انسان کی کل متاعِ حیات دو چیزوں پر مشتمل ہے : عقل اور جذبات۔ زندگی میں ہر وہ چیز جو آپ کو متاثر کرتی ہے ، بنیادی طور پر یا تو وہ آپ کی عقل کو متاثر کرتی ہے یا جذبات کو ۔میڈیا کا سارا کاروبار انہی پر منحصر ہے ۔ اللہ کے فضل سے ہمارے ٹی وی چینلوں پرآج کل بھارتی ڈرامے دکھائے جار ہے ہیں۔ ساس بہو کی لڑائی اور شوہر کی دوسری شادی سمیت ، وہ خواتین کے جذبات پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ کہانی نام کی کوئی چیز نہ ہونے کے باوجودیہ حملہ اس قدر شدید ہوتاہے کہ وہ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالتے ہیں ۔ یکسانیت کے باوجود اگر بار بار وہی چیزیں دیکھی جا رہی ہیں تو وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک معزز خاتون کو تو یہ کہتے سنا گیا'' میری زندگی کو سمجھنا ہے تو ''میرا سائیں‘‘ دیکھ لیجیے ۔ ‘‘ اللہ کے فضل سے ہمارے سارے مارننگ شویہ کاروبار بڑی مہارت سے کر رہے ہیں۔ یہاں جن نکالنے والے عامل حضرات کو مدعو کیا جاتاہے ۔ برقعہ پوش خواتین اپنے اوپر ہونے والے مظالم بیان کرتی ہیں ۔ اس بات کے کافی شواہد سامنے آئے ہیں کہ مظالم بیان کرنے والے یہ کردار اکثر و بیشتر اداکار ہوتے ہیں ، جنہیں باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے ۔اور تو اور کیمرے لگا کر میاں بیوی اور ساس بہو کے تنازعے ''حل ‘‘ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یوں یہ دھندا بخوبی چل رہا ہے ۔معاشرے پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں ، یہ ایک الگ بحث ہے، جس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ۔
Lucyسائنس فکشن پر بننے والی عالمی شہرت یافتہ فلم ہے ۔ مرکزی کردار لوسی ایک کیمیکل استعمال کرنے کے بعد دس فیصد کی بجائے بتدریج اپنے دماغ کا زیادہ استعمال شروع کرتی ہے۔ یوں اسے اب اپنی نوزائیدگی سمیت دماغ کی گہرائی میں دفن باتیں بھی یاد ہوتی ہیں ۔ ریڈیو اور انٹر نیٹ سمیت وہ ہر قسم کی لہروں کو پڑھ سکتی اور انہیں استعمال کر سکتی ہے ۔ وہ اپنے جسم میں دوڑتے ہوئے خون اور کششِ ثقل کو محسوس کرسکتی ہے ؛حتیٰ کہ زمین کی گردش بھی ۔ایسی کہانی میں جذبات سے بڑھ کرانسانی عقل اور تجسس کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتاہے ۔
2014ء کے انتخابات میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پاکستان اور مسلم مخالف بنیادوں پر کامیابی حاصل کی ۔ یہ بھی جذبات کا دھندا تھا۔ سیاسی لیڈروں کے پاس یہی دو راستے ہوتے ہیں ۔ ''جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نو لگ گئی آگ‘‘ سمیت لسانی بنیادوں پرتعصبات بھڑکائے جائیں یا پیپلز پارٹی کی طرح مظلومیت کا واویلا، یہ جذبات فروشی ہے۔ دوسری طرف قائدِ اعظم ؒ اور ابرہام لنکن کی مثالیں ہیں ۔ معاشرے کی ساخت کو انہوں نے ملحوظ رکھا لیکن ہمیشہ سوچ سمجھ کر عقل کی مدد سے ہروہ قدم اٹھایا،جوقوم کو کامیابی کی طرف لے گیا۔
کالم نگاروں اور ٹی وی میزبانوں کو بھی انہی دو میں سے انتخاب کرنا ہوتاہے ۔ بھارتی میڈیا کی طرح وہ پاکستان مخالفت میں تھوڑے سے سچ میں بہت سے جھوٹ کی آمیزش کر سکتے ہیں یا وہ مسائل کا حل تجویز کر سکتے ہیں ۔لکھنے والے بھی مجبور ہوتے ہیں کہ بہرحال انہیں ستائش درکار ہوتی ہے ۔ پھر بھی لکھنے پڑھنے والے اکثر سو چ بچار کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ ٹی وی کی دنیا میں مقابلہ سخت ہے اور مقبولیت (ریٹنگ) ہر لمحہ ماپی جا رہی ہوتی ہے ؛چنانچہ جذباتیت غالب آجاتی ہے ۔ یہاں آپ عجیب و غریب کردار دیکھ سکتے ہیں ۔ ایسے لوگ یہاں بھاشن دیتے نظر آئیں گے، جن کا ماضی بجائے خود ایک سوالیہ نشان ہے لیکن الّا ماشاء اللہ سارے ٹی وی میزبان ان کا تعاقب کرتے نظر آئیں گے۔
سوشل میڈیا سارے کا سارا جذبات کا کھیل ہے ۔ کون کس کی تصویر اور کس کے اظہارِ خیال پر کیا تبصرہ کرتاہے اور اس پر ردّعمل کیا ہوگا ۔فیس بک پر لمبی لمبی لڑائیاں (جن میں یہ خاکسار بھی ملوث رہا)، دوسرے پہ طنز، اسے نیچا دکھانے کی جدوجہد اور یوں اپنی سربلندی کا جھنڈا گاڑ کر اپنے نفس کو لذت دینا ، یہ سب جذبات پہ منحصر ہے ۔ عقل غالب ہو تو یہ کاروبار بند ہو جائے۔ زیادہ لائکس پر خوشی محسوس کرنا دراصل نفس کو ملنے والی لذت ہے اور یہ جذبات پر مشتمل ہے ۔
جذبات اور احساسات کی اپنی اہمیت ہے ۔ ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت جذباتی ہوتی ہے ، علمی نہیں ۔ہر نفس میں اپنی شدید ترین محبت، خود غرضی اور جان بچانے کا خوف جذبات ہی سے ہوتاہے ۔شیطان نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ بنی نوعِ انسان کو گمراہ کر دے گا تو خداکا جواب یہ تھا''مگر میرے مخلص بندے‘‘ ۔ ساتھ ہی ساتھ خدا یہ بھی فرماتاہے: بے شک زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے، بیٹھے اور پہلو کے بل لیٹے ہوئے (اور یہ کہتے ہیں ) اے رب تو نے یہ (سب) بے کار نہ بنایا...آلِ عمران 191۔ بار بار خدا یہ شکوہ کرتاہے کہ زمین و آسمان میںاس کی نشانیوں پر ہم غور نہیں کرتے ۔وہ یہ کہتاہے کہ اگر تم غور کرتے تو میرا انکار نہ کر سکتے ۔ یوں سارے کا سارا ایمان، کھربوں برس کی ہماری اگلی زندگی کلی طور پر عقل پہ منحصر ہے ۔
الطاف حسین اور پیپلز پارٹی سمیت جن سیاسی قوتوں نے جذبات کا راستہ اختیار کیا، ان کی فتح عارضی تھی ۔ اب وہ زوال کا شکار ہیں ۔ عقل ذہانت ہے ، چالاکی نہیں ۔ تین برس قبل آصف علی زرداری کونت نئی چالوں پر زمانہ جھک کر سلام کر رہا تھا۔ آج وہ کس حال میں ہیں؟
لیگی رہنما جب نعرہ زن ہوتے ہیں ''دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا ، شیر آیا‘‘ تو وہ جذبات ہی کو جھنجھوڑتے ہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ شیر جانوروں میں سے ایک جانور ہے ۔ وہ طاقتور ہے لیکن انسانی ذہانت کا مقابلہ اس کے بس کی بات نہیں ۔ یوں وہ انسانیت کے بلند و بالا مرتبے سے خود کو گراکر آدم کہلانے کی بجائے حیوانی جبلتوں کا مجموعہ یعنی''شیر ‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں کہ جذباتی طور پر یہ بات عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔کرکٹ کے کپتان عمران خان سے نوجوان نسل کی وابستگی جذباتی ہے ۔نندی پور ، قائدِ اعظم سولر پارک ، پاکستان سٹیل مل سمیت حکومتی کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ واحد بہتری جو نظر آتی ہے ، اس کا سبب تیل کا 100ڈالر سے 25ڈالر تک گرجا نا ہے ۔ اسی کے سبب حکومت دھڑا دھڑ تیل خرید کر آئی پی پیز کو ادا کررہی ہے ۔ اسی طرح عوام کومہنگا تیل بیچ کراخراجات پورے کیے جارہے ہیں ۔ نون لیگ کو تو آپ دیکھ چکے ۔ اب یہ کپتان پر ہے کہ وہ تصادم اور جذبات کا راستہ اختیا رکرتاہے یا عقل کی مدد سے اپنے لیے راستے کھولتا ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس بھی زندگی کے مسائل سے نمٹنے میں جذبات اور عقل کے دونوں راستے موجود ہیں ۔آسانی عقل میں ہے ، جذبات میں نہیں ۔