تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     03-02-2016

گھریلو تنازعات کا تدارک

ہم آئے روزاخبارات میں گھریلو تنازعات اور تشدد کی خبریں پڑھتے ہیں۔ ان جھگڑوں کے نتیجے میں ہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں، شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق ہو جاتی ہے، بچے والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات نوبت مقدمے بازی اورکئی صورتوں میں معاملات قتل وغارت گری تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان تنازعات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ معاشرہ خاندانوں کے اجتماع سے تشکیل پاتا ہے۔ خاندان مختلف گھرانوں کے ملاپ سے بنتے ہیں۔ ایک نیا گھر بالغ مرد اور عورت کے نکاح سے بنتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول درست ہو تو اس سے پورا خاندان تقویت حاصل کر تا ہے اور اگر گھر میں بگاڑ اور انتشارہو تو پورا خاندان انتشار اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ خاندانوں کی مضبوطی اور ہم آہنگی سے سماج بھی مضبوط اور مستحکم ہو تا ہے جبکہ خاندانوں کی کمزوریوں اور بٹواروں سے سماجی قدریں تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اگر سماج کی مثال ایک بڑی عمارت سے دی جائے تو اس میں ایک گھر کی حیثیت اینٹ جیسی ہو تی ہے۔ خوبصورت اور پختہ اینٹیں عمارت کی خوشنمائی اور دلکشی میںکلیدی کردار ادا کرتی ہیں جبکہ اس کے برعکس کچی اینٹیں عمارت کوبدنما اور کمزور کردیتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس وقت جس خود غرضی اور انانیت کا شکار ہے، اس کی بہت بڑی وجہ گھریلو جھگڑے بھی ہیں جن کی وجہ حقو ق زوجین کی تفہیم میں پایا جانے والا افراط و تفریط ہے۔ حقوق زوجین کی غلط تعبیرکی بنیادی وجہ مذہب ، قوانین اور رسوم و رواج میں پائے جانے والے تضادات ہیں جن کی و جہ سے شوہر اور بیوی صحیح طریقے سے اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کا تعین نہیں کر پاتے۔ ہرفریق اپنے مفاد کے لیے مذہب، قوانین اور رسوم و رواج کو اپنی خواہشات کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور دوسرے فریق کا استحصال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مذہب، قوانین اور رسوم و رواج اپنے مفادات سے متصادم نظر آتے ہیں تو خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب ، قوانین اور رسوم و رواج کی من پسند تاویلات کرلی جاتی ہیں۔ اس رشتے میں بالعموم جسمانی طور پر طاقتور ہونے کی وجہ سے مرد عورت کا استحصال کرتا ہے اور یہ استحصال عورت کی مادی کمزوری کی و جہ سے کئی مرتبہ اپنی انتہا کو پہنچ جا تا ہے جبکہ اس کے برعکس بہت سی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں عورت اپنی اقتصادی خود مختاری اور مضبوط خاندان کی و جہ سے مرد کا بھرپور استحصال کر تی ہے اورمرد اپنی عزت و وقارکی سلامتی اور تحفظ کے لیے عورت کے منفی رویوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
حقوق زوجین کے حوالے سے پائی جانے والی افراط و تفریط میں مادہ پرستی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مرد اپنے تعیشات کے لیے عورت کے خاندان سے اقتصادی مطالبات کرتا ہے جس کا آغاز جہیز کی طلب سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت بھی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر وقت مردکے سامنے جائز و ناجائز مطالبات رکھتی رہتی ہے۔ ان مطالبات کی تکمیل کے لیے کئی بار مرد ناجائز ذرائع سے آمدن حاصل کرنے پر بھی مجبور ہو جاتاہے۔ یہی اقتصادی کشمکش ذہنی کھچاؤ پیدا کرتی ہے اور خاندانوں میں محبت اور الفت کی بجائے انانیت ، رقابت اور کھینچا تانی کے رجحانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
حقوق زوجین میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ہمارے معاشرے کو اس رشتے کی اصل کو سمجھنا چاہیے۔ قوانین اور رسوم و رواج کے مقابلے میں اس کی اعلیٰ ترین تشریح ہمارے مذہب نے کی ہے۔ یہ بات تو ہر شخص کے علم میں ہے کہ نکاح بالغ مرداور عورت کے درمیان قائم ہونے والا مذہبی اورسماجی بندھن ہے، جس کے بعد مرد و زن اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کی ہمراہی میں گزارتے ہیں، لیکن اس بندھن کی حقیقت کے حوالے سے اعلیٰ ترین وضاحت کتاب الٰہی میں موجود ہے جس کی نظیر قانون کی کسی کتاب میں نہیں ملتی ۔ سورہ روم کی آیت نمبر 21 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ '' اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے جوڑوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان سے سکو ن حاصل کرواور اس نے تمہارے درمیان مودّت اور رحمت کو پیدا کیا۔ بے شک اس میں نشانی ہے غور و فکر کرنے والوں کے لیے‘‘۔ اس آیت میںمرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث دے کر مودّت اور رحمت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں مرد و زن کے مابین پائے جانے والے انتشار کی بنیادی وجہ اسی مودّت اور رحمت والے طرزِ عمل کا فقدان ہے۔ حقوق اور فرائض کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وضاحت فرمائی ہے:'' ان کے بھی معروف طریقے پر مردوں ہی کی طرح کے حقوق ہیں‘‘۔ تاہم گھریلو ماحول میں اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کویک گونہ فوقیت اس لیے دی ہے تاکہ تنازعات کے حل کے لیے کسی ایک فریق کو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جا سکے۔ یہ اختیار تفویض کرنے کی وجہ سے کوئی بھی جھگڑا زیادہ طول نہیں پکڑ سکتا۔ نبی کریم ﷺکا فرمان مبارک ہے کہ تم میں سے بہترین شخص و ہ ہے جو اپنے اہل خانہ سے بہتر معاملہ کرنے والا ہواور آپ ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ '' میں اپنے اہل خانہ سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں‘‘۔
نبی کریمﷺ نے ازواجِ مطہرات کے ساتھ بہترین معاملہ کیا اور ان کو خدمت گار نہیں بلکہ صحیح معنوں میں شریک زندگی بنایا۔ آپ بھر پور ریاستی ، مذہبی اور سماجی ذمہ داریاں اداکرنے کے بعد بھی گھرکے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ گھر یلوکاموں میں آپ ﷺ ان کی معاونت میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
مساوات ِمرد و زن کا جدید نعرہ عورت کے حقوق کی بجائے اس کی ذمہ داریوں میں اضافے کا باعث بنا ہے جبکہ اسلام نے عورت کو اقتصادی ذمہ داریوں کا مکلف نہ ٹھہرا کرحقیقت میں اس کے حقوق کی پاسداری کی ہے۔ ایک عورت جوگھریلو کاموں میں مصروف و مشغول رہتی ہے، اپنے بچوں کی احسن انداز میں تربیت کرسکتی ہے ،کھانے پکانے کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے، مرد کی آمد و رفت کے دوران اُس کا اچھے طریقے سے استقبال کرتی اور اس کو بہترین طریقے سے الوداع کرتی ہے۔ اگر اس پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جائے تو عورت کے ساتھ ناانصافی ہو گی ؛ تاہم اگر ایک عورت اپنی تعلیم اور فنی مہارت کے ذریعے کچھ کمانا چاہتی ہے اور اختلاط سے بچ کر اپنی ہم صنفوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں بنتا اور اس کو کامیاب معلمہ ، مستند لیڈی ڈاکٹر اور اعلیٰ پائے کی مبلغہ بننے کی اجازت دیتا ہے؛ تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عورت سماجی اور معاشی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے گھریلو فرائض کی انجام دہی سے غافل ہو جائے تو اس کو کامیاب خاتون قرار نہیں دیاجا سکتا ۔
عورت مرد کی رفیق حیات ، اس کی مونس و غم خوار اورگھر میں اس کی نائب اور معاون خصوصی ہے جبکہ مرد عورت کا محبوب ساتھی ، شریک زندگی ، سرپرست اور نگران ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ عورت کی بہترین طریقے سے کفالت کرے اور اس کی جملہ نفسیاتی اور مادی ضروریات کو بغیراحسان جتلائے پورا کرے اور اس کے نازک وجود کومسلنے اور بکھرنے سے بچائے۔ مرد اخلاقی بے راہ روی کے علاوہ کسی اور وجہ سے عورت کے ساتھ بے جا سختی اور تلخی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اگر ہمارے معاشرے کے مرد و زن کو اسلامی تعلیمات کا ادراک ہو جائے اور وہ صحیح معنوں میں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہمارے معاشرے سے گھریلو جھگڑوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved