۔گاندھی جی کہتے تھے کہ ہمیں دیہات میں سہولیات لانی ہے ۔ہمارے لیڈر حضرات کہہ رہے ہیں کہ ہم ایسی پالیسیاںبنا رہے ہیں کہ گاؤں رہیں گے ہی نہیں تو انہیں سہولیات دینے کا سوال ہی نہیں اٹھے گا۔آہستہ آہستہ بھارت کے سارے گاؤںدوزخ بن جائیں گے ۔دیہاتی لوگ بھاگ بھاگ کر شہروں کا رخ کریں گے شہروں میں سمارٹ نیس کی ضرورت ہوگی ۔اس لئے تو ہم سمارٹ سٹیز بنا رہے ہیں ۔ہمارے لیڈر کتنے بڑے مستقبل کے دور اندیشی ہیں ۔
سمارٹ کا مطلب کیا ہے ؟ہمارے ملک کے پچیس تیس کروڑ شہری لوگ ویسے ہی رہنے لگیں ‘جیسے نیویارک ‘لندن اور ٹوکیو کے لوگ رہتے ہیں اور باقی سو کروڑ لوگوں کا کوئی دھنی دھوری نہیں ہے ۔ان کا اللہ ہی مالک ہے ۔وہ سوکروڑ لوگ گاندھی جی کا سوراج کھوجنے کی کوشش کریں ۔یہ لوگ اوبڑ کھابڑسڑکوں پر بیل گاڑیوں میں دھکے کھائیں اورسمارٹ سٹی کے طلبگار بلٹ ٹرین کا مزہ لوٹیں ۔گاؤں کے لوگ 28 روپیہ میں روز گزارا کریں اور شہروں کے سمارٹ سٹیزن پانچ ستارہ ہوٹلوں میںپانچ ہزار روپیہ کا کھانا کھائیں (اور پیئیں بھی)یہ چار واک تہذیب نہیں تو کیا ہے ‘ہر چیز قرض لے کر خریدو‘فلیٹ ‘کاریں ‘ٹیلی ویثرن ‘فرج ‘سمارٹ فون !روز خبریں دیکھواور پڑھوکہ کتنی زیادتیاں ہوئیں ‘شراب خوروں نے کتنوں پر کار چڑھا دی ‘بینکوں کے کتنے ارب کھرب روپیہ لیڈروں کے چمچے ڈکار گئے ۔کتنے بے گناہ جانور سبزیوں کی طرح کاٹ دیے گئے کتنے لوگوں نے علاج کی کمی سے دم توڑدیا‘کتنے لوگ کڑاکے کی ٹھنڈ میں فٹ پاتھ پر ہی سوتے رہ گئے۔کیا یہ گاندھی جی کا بھارت ہے ؟یہ چار واک کا بھارت ہے ۔چارواک کہا کرتے تھے کہ شراب ‘ گوشت ‘مچھلی مدرا(پیسہ)اور میتھن( سیکس) یہ ہی پانچ چیزیں ہرزمانے میں نجات دلانے والے ہیں ۔ان پر ضابطے کی کوئی ترکیب ہمارے لیڈروں کے پاس نہیں ہے ۔انہیں ان باتوں کی کوئی فکر بھی نہیں ہے ۔
گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ میں دوسروں کو وہ کرنے کیلئے کبھی نہیں کہوں گا ‘جو میں خودنہیں کرتا ۔گاندھی جی ایسا کیوں کہتے تھے؟ کیونکہ وہ سچے لیڈر تھے ۔لیڈر کون ہوتا ہے ؟وہ ‘جس کے نقش قدم پر لوگ چلیں ۔آج کوئی لیڈر اس بات کی پروا نہیں کرتے ۔وہ اپنے نقش قدم پر چلانے کی خواہش ہی نہیں کرتا ۔پس ووٹ اور نوٹ ہی اس کیلئے سب کچھ ہے ۔باقی سب جھوٹ ہے ۔لیڈرشپ میں گاندھی کے جو اصول تھے سب ندارد ہوگئے ہیں ۔ہمارے لیڈر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ مکمل سماج کو چلانے میں قانون ‘سیاست اورصوبوں کا کردار ایک چوتھائی بھی نہیں ہے ۔حکومت بھی پالیسی کے بنا نہیں چلتی ۔لیکن چار واک تہذیب سرکار کوہی نہیں ‘سماج کو بھی اصول سے محروم رکھنا چاہتی ہے ۔اگر ہمیں بھارت کو اس کرپشن سے بچانا ہے تو ہمیں گاندھی جی کے اصولوں پر اور بنیادی تربیت پر لوٹنا ہوگا ۔لیڈروں کو طے کرنا ہے کہ کہ وہ چار واک کے چیلے بنیں گے یا گاندھی جی کی طرف لوٹیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved