تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     02-02-2016

دو تقریبات کی ایک کہانی

اندرون و بیرونِ ملک ، جناب عطاء الحق قاسمی کے چاہنے والوں کو اطلاع ہو کہ ان کے چہیتے مزاح نگار، سفر نامہ نویس، ڈرامہ رائٹر، شاعر، نقاد، سابق سفارت کار اور سب سے بڑھ کر یاروں کے یار، ماشاء اللہ 73سال کے ہوگئے ہیں۔ احباب کو یہ اطلاع دینے کے لیے جناب قاسمی نے اتوار کی شام اپنی سالگرہ کا ''بقلم خود‘‘ اہتمام کیا۔ ابرار ندیم کے بقول، یہ 73ویں سالگرہ کی''سیریز ‘‘ کاآغاز تھا، بارش کا پہلا قطرہ، جس کے بعد احبابِ قاسمی کی طرف سے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ پاکستان میں اس سلسلے کی سب سے بڑی تقریب اسلام آباد میں ہوگی، جہاں پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین کے طور پر قاسمی صاحب ہفتے کے پانچ روز پائے جاتے ہیں۔ قاسمی سرکار، دربار کے آدمی نہیں۔ جہاں تک میاں برادران کا معاملہ ہے، تو قاسمی صاحب کی ان سے یاری بچپن سے ہے، ماڈل ٹاؤن کے دِنوں سے جسے فریقین ابھی تک بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ جناب نواز شریف، صاحبِ اقتدار تھے، یا زیرعتاب، اس تعلق میں رتی بھر کمی نہ آئی ۔یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کے دوران لیکچرر شپ کی سرکاری نوکری کے باوجود قاسمی کلمۂ حق لکھنے سے باز نہ آتے۔ تب وہ سکوٹر سوار تھے۔ مسعودمحمود نے پیغام بھیجا، جوان ہو، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان پر اور اپنی جوانی پر رحم کرو، باز آجاؤ ورنہ ٹریفک حادثے میں مار دیئے جاؤ گے اور کسی کو شک بھی نہ گزرے گا۔ قاسمی نے ''حکمِ حاکم سے اطلاع پائی‘‘ کی رسید بھجوا دی اور اسی راہ پر گامزن رہے۔ (بھٹو صاحب نے فیڈرل سکیورٹی فورس بنائی تو مسعود محمود اس کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے۔مخالفین اِسے جناب بھٹو کی ''ذاتی فوج‘‘ قرار دیتے جس سے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کا کام لیا جاتا۔ احمد رضا قصوری کے والدنواب محمد احمد خاں کے قتل کا الزام بھی اس پر تھا۔ جنرل ضیا کا مارشل لاء لگا اورمقتول کے ورثا حصولِ انصاف کے لیے دوبارہ سرگرم ہوئے تو مسعود محمود وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ عطاء کو بات کہنے اور لکھنے کا ہنر آتا ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین 
سنسر شپ کے دوران، یہ ہنر قاسمی کے خوب کام آیا۔ وہ سرکاری ٹیلی ویژن کے لئے لکھے گئے ڈراموں میں بھی کام دِکھا جاتے۔ 
میاں صاحب کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں ، سفارت کی پیشکش قاسمی کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی جسے وہ کچھ دِن ٹالتے رہے۔ انہیں قائل کرنے میں شامی صاحب کی منطق اور دلیل کی صلاحیت بروئے کار آئی۔ ناروے سے وہ تھائی لینڈ چلے آئے۔ 12اکتوبر 1999ء کو وہ بنکاک میں تھے۔ میاں صاحب کی رخصتی کی خبر سنتے ہی انہوں نے بھی واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ مشرف انتظامیہ کی طرف سے انہیں continue کرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ عطاء کے قلمی''شر‘‘ سے بچنے کا حربہ بھی ہوسکتا تھا لیکن اس نے یہ دانہ چگنے سے انکار کردیا۔ استعفیٰ وزارتِ خارجہ کو فیکس کیا۔ واپسی کی ٹکٹ خریدی اور گھروالوں سے فون پر کہہ دیا کہ لاہور ایئرپورٹ سے باہر آنے میں تاخیر ہوجائے تو زیادہ انتظار کرنے کی بجائے گھر واپس چلے جائیں۔ 
عطاء کی سالگرہ کی تقریب سے ہم جناب ایس ایم ظفر کی ہیومن رائٹس سوسائٹی کی تقریبِ تقسیم ایوارڈ کے لیے روانہ ہوئے۔ جناب ظفر نے اپنی سیاست کا آغاز فیلڈ مارشل ایوب خان کی نیم سیاسی، نیم فوجی حکومت میں کیا۔ وہ 35سال کے تھے، جب ایوب خان نے وزارتِ قانون کا قلم دان انہیں سونپا ۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں وہ پیر صاحب پگارا کی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ اسی دوران (1978میں) انہوں نے ہیومن رائٹس سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ مارشل لاء میں ''ہیومن رائٹس‘‘ کی بات کتنی عجیب سی تھی۔ ہماری بھابھی مہناز رفیع اور اے ایم شکوری تب سے ان کے ہمسفر ہیں۔ اسی دور میں انہوں نے ہیومن رائٹس کے لیے جدو جہد کرنے والی شخصیات کو ایوارڈز دینے کی طَرح ڈالی۔ تقسیم ایوارڈز کی تقریب مارشل لاء کی گھٹن میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہوتی، اسی بہانے آمریت کے خلاف دل کا غبار نکالنے کا موقع مل جاتا۔ 
کیا دلچسپ اتفاق تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے رفیق کار کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کرنے والے ممتاز ماہر قانون نے 34سال بعد اپنی سیاست کے لیے پھر ایک ڈکٹیٹر کی تخلیق(قاف لیگ) کا انتخاب کیا۔ وہ اس کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے رُکن منتخب ہوئے۔ 17ویں ترمیم کے لیے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ مذاکرات میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ دسمبر2004ء میں فوجی وردی اُتارنے کے ''وعدۂ فردا‘‘ کے عوض ایم ایم اے نے منتخب حکومت اور اسمبلی کی برطرفی سمیت ڈکٹیٹر کو کتنے ہی صوابدیدی اختیارات سونپ دیئے تھے، کسی جمہوری پارلیمانی آئین میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 
اتوار کی شام یہ ہیومن رائٹس کی سوسائٹی کے 35ویں ایوارڈ کی تقریب تھی۔ اس سال کے ایوارڈز کے لیے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک ، اخوت فائونڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر امجد ثاقب کے ساتھ دو شہدا کا انتخاب بھی کیا گیا تھا۔ طاہرہ قاضی شہید، 16دسمبر2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردحملے وقت وہاں پرنسپل تھیں۔جب دہشت گرد معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہے تھے، طاہرہ قاضی کے لیے موقع تھا کہ اپنی جان بچانے کے لیے چپکے سے نکل جاتیں، لیکن ان کی ممتا اور ادارے کے سربراہ کے طور پر احساسِ فرض شناسی نے ان کے قدم روک لیے۔ بچوں کو بچانے کے لیے وہ ڈٹ گئیں اور دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ عارفہ قاضی اپنی جلیل القدر والدہ کا ایوارڈ وصول کرنے آئی تھیں۔ 
ہیومن رائیٹس سوسائٹی کا 35واں ایوارڈ وصول کرنے والا دوسرا شہید سلیم شہزاد تھا۔ 41سالہ سلیم کو بھی (ایک اور طرح سے سہی ) دہشت گردی کی جنگ کے شہدا میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کے بعد وہ صحافت کی وادی میں چلا آیااور تیزی سے منزلیں طے کرنے لگا۔ اس نے کئی بین الاقوامی خبر رساں اداروں میں خدمات انجام دیں۔ دہشت گردی کی جنگ اس کا خصوصی موضوع تھی۔ القاعدہ اور طالبان سمیتاِسے ''جہادی‘‘ تنظیموں کی قیادت سے انٹرویو کرنے، ان سے قریبی روابط استوار کرنے اور ان کے اندرونی معاملات کو دور تک دیکھنے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران وہ بعض کی نظر میں بھی کھٹکنے لگا تھا۔ 29مئی 2011ء کی شام اسلام آباد میں، ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کے لیے گھر سے نکلا۔ اور اگلے روز سرائے عالمگیر کے قریب اپر جہلم کینال میں (اسی طرح ٹائی سوٹ، اور شوز سمیت) اس کی لاش پائی گئی۔ 
طاہرہ قاضی اور سلیم شہزاد کا نام ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں پاکر منیر نیازی یاد آئے ؎
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
ایک ایسا شہر ضرور ہے، انہی دوستوں سے بھرا ہوا
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کے بعد ڈاکٹر امجد ثاقب نے سول سروس کا رُخ کیا۔ یہیں ان کے ذہن میں غریب اور بے وسیلہ افراد کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کا خیال سوجھا، اور انہوں نے بلاسود قرضوں کے لیے ''اخوت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ایک سو دس ملین ڈالر کے قریب چھوٹے قرضے فراہم کرنے کے بعد یہ اس نوعیت کی دُنیا کی سب سے بڑی تنظیم بن چکی ہے۔
ڈاکٹر مالک اپنا ایوارڈ وصول کرنے کے بعد، اظہارِ تشکر کے لیے آئے اور کام کی کئی باتیں کہہ گئے۔ گیلانی دور کی 18ویں ترمیم کے وقت وہ سینیٹ کے رُکن تھے۔ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی نمائندگی کی حامل خصوصی کمیٹی نے اس پر سال بھر کام کیا تھا، اس میں ڈاکٹر مالک بھی تھے۔ 
مئی2013 ء کے عام انتخابات میں ان کی جماعت بلوچستان اسمبلی میں عددی لحاظ سے تیسرے نمبر پر تھی، مسلم لیگ(ن) پہلے ، اور محمود خاں اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی دوسرے نمبر پر۔ لیکن میاں نوازشریف نے بلوچستان میں اصلاحِ احوال کے لیے ڈرائیونگ سیٹ، بلوچ قوم پرست کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا، حالات و واقعات نے جسے درست فیصلہ قرار دیا۔ معاہدے کے مطابق ابتدائی اڑھائی سال گزارنے کے بعد ڈاکٹر مالک دسمبر کے اوائل میں مستعفی ہوگئے۔ یہاں انہوں نے دلچسپ بات بتائی، وہ وزارتِ اعلیٰ سے فراغت کے بعد روانہ ہوئے تو انہیں کچھ علم نہیں تھا کہ اب کدھر جانا ہے۔ وہ فٹ پاتھ سے آئے تھے، اور اب پھر فٹ پاتھ پر تھے۔چیف جسٹس بلوچستان کو علم ہوا تو اُنہوں نے ہائی کورٹ کے کوٹے میں سے ایک گھر ڈاکٹر مالک کو سرچھپانے کے لیے دے دیا۔ ساری عمر چھوٹے صوبوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والے ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد1973ء کا آئین جتنا جمہوری اور وفاقی بن گیا ، بھارت سمیت دُنیا میں ایسی کوئی اور مثال نہیں۔ دفاع، امورِ خارجہ ، کرنسی، کمیونیکیشن اور ٹریڈ کے سوا، تمام محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوچکے۔ اب صوبوں کا کام ہے ڈیلیور کریں۔یہاں جناب مالک ایک بات کو نظر انداز کرگئے ، صوبوں سے مقامی سطح پر اختیارات کی منتقلی بھی آئین کا تقاضا ہے، ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے، کیا صوبے بلدیاتی اِداروں کو ضروری اختیارات منتقل کرنے پر آمادہ ہوں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved