ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام کے مقدر میں اب سزائیں بھگتنا ہی رہ گیا ہے۔ سرحد پار سے کوئی للکارے مارتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسا درد دیں گے کہ تڑپا کر رکھ دیں گے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئٹہ سے چارسدہ، مردان اور جمرود میں دس بیس نہیں بلکہ89 خاندانوں کے لال سرحد پار والوں کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی ایسی بھینٹ چڑھا دیئے جاتے ہیں کہ وہ خاندان ابھی تک اس کے درد سے تڑپ رہے ہیں ۔ دوسری طرف پی آئی اے کے ملازمین اس کی مجوزہ نجکاری کے خلاف ہڑتال کرنے لگتے ہیں تو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے ہڑتال کی تواسے فارغ کر دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں اب رواج بن چُکا ہے کہ چور جب لوگوں کے ہتھے چڑھتا ہے تو اسے پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے جمع ہونے والا ہجوم مارتا ہے اور جب مار مار کر تھک جاتا ہے تو پھر ماچس کی ایک تیلی سے اس زندہ لاش کو جلا دیا جاتا ہے ۔ جیسے ہی پی آئی اے کے یہ مزدور کراچی کی سڑکوں پر دکھائی دیئے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو آج کل کسی چور اور ڈاکو کے ساتھ کراچی میں کیا جاتا ہے۔ اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے والے شہداء کی بیوائوں کو ان کے بوڑھے ماں باپ کو اور ان کی بیٹیوں کو وہ سزا دی گئی جن کے وہ حق دار نہیں تھے۔ میڈیا سے متعلق 6 کیمرہ مین اور رپورٹر بھی پولیس اور رینجرز کی جانب سے کئے گئے لاٹھی چارج سے شدید زخمی ہو گئے ۔
میڈیا گواہ ہے کہ مسلم لیگ نوازکے ایک سینیٹر نے چار روز قبل اپنی میڈیا ٹاک میںکہا تھا کہ ہم نے پی آئی اے کی نجکاری چھ ماہ کیلئے معطل کر دی ہے۔ اس کا سادہ اور صاف الفاظ میں مطلب یہی ہے کہ نجکاری تو ہو گی اور اس کا ہم نے فیصلہ بھی کر لیا ہے لیکن ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے اسے ہم چھ ماہ کیلئے روک رہے ہیں۔جب آپ اپنے کسی عمل کو چھ ماہ کیلئے ملتوی کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ ملتوی کیا جانے والا یہ کام آپ چھ ماہ بعد دوبارہ شروع کر یں گے ۔اگر پی آئی اے کے ملازمین اس خدشے پر احتجاج کریں تو یہ کسی طور بھی منا سب نہیں کہ ان پر تشدد کیا جائے۔
محترم وزیر اعظم کے نجی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو کی کل سے سوشل میڈیا پر دھوم مچی ہوئی ہے جو انہوں نے2013 ء کے انتخابات سے پہلے دیاتھا۔ اس انٹرویو میں وہ بلند آواز میں فرما رہے ہیں کہ پچھلی دونوں حکومتوں نے پی آئی اے کو تباہ کر کے رکھ دیا‘ اس کا بیڑہ غرق کر دیا ‘ہم اقتدار میں آنے کے بعد اسے اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے‘ ہمارے پاس تجربہ کار ٹیم ہے ‘ہم اقتدار میں آنے کے بعد اس کی حالت سنواریں گے‘ اوراسے اونے پونے بیچنے کی بجائے نیو یارک میں واقع پی آئی اے کاملکیتی بیش قیمت روز ویلٹ ہوٹل بیچ کر نئے جہاز خریدیں گے ‘اس کیلئے تجربہ کار ٹیم لائیں
گے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک تصویر اور ٹی وی کی ویڈیو دیکھنے کو مل رہی ہے جس میں اسحاق ڈار ، عابد شیر علی اورراجہ ظفر الحق سمیت مسلم لیگ نواز کے درجن کے قریب لیڈران اپنے سینکڑوں کارکنوں اور پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین کے ہمراہ بڑے بڑے بینرز لئے ہوئے مظاہرے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ جن پر بڑے بڑے حروف میں ''پی آئی اے کی نجکاری نا منظور‘‘ کے نعرے لکھے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ یک لخت کیا ہوا کہ پی پی پی کی حکومت کا طے کیا گیا منصوبہ اس وقت آپ کو سخت ناپسند تھا جس کے خلاف آپ سڑکوں پر نکل آ ئے‘ جس کے خلاف سب لوگ بینرز لئے ہوئے اسلام آباد کی سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نظر آتے رہے ۔اس وقت آپ کو اس ''جرم ‘‘کی کوئی سزا نہیں دی گئی تھی اس وقت بھی ایئر پورٹ بند کئے گئے تھے لیکن کسی بھی جانب سے کوئی گولی نہ چلی تھی‘ کوئی بھی فرد جاں بحق نہ ہوا تھا۔ وہ عمل جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں ملک و قوم کیلئے تباہ کن تھا‘ آج آپ کی حکومت آنے کے بعد اچانک باعث ثواب اور ملک کے مفاد میں کیسے ہو گیا؟کل جب آپ ان ہڑتالی ملازمین کے ساتھ سڑکوں پر مارچ کر رہے تھے تو اس وقت آپ محب وطن تھے اور جب آج لوگ ان ہڑتالی ملازمین سے ہمدردی کاا ظہار کر رہے ہیں ان کے بارے میں آپ فرما رہے ہیں کہ یہ ملک دشمن ہیں‘ جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے روک رہے ہیں۔یہ دوہرا معیار کیوں؟
رعایا حکمرانوں کی اولاد کی مانند ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اسی خدا کی مخلوق ہے جس نے کسی حکمران کو بھی اسی طرح تخلیق کیا‘ جس طرح ان عوام کو تو کیا خدا کی مخلوق کی جان اس جان کی طرح نہیں ہوتی جس کے بارے میں کہا گیا‘ جس نے ایک انسان کو قتل کیا تو سمجھو کہ اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا؟ تو پھر ان لوگوں کو کس نے قتل کیا؟یہ کس جرم میں قتل کئے گئے؟ تین گولیوں سے تین خاندانوں کے سربراہ چھیننے والوں نے8 بیٹیوں کو یتیم کر دیا۔ ان بیٹیوں کو کس جرم کی اتنی بڑی سزا دی گئی ہے؟۔بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہو تی ہیں یا حاکم اور محکوم کی بیٹیوں میں بھی کچھ فرق ہو تا ہے؟حکمران کہتے ہیں کہ پی آئی اے پر اس وقت 300 بلین روپے کا قرضہ ہے توحضوروالا اگر اجا زت ہو تو کیایہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ‘ایک ہی دن میں580 ارب روپے کا جو '' گردشی قرضہ‘‘ آئی پی پیزکو ادا کیا تھا ؛وہ قومی ایئر لائن کو بھی دیا جا سکتا تھا۔!!