ناکامی اور کامیابی الگ‘ مگر عارف نے یہ کہا تھا: راہ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
اس نئی سیاسی پارٹی کا بالآخر اعلان کر دیا گیا، سال بھر سے سیاستدانوں اور اخبار نویسوں میں خوش گمانیاں‘ بدگمانیاں اور قیاس آرائیاں تھیں۔ لاہور کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں کچھ صحافی جمع ہوئے اور پارٹی کے رہنما اور کچھ پرجوش کارکن۔ کل رات دس بجے تک یہ طے نہ تھا کہ تقریب کہاں ہو گی۔ ہوٹل والوں نے انکار کر دیا تھا۔ پولیس نے انہیں روک دیا تھا۔ کہا گیا کہ اجازت لے کر آئیے، حفاظتی انتظامات کا مسئلہ ہے۔کالی ‘ پیلی‘ نیلی‘ ہری اگر سینکڑوں نہیں تو ملک بھر میں ہر روز درجنوں پریس کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ یہ سوال کبھی نہیں اُٹھتا۔ ڈی سی او لاہور سے لے کر پولیس افسروں تک، ایک ایک دروازے پر وہ دستک دیتے رہے‘ ایک ایک کو سمجھاتے رہے۔ ان میں سے ایک نے مطالبہ کیا: وعدہ کیجیے کہ آپ حکومت کے خلاف کوئی بات نہ کریں گے۔ پولیس نہیں، ظاہر ہے کہ سرکار ناخوش تھی۔ ایک اطلاع کے مطابق جناب حمزہ شہباز مچان پر تشریف فرما تھے اور احکامات صادر کر رہے تھے۔ نئی پارٹی 'پاکستان فریڈم موومنٹ‘ کے سربراہ ہارون خواجہ غیر معمولی شہرت کے حامل نہیں۔ تکریم ان کی بہت ہے اور انہیں ایک محنتی، باخبر اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا لیڈر سمجھا جاتا ہے، اپنی ذمہ داری جو سلیقہ مندی ہی نہیں بلکہ بہترین طور پر انجام دینے کے عادی ہیں۔
کاروباری افراد پر مشتمل ایک ادارہ انہوں نے بنایا تھا، پنجاب بزنس فورم، جسے بعد ازاں پاکستان بزنس فورم سے بدل دیا گیا۔ کچھ فلاحی کام انہوں نے کیے، سرانجام دئیے۔ 2009ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد کوٹ ادو میں ایک گائوں کی تعمیر۔ جیسا کہ عرض کیا، خواجہ صاحب حسنِ عمل کے بہت قائل ہیں اور ان کے ساتھی بھی۔ مذہبی مگر بہت ہی ماڈرن لوگ۔ عصر حاضر میں اپنے اور روایتی مذہبی لوگوں کے برعکس جو قدیم قبائلی نفسیات کے حامل ہیں۔ آئندہ زمانوں کے بارے میں وہ سوچتے ہیں ؎
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جس کا نہیں کوئی نام
ان دو دیہات کی خصوصیت یہ ہے کہ مکان سادہ مگر جدید طرز تعمیر کے مظہر ہیں۔ مفت نہیں، وہ ساڑھے سات سو روپے ماہوار کے عوض دیئے گئے ہیں۔ شمسی توانائی سے گھر روشن ہوتے ہیں اور عام دیہات کے برعکس سیوریج کا ان میں بندوبست ہے۔ چولہا بیرون ملک سے ڈیزائن کرایا گیا، لکڑی آدھی جلتی ہے۔ تقریباً سو فیصد لوگ برسرِ روزگار ہیں اور 99فیصد سکولوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ گائوں کا نظام، اس کے مکین خود چلاتے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ کا ایک قابلِ رشک نمونہ۔ نیم خواندہ لوگ ہیں، خاص طور پر میرپور میں جہاں 70مسلمانوں کے علاوہ 40 ہندو خاندان آباد ہیں۔ مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر نمٹانے کا ایک موثرنظام بھی کارفرما ہے۔
یہی نہیں، قصور کی ایک تحصیل میں موبائل ہیلتھ یونٹ انہوں نے بنائے ہیں۔ ایک ٹرالر، جس میں چنگ چی رکشے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر، نرس اور طبی آلات۔ گھر گھر، گائوں گائوں گھوم کر مریضوں کا علاج جو کرتے ہیں اور ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی بعض مقامات پر یہ نظام تشکیل دیا تھا۔ سات کروڑ روپے میں ایسا ہی ایک ٹرالر۔ خواجہ صاحب کے ساتھیوں نے ایک یونٹ پر فقط 70لاکھ روپے صرف کیے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان نواح میں طبی مسائل تحلیل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ نتائج حیران کن ہیں۔
حیران کن اصل میں وہ کام ہے جس پر ملک کی کسی سیاسی پارٹی نے توجہ نہ دی تھی۔ سول سروس، زراعت، دہشت گردی، پولیس، عدالتی نظام، بجلی، گیس اور تعلیم۔ کسی شعبے کا نام لیجیے‘ اس پر تحقیقاتی کام انہوں نے کیا ہے اور اس معیار کا کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ یہ فیصلہ تو وقت کرے گا کہ خواجہ اور اس کے ساتھی کس معیار کے لیڈر ہیں۔ پذیرائی پاتے ہیں یا نہیں۔ ایک بات البتہ ہے، جب اس تحقیق کو آپ دیکھتے ہیں تو جی لہک اُٹھتا اور امید جاگنے لگتی ہے۔ یہ عالمی معیار کا ہے اور پوری طرح قابل عمل۔ مثلاً افسر شاہی پر آپ بات کیجیے تو فوراً ہی آشکار ہو جائے گاکہ عہد جدید میں یہ نظام کن تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ زراعت پر سوال کیا، خواجہ صاحب نے کہا: تین فصلیں۔۔۔۔آلو، زیتون اور صرف انگور ہیں، جو کاشتکار کو خوشحال بنا سکتی ہیں۔ دو برس ہوتے ہیں، ایک ٹیم تھر کے ریگ زار میں بھیجی گئی۔ حاصل کلام یہ تھا: صدیوں کے افلاس نے معدوں کو اس قابل نہیں رہنے دیا کہ پوری غذا ہضم کر سکیں۔ ایک علاقے کا انتخاب ہوا۔ مرحلہ وار کام جاری ہے کہ سارے مکین صحت پا لیں۔
طویل عرصے تک ہارون خواجہ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف سے وابستہ رہے۔ ایک کے بعد دوسرا کارنامہ انہوں نے انجام دیا۔ تنخواہ لی نہ کوئی اور سہولت۔ آخر کار اکتا گئے۔ عمران خان کے ساتھ چند ماہ ہی گزار سکے۔ خان صاحب متاثر ان سے بہت تھے۔ اپنی ٹیم میں ایک نمایاں مقام دینے کے آرزو مند۔ ان کے اِردگرد مگر ایسے لوگ ہیں کہ کسی صاف ستھرے اور لائق آدمی کو برداشت کر ہی نہیں سکتے۔ کپتان نے کوشش بہت کی، بار بار ذاتی رابطہ بھی کیا مگر خواجہ وقت ضائع کرنے کے قائل نہیں اور نہ ان کے ساتھی۔
نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا خیال پیش کیا گیا تو سوالات بہت تھے۔ مایوسی پھیلانے والے بھی بہت‘ مگر خواجہ ایک ناقابل علاج امید پرست ہیں۔ عارف کی خدمت میں وہ حاضر ہوتے رہے۔ ان سے رہنمائی طلب کرتے رہے۔ ایک بڑا دھوکہ درویش کھا چکا تھا، اس کے باوجود خواجہ کی بات توجہ ‘ تحمل اور صبرسے سنتے رہے۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ وہ کسی ایک پارٹی تک محدود نہیں ہو سکتے۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت سبھی لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور اللہ کے بندوں میں وہ امتیاز نہیں کر سکتے۔ فقیر کا دروازہ سب پر کھلا رہتا ہے۔ بہرحال خواجہ اور ان کے ساتھیوں کا منصوبہ انہیں خوش آیا۔ ان کے لیے دعا کی، انہیں اجازت دی اور بعض نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ان سے وابستہ ہو جائیں۔ وہ لوگ جو کچھ کر دکھانے کے آرزو مند ہیں۔ جنہیں درد اور شعور کی دولت اللہ نے عطا کی ہے ؎
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا دردہمارے جگر میں ہے
اس پارٹی کی خصوصیت کیا ہے؟ عہد جدید کے مطابق، قومی زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ایک بھرپور اور جامع منصوبہ۔ قائد اعظم ان کے آئیڈیل ہیں۔ ان کی تجویز کردہ جدید مسلم ریاست کے لیے وہ ایک جدید سیاسی جماعت تشکیل دینے کے آرزو مند ہیں۔ کوئی ایک شخص یا چند لوگوں کا ایک ٹولہ جس پر مسلط نہ ہو۔ نچلی سطح تک، جس کے تمام عہدیدار منتخب ہوں۔ سینکڑوں‘ ہزاروں اور ممکن ہو تو لاکھوں کارکنوں کی بتدریج تربیت کی جائے جو بالآخر ملک کی گاڑی پٹڑی پہ چڑھا سکیں۔ کوئی شاہی خاندان نہیں‘ کوئی دیوتا نہیں۔ خواجہ نے کہا: کل نیا لیڈر چن لیا جائے تو اس کے ساتھ اسی خوش دلی کے ساتھ ڈٹا رہوں گا، کام میں جتا رہوں گا۔ ملائشیا کی مانند‘ ترکی کی طرح، تعصبات سے بالا ایک ایسی پارٹی جو ملک کو عہد نَو میں داخل کرے۔ تفصیلات بہت ہیں اور خود خواجہ صاحب کو ان پر بات کرنی چاہیے۔ اخبار اور ٹی وی میں۔ سب سے اہم بات مگر یہ ہے کہ بنیاد مضبوط ہو، اصولوں سے انحراف نہ کیا جائے۔ کوئی کالا جادو نہیں، یہ سامنے کا نسخہ ہے مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
ناکامی اور کامیابی الگ‘ مگر عارف نے یہ کہا تھا: راہ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا