پی آئی اے بحران کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے:نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پی آئی اے بحران کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے‘‘ حالانکہ جب سے ماشاء اللہ بادشاہت قائم ہوئی ہے، سیاست کا رواج ہی ختم ہو چکا ہے، اس لیے رعایا کو رعایا بن کر ہی رہنا ہو گا، اور رعایا کو جس حال میں بھی رکھا جائے اسے صبر و شکر کر کے وہ حالت قبول کر لینی چاہیے اور اگر ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے تو یہ قولِ فیصل یاد رکھنا چاہیے کہ جیسی رعایا ہو اس پر حاکم بھی ویسے ہی مسلط کر دیئے جاتے ہیں، اس لیے جب تک رعایا ٹھیک نہیں ہوتی، ہم سے ٹھیک ہونے کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہڑتالی ملازمین کو خمیازہ بھگتنا ہو گا‘‘، جب کہ کراچی کے مظاہرین میں سے تین پہلے ہی کم ہو چکے ہیں اور اگر یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہتا ہے تو ہڑتالی کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہڑتال اور دھمکیوں کا کلچر قبول نہیں‘‘ جبکہ ایک سعادت مند رعایا کو یہ زیب بھی نہیں دیتا کیونکہ جن کی رعایا ہم ہیں، ان کے آگے تو ہم چوں بھی نہیں کرتے اور وقت بہت اچھا گزر رہا ہے، اُن کا بھی اور ہمارا بھی، خدا کرے کہ گاڑی اسی طرح چلتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ڈیوٹی پر نہ آنے والے ملازم فارغ ہوں گے‘‘ وہ ہماری طرف
دیکھیں کہ تھوڑا ملے یا زیادہ، ہم اپنی ڈیوٹی پر باقاعدگی سے حاضر ہوتے ہیں اور کمی بیشی کا کبھی حساب نہیں کیا کیونکہ سب کچھ سوئس اور دیگر بینکوں میں پڑا رہ جانا ہے، اور ہر آدمی نے سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسے ملازم جیل بھی جائیں گے‘‘ اور اگر ایسا ہوا اور کمرے میں سانپ چھوڑ دیا گیا تو لگ پتا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ان سے کوئی رعایت پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو گی‘‘ جبکہ اب تک اس کے ساتھ پہلے ہی اتنی زیادتی ہو چکی ہے اور پورے زور و شور سے جاری بھی ہے تو مزید زیادتی کی گنجائش کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اپوزیشن قومی ایشوز پر سیاست نہ کرے‘‘ کیونکہ اگر غیر سیاسی ایشوز مثلاً اورنج لائن وغیرہ موجود ہیں تو سیاست کرنے کے لیے انہی کو کافی سمجھا جائے؛ اگرچہ اس کے باوجود بھی انہوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچ جانا ہے اور جس جس کے لیے جو رزق اللہ میاں نے لکھ رکھا ہے وہ اُسے مل ہی جانا ہے جو پتھر میں چھپے کیڑے کو بھی رزق مہیا کرتا ہے؛ اگرچہ ہمارے صرف دل پتھر کے ہیں۔ انہوں
نے کہا کہ ''دھرنے نہ ہوتے تو بجلی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہوتے، اور ہمیں پارلیمان کی محتاجی نہ دیکھنی پڑتی؛ اگرچہ اب سنا ہے کہ ایک بار پھر دھرنا بازی شروع ہونے والی ہے اور ہمیں ایک بار پھر پارلیمان کی خوشامد درکار ہو گی، حالانکہ خاکسار تو اس کے اجلاسوں میں شرکت کا گناہگار بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پی آئی اے کی صورت حال برداشت نہیں‘‘ اور ہمارے صبر کا پیمانہ پھر بھرنے والا ہے جیسا کہ پچھلے دھرنے کے دنوں میں بھرتے بھرتے رہ جایا کرتا تھا، جو بعد میں معلوم ہوا تھا کہ اس کے پیندے میں کسی ستم ظریف نے سوراخ کر رکھا تھا جس کی وجہ سے صبر باہر بہتا رہتا تھا اور پیمانے کے بھرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی لیکن اب نیا پیمانہ بنوا لیا گیا ہے جو کافی تسلی بخش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فلائٹس آپریشن کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں‘‘ اور کوئی مسافر بھی سفر سے محروم نہیں ہے کیونکہ دوسری فلائٹس کے ذریعے دُگنے اور تگنے کرائے پر سفر کی جملہ سہولتیں موجود ہیں اور ہوائی جہازوں پر چونکہ امیر لوگ ہی سفر کرتے ہیں، اس لیے کرایہ اگر دس گنا بھی ہو جائے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ادارے کو خسارے کی حالت میں چھوڑا نہیں جا سکتا‘‘ بلکہ ہم تو عوام کو بھی خسارے کی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے کہ کہیں وہ اپنے حالات بہتر کر کے منافعے میں نہ آ جائیں اور ہمیں ہی آنکھیں دکھانی شروع کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پی آئی اے میں سفر کرنے والوں کو تکالیف پیش آتی ہیں‘‘ اگرچہ سفر نہ کرنے والوں کو زیادہ تکالیف پیش آتی ہیں جس کا ذمہ دار وہ ہمیں سمجھتے ہیں حالانکہ حکومت کا یہ کانٹوں بھرا تاج سر پر رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس سے سر میں ہر وقت کھجلی ہوتی رہتی ہے، اگرچہ یہ کھجلی ہتھیلی پر زیادہ ہوا کرتی ہے جو کہ دولت ملنے کی نشانی ہے، بلکہ ہمیں تو یہ ہتھیلیاں چھوڑ، دونوں پائوں کے تلووں میں بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''احتجاج کرنے والے حکومت کے ترقی کے ایجنڈے سے خائف ہیں‘‘ اگرچہ وہ صرف ہماری ہی ہو رہی ہے، لیکن ہو تو رہی ہے۔ آپ اگلے روز ساہیوال میں خطاب اور گفتگو کر رہے تھے۔ اور اب منصور آفاق کے وہ اشعار جو انہوں نے میرے لیے لکھے تھے:
محترم المقام ظفر اقبال کے نام
اس درجہ اپنا سرد رویہّ نہ عام کر
سردی اُتر رہی ہے رگوں میں کلام کر
غلطی سے ہاتھ چاند کے دامن سے جا لگا
میں جا رہا تھا رات کی دیوار تھام کر
کوئی مسافروں کے لیے بھی سرائے کھول
اُڑتے ہوئے پرندوں سے آباد شام کر
''آبِ رواں‘‘ کی سمت بدلنی محال ہے
جتنا قیامِ صفر کا اونچا مقام کر
ہے کوئی تو یہی ظفرؔ اقبال ایک ہے
منصور اپنا عہدِ غزل اس کے نام کر
آج کا مقطع
جس قدر بھی ظفرؔ اِک دوسرے کو چاہتے ہوں
نہیں آئے گا ستارے پہ ستارہ ہرگز