تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-02-2016

نظریہ ضرورت

نظریہ ضرورت سے کوئی اختلاف کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے کیونکہ کسی کی سوچ اور خیالات پر نہ تو پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کی سوچ اور ارادے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ان دو الفاظ کو اس کے معنوں کے انداز میں دیکھا جائے تو اپنی جگہ یہ کسی بھی مصیبت، مشکلات یا نہ ہونے والے کسی عمل اور ارادے کو پورا کرنے یا اسے آگے بڑھانے کے کام آ سکتا ہے۔۔۔اور کسی بھی مسلمان کیلئے یہ نئی بات نہیں اور نہ ہی کوئی عجو بہ یا اپنے پاس سے گھڑی ہوئی کوئی بات کہی جا سکتی ہے۔
امریکہ میں قانون کی پاسداری اور اس پر بغیر کسی تمیز کے عمل کرنے کی بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ابھی چند دن پہلے ایک پولیس افسر نے غلطی سے اپنی گاڑی کسی ایسی جگہ پار ک کر دی جہاں ٹریفک پولیس کی جانب سے اس کی قطعی اجا زت نہیں تھی۔ اس پولیس افسر نے فوری طور پر اپنی گاڑی کو وہاں سے ہٹانے کے ساتھ ہی خود کو ایک سو ڈالر جرمانہ کا چالان بھی نصب کر دیا کیونکہ قانون کا اطلاق اگر قانون پر عمل کرانے والے ہی نہ کریں گے تو پھر ملک میں لاقانونیت کے سوا آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ امریکہ جہاں قانون میں کوئی لچک نہیں ہوتی میامی کائونٹی کی ایک خاتون پولیس افسر وکی تھامس نے جسیکا روبلزنامی ایک عورت کو کھانے کی کچھ اشیاء چوری کرتے ہوئے پکڑا۔ میامی کی وکی تھامس نامی یہ پولیس افسر اس خاتون کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن لے جا نا ہی چاہتی تھی کہ اچانک اس کی نظریں اس عورت کی جانب اٹھیں تو اس کی آنکھوں سے بہنے والے زارو قطار آنسوئوں نے اسے دہلا کر رکھ دیا۔ نہ جانے اس عورت کے چہرے پر کوئی ایسی کیا بات تھی کہ پولیس افسر اپنی جگہ ساکت ہو کر رہ گئی۔ چندلمحے اس عورت کو دیکھتی رہی پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا‘ تم کچھ کہنا چاہتی ہو ...جس پر وہ عورت صرف اتنا کہہ سکی کہ یہ کھانے کا سامان جو میں نے اٹھایا ہے اسے میرے بچوں تک پہنچا دو کیونکہ وہ صبح سے بھوکے ہیں اور میں ان کی بھوک اور رونے سے بے تاب ہو کر اس سٹور تک پہنچی ہوں‘ میری گرفتاری کی صورت میں ان تک کھانے کا کوئی بھی سامان نہیں پہنچے گا اور میرے بچوں کا بھوک سے نہ جانے کیا حال ہو جائے۔
پولیس افسر وکی تھامس نے جیسیکا کو گرفتار کرنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے ساتھ لے جاتے ہوئے اسے ایک دوسرے گروسری سٹور سے100 ڈالر مالیت کا کھانے پینے کا سامان خرید کر اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور اسے اس کے گھر تک پہنچایا اور گھر کی حالت اور بچوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بوجھل قدموں سے چل پڑی لیکن اس کا ضمیراس بات پر مطمئن تھا کہ اگر وہ اسے گرفتار کر لیتی تو ہو سکتا تھا کہ دو انسانی جانیں امریکہ کے اس قانون کی بھینٹ چڑھ جاتیں اور پھر میامی کا پورا معاشرہ ان معصوم جانوں کے قتل کی ذمہ داری سے کیسے بچ سکتا تھا؟۔اس وقت چونکہ وہ اپنی آنکھوں سے جیسیکا روبلز کے گھریلو حالات دیکھ چکی تھی اور اسے کوئی شک نہ رہا کہ یہ دونوں بچے سخت بھوکے تھے اس لیے اسے اس بات کی کوئی خلش نہیں کہ اس نے قانون سے صرفِ نظر کیا ہے۔جیسے ہی خبر باہر نکلی میامی کے ایک مقامی ٹی وی کے نمائندے نے جب ایک پولیس افسر کو ایک خاتون کے ساتھ اس کے چھوٹے سے گھر کی جانب جاتے دیکھا تو وہ بھی چند لمحوں بعد وہاں پہنچ گیا اورجیسے ہی جیسیکا روبلز کی بیٹی نے ٹی وی کیمرہ کو اپنے سامنے دیکھا تو چلا تے ہوئے بولی: ہمارے گھر کی حالت دیکھو‘ میرے چھوٹے بھائی کو دیکھو جو بھوک اور مٹی سے اٹا پڑا ہے کیا آپ کو میرے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر مذاق سوجھ رہا ہے؟۔ اگر آپ ہمارے لیے کھانے کیلئے کچھ نہیںلائے تو دیکھو کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے؟۔
خاتون پولیس افسر وکی تھامس کہتی ہے کہ جب بارہ سال بچی نے چیختے چلاتے اپنے ہاتھ روٹی کے ایک ٹکڑے کیلئے پھیلائے تو اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ ایک بڑے گناہ سے بچ گئی اور اس نے بجائے
اسے گرفتار کرنے کے اسے ایک ہفتے سے بھی زائد کا کھانے کاسامان مہیا کر دیا ہے اور جیسے اس کے بچوں نے میرے پیچھے کھڑی ہوئی اپنی ماں کے ہاتھوں میں کھانے کا سامان دیکھا تو ان کے چہروں پر پھیلنی والی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ کھانے پینے کے سامان کو اپنے ہاتھوں سے چھوتے ہوئے اس طرح خوشی سے چلا رہے تھے جیسے انہیں کرسمس پر سانتا کلاز نے کوئی تحفے دے دیئے ہوں۔میامی کائونٹی کی پولیس افسر وکی تھامس پولیس کی گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے ابھی بیلٹ باندھنے ہی لگی تھی کہ اچانک اتر کر جیسیکا کے پاس آئی اور اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس سے ایک وعدہ لیا کہ زندگی میں وہ جب بھی اچھی طرح کمانے کا لائق ہو جائے تو اپنی بچتوں کو جمع کرتے ہوئے ایک دن وہ اپنی جیسے کسی اور ضرورت مند کی اسی طرح100 ڈالر سے مدد کرے گی۔۔۔جیسیکا نے وکی تھامس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گی۔
جیسے ہی مقامی ٹی وی نے اپنے پروگرام میں اس پوری سٹوری کو نشر کرتے ہوئے جیسیکا کے گھر کی حالت، گندے اور میلے کچیلے لباس اور بھوک نقاہت کے شکار بچوں کی جسمانی حالت دکھائی تو معاملہ وکی تھامس پر ہی ختم نہ ہوا بلکہ بہت سے لوگوں نے اس کیلئے مزید700 ڈالرشہر کے بڑے سٹور میں جمع کرا دیئے کہ اسے جیسیکا کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ اپنی فیملی کیلئے ہر ضروری سامان خرید سکے۔لیکن نظریہ ضرورت کا سب سے بہترین کمال یہ ہوا کہ ان تمام واقعات کا علم ہونے پر اگلے ہی دن شہر کے سپر سٹور کے مالک نے اسے اپنے پاس بلا کر اس کا انٹرویو کیا اور پھر اسے سپر سٹور پر اسی وقتCustomer service Rep: کی ملازمت دے دی اور جیسے ہی سٹور کے مالک نے اسے اس قدر بہترین ملازمت دینے کی پیش کش کی وہ خوشی سے دیوانہ وار چیخ اٹھی کہ میرے پاس الفاط نہیں ہیں کہ آپ کی اس عنائت کا شکریہ ادا کر سکوں جو آپ نے مجھ جیسی بھوکی اور غربت کی ماری ہوئی عورت پر کی ہے۔ آپ کے اس کرم نے ایک بھوک سے مرتے ہوئے گھرانے کو زندگی دے دی ہے۔
اور آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس نظریہ ضرورت کی وجہ سے ممکن ہوا جو ایک پولیس افسر نے اختیار کیا اگر وہ ایسا نہ کرتی تو میں جیل میں ہوتی اور میرے بچے بھوک سے بلک بلک کر جان دے دیتے۔۔۔جیسیکا روبلز نے میامی کائونٹی کے اس سپر سٹور پر نوکری کرتے کرتے ترقی بھی کی جس میں اس کی اپنی محنت، جانفشانی ، ایمان داری اور عوام میں اپنے نام اور واقعے کی وجہ سے مقبولیت کا بھی حصہ تھا کیونکہ جیسے ہی ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے لوگوں کو پتہ چلا کی جیسیکا اس سٹور پر ملازم رکھ لی گئی ہے تو لوگ ہجوم کی صورت میں اس سٹور پر پہنچنے لگے جس سے اس سٹور کی آمدن میں یک دم اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔۔۔پانچ سال کی سروس کے بعد جیسیکا نے اپنا ایک سٹور کھول لیا جو بڑھتے بڑھتے شہر کے ایک مصروف ترین گروسری سٹور میں تبدیل ہو گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved