Why we write about ourselves کی ایڈیٹر میریڈتھ میرن لکھتی ہیں کہ ہمیں افیئرز نہیں چلانے چاہئیں اور خاص طور پر کسی سوانح نگار سے تو قطعی افیئر نہیں چلانا چاہئے۔ ان کا یہ مشورہ اگرچہ بڑا ہی اچھا ہے لیکن جب ایک سوانح نگار کا خود صحافت سے ''افیئر‘‘ رہا ہو اور اس کا ذاتی ارتقاء بھی قوم کے سیاسی ارتقاء کے ساتھ متوازی رہا ہو تو ہمارا خیال ہے کہ یہ بات بہ آسانی کہی جا سکتی ہے کہ اس کی تحریر کردہ کتاب بھی بڑی یادگار ثابت ہو گی۔ ہم ذکر کر رہے ہیں From religion to fascism, Memoirs of a journalist نامی کتاب کا جو محمد علی صدیقی صاحب کی تحریر کردہ ہے اور سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ صدیقی صاحب نے جس بھرپور طریقے اور متنوع انداز سے سب بیان کیا ہے وہ نہایت ہی متاثر کن ہے۔ کسی بھی طالب علم یا پھر خارجہ امور، سیاسیات اور صحافت کے مسلمہ مبصر کے لئے یہ کتاب براہِ راست معلومات کے ایک گنجِ گرانمایہ سے کم نہیں۔ اپنے صحافتی کیریئر میں صدیقی صاحب نے تین ہزار سے زائد اداریے لکھے ہیں، فیچر سٹوریاں اور سکوپس بھی انہوں نے دیے اور واشنگٹن میں انگریزی روزنامے ڈان کے نمائندے کے طور پر نیوز رپورٹنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک آل رائونڈر ہیں۔ ان کی صحافتی مہارت ان کی زندگی کی محنت کا پھل ہے۔ اسی کی نوک پلک کو مزید سنوارنے، مزید سیکھنے اور مزید باتیں دریافت کرنے کے حوالے سے ان کا رویہ اکتشافی ہے۔ شروعات انہوں نے سب ایڈیٹر کے طور پہ کی تھیں لیکن پھر وہ ڈان کے ریڈرز ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچے۔ صحافت میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت ان کی کتاب کے ہر صفحے پہ واضح نظر آتی ہے۔ پاکستان کی تکلیف دہ تاریخ انہوں نے مزاح سے بھرپور جملوں کے ساتھ پیش کی ہے۔ ان کے دوست ان کے مزاح کو ''غیر معذرت خواہانہ طور پر انفرادیت کا حامل‘‘ ٹھہراتے ہیں؛ تاہم ان کی ذاتی رائے کی یہی انفرادیت کتاب میں قاری کی دل چسپی کو قائم رکھتی ہے۔ ہماری ملکی تاریخ پہ کئی کتابیں لکھی گئیں لیکن ان میں سے زیادہ تر غیر مقبول ہی ہیں۔ صدیقی صاحب کی ہوشیاری یہ ہے کہ وہ اپنے پُرمزاح جملوں کے تڑکے سے قاری کو مسلسل محظوظ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اسے تاریخ کی سیر بھی کرا دیتے ہیں۔ ہر لکھاری اتنا ذہین نہیں ہوتا کہ گزشتہ واقعات کو قاری کے سامنے یوں پیش کر دے جیسے وہ اس کی آنکھوں کے سامنے اسی وقت وقوع پذیر ہو رہے ہوں۔ ہماری توجہ کے دائرہ ارتکاز سے مراد کسی بھی کام کے لئے مختص وقت کا وہ دورانیہ ہوتا ہے جس میں ہماری توجہ کسی اور چیز کی جانب مبذول نہیں ہوتی۔ ہم لوگوں کی توجہ کا یہ دائرہ ارتکاز بتدریج سکڑتا جا رہا ہے۔ مائیکروسافٹ کے سی ای او کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ''انسانی توجہ‘‘ دنیا کی نایاب ترین چیز بن جائے گی۔ بیرسٹر کمال اظفر نے اسی ماحول کے تناظر میں صدیقی صاحب کی کتاب کا پیش لفظ تحریر کیا ہے۔ قاری کے لئے اس کتاب کی چیدہ چیدہ خصوصیات واضح کرتے ہوئے انہوں نے خاص طور پر پہلے اور 17ویں باب کے مطالعے کی سفارش کی ہے۔ پہلے باب میں کراچی کے گم گشتہ سحر کی بات کی گئی ہے جبکہ باب سترہ برادرانِ عرب کے بارے میں ہے۔ کمال اظفر لکھتے ہیں کہ ''پاکستانی عوام عرب لوگوں کے بار ے میں جو رومانوی اندازِ فکر رکھتے ہیں‘ اس بارے میں اس باب میں بات کی گئی ہے۔ مصنف کا خیال یہ ہے کہ عرب لوگ بنیادی طور پر بڑے سیکولر ہیں اور وہ مذہب کو ریاست کی اساس نہیں سمجھتے۔ جنوب ایشیائی مسلمانوں کی نسبت ان کا اپنا تاریخی تجربہ بہت مختلف رہا ہے۔‘‘ کمال اظفر کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ان خیالات سے قارئین کو اتفاق نہ ہو لیکن تخلیقی اصلیت کی بنیاد پر وہ اس باب کے مطالعے کی سفارش کرتے ہیں۔ اظفر صاحب نے سعودیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے گو سیاسی موزونیت مدنظر رکھی ہے لیکن صدیقی صاحب اس بارے میں صاف گوئی اپنانے پہ تعریف کے مستحق ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم عربوں کو مقدس گائے سمجھنا چھوڑ دیں۔ ہم نے صدیقی صاحب سے دریافت کیا تھا کہ اس کتاب میں بیان کردہ واقعات میں سے کس واقعے کے ساتھ ان کے گہرے جذبات وابستہ ہیں۔ انہوں نے باب سوم کا نام لیا۔ اس باب میں ایک نہایت محب وطن مگر زخمی دل کے حامل صحافی کی داستان رقم کی گئی ہے۔ ان کے ذاتی غم کا ذکر ہے۔ لڑکپن تک کا زمانہ انہوں نے حیدر آباد دکن میں گزارا تھا لیکن 1948ء میں بھارتی فوج کی آمد کے بعد انہیں وہاں سے فرار ہونے پہ مجبور ہونا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں''صبح سویرے مجھے جگا کر اس گھر کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہنے پہ مجبور کر دیا گیا تھا۔‘‘ اس لئے وہ ہندوستان کو کبھی معاف نہیں کر پائے۔ انہوں نے ہمیشہ دشمن سے ستمبر 1948ء کی اس صبح کا بدلہ لینا چاہا؛ تاہم انہوں نے جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر میں حیدر آباد، جونا گڑھ، کشمیر، مشرقی
پاکستان، کارگل، فلسطین، عراق اور بوسنیا جیسی مزید تباہیاں دیکھیں؛ تاہم پاکستان کے ساتھ محبت ان کے لئے جزو ایمان کی طرح ہے اور اسی لئے وہ مزید تعریف و توصیف کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان سے انہوں نے اتنی محبت کی ہے کہ اور کسی نے کبھی نہیں کی ہو گی۔ بقول ان کے ''صرف دو افراد ایسے ہیں جنہیں پاکستان سے اتنی ہی محبت تھی جتنی مجھے ہے، ایک جناح اور دوسرے بھٹو! تیسرا کوئی اور ابھی تک پیدا نہیں ہوا!‘‘پاکستان میں اپنے والد تک پہنچنے سے قبل صدیقی صاحب اپنے اہلِ خانہ سمیت اورنگ آباد (حیدر آباد دکن) میں قیام پذیر رہے تھے جہاں ان کے ماموں کا گھر تھا۔ ان کے ظہیر ماموں کی ایک بیٹی تھی جس کا نام رضیہ تھا۔ صدیقی صاحب اور رضیہ کے درمیان محبت پروان چڑھنے لگی تھی لیکن اس کی داستان آپ کو کتاب میں پڑھنا ہو گی۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اخبار سے وابستہ لوگوں کا کام بے حد مشکل ہوتا ہے کیونکہ انہیں اخبار کے لئے لکھنا ہوتا ہے اور اخبار چلانا ایک کاروبار ہے جس میں قارئین کے تعصبات کا نہیں تو ذوق کا خیال ضرورت رکھنا پڑتا ہے۔ اخبارات کا بکنا لازمی ہے ورنہ بصورتِ دیگر انہیں بند کرنا پڑتا ہے۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کی صحافت کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن پاکستان میں ایوب خان کے زمانے کے بعد سے پریس شدید قطبیت کا شکار ہے اور یہ امر بذاتِ خود معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور ستر کے عشرے کے بعد سے تو یہ قطبیت جنونی درجے تک پہنچ چکی ہے۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ اگر کسی محقق نے اخبارات کے آرکائیوز کا تحقیقانہ
مطالعہ کیا تو اسے معلوم ہو گا کہ ہمارے ملک میں رپورٹنگ اور تبصرہ نگاری کے حوالے سے صحافتی اصول کس قدر معدوم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خبروں، کالموں اور اداریوں میں اس امر کا کافی ثبوت مل جاتا ہے کہ کس طرح لکھنے والے قارئین کے جذبات کو حیوانیت کی حد تک بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول ان کے ''اسی دور میں ایک صحافی کے طور پر اپنے ارتقاء کے دوران اس امر کا مشاہدہ ہمارے لئے دہشت انگیز رہا ہے۔‘‘ صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ صحافت میں پیشہ واریت کی معدومیت کے دو اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ آمروں نے سیاسی سرگرمیوں پہ یا تو پابندی لگائی تھی اور یا پھر سیاسی سرگرمیاں محدود کر دی تھیں اور پھر طویل عرصے کے لئے پریس پہ بھی پابندیاں لگائی گئیں؛ تاہم آمروں کے زوال کے بعد عوام نے آزادیاں کسی ارتقائی عمل کے نتیجے میں نہیں پائیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ابتری کے دوران ایک دھماکے دار انداز میں یہ ان کے ہاتھ آئیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ جاہل اور دانش سے عاری ملّا کو معاشرے پہ ایک ایسا تسلط حاصل ہوا جو اس کی قدر اور ووٹ بینک کے لحاظ سے بالکل غیر متناسب تھا۔ انہوں نے ٹائم میگزین کے تیس جون 2008ء کے شمارے سے ایک اقتباس کا حوالہ بھی دیا ہے‘ جس میں لکھا تھا کہ یہ ساری صورتحال کوئی بھدّا مذاق معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک بس ڈرائیور، ایک سکائی لفٹ آپریٹر اور کسرت کے ایک شوقین نے مل کر ایک ملک کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ اس میں اشارہ دراصل تین دہشت گردوں کی طرف کیا گیا ہے یعنی بیت اللہ محسود جو ایک فٹنس سینٹر میں تربیت کار ہوا کرتا تھا، فضل اللہ جو سکائی لفٹ آپریٹر تھا اور منگل باغ جو ایک ٹرک ڈرائیور ہوا کرتا تھا!
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت چاہے بری بھی ہو لیکن تاریخ کی تالیف کا ابتدائی مسودہ یہی ہوتی ہے۔