صبح سے شام ہوچکی تھی لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اورکمانڈر سدرن کمان جنرل عامر ریاض 'بلوچستان کی خوشحالی اور سلامتی‘ کے موضوع پر سیمینار میں بیٹھے ملک بھر سے آئے ہوئے دانشوروں، سیاستدانوں، اساتذہ اور صحافیوں کی گفتگو سن رہے تھے ۔ جب سوالات کا وقت آتا تو یہ دونوں حضرات سوالات بھی اٹھاتے اور کہیں ضرورت پڑتی تو وضاحت بھی پیش کردیتے۔ان دونوں کی موجودگی سے سیمینار میں جو معنویت پیدا ہوئی اس کی داد مجیب الرحمن شامی صاحب نے یہ کہہ کر دی کہ ''میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اس سے زیادہ منظم اور مربوط سیمینار میں کبھی شرکت کی ‘نہ کسی صدر، وزیراعظم،وزیراعلیٰ یا جنرل کو اتنی دیر تک علمی گفتگو سنتے دیکھا‘‘۔ شامی صاحب کے نصف صدی پر پھیلے ہوئے صحافتی تجربے میں اگر یہ اپنی طرز کا پہلا سیمینار تھا تو اس دوروزہ سیمینار کی اہمیت اورافادیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کہنے کو اس کا موضوع بلوچستان تک محدود تھا لیکن ملک بھر سے آئے ہوئے ماہرینِ فن نے جب اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا تو بات ایک ایسے بیانیے کی تشکیل کی طرف چل نکلی جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے لیے دہشت گردی کی جنگ میں نظریاتی ہتھیار کے طور پر کام کرے اور یہ اتنا لچکدار ہو کہ صوبے اس کی روح کو متاثر کیے بغیر اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکیں۔
پہلے دن کی کارروائی میں یہ طے ہوچکا تھا کہ امن و امان کی بہتر صورتحال کسی بھی خطے کی خوشحالی کا دیباچہ ہیں لیکن دستور و قانون کی قیمت پر نہیں۔ بلوچستان میں پرتشدد کارروائیاں کرنے والے علیحدگی پسندوں کی موجودگی میں اس نکتے کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ دستور و قانون کی پابندی پر عمومی اتفاقِ رائے اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے کہ اس نکتے پر صوبے کی سیاسی قیادت میں دو مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ سابق وزیرا علیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،موجودہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور وفاقی حکومت کی رائے میں بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرکے انہیں قومی دھارے میں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کے مقابلے میں صوبائی وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کھل کر کہتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر بلوچستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والے براہمداغ بگٹی ، حربیار مری اور جاوید مینگل جیسے دہشت گردوں سے مذاکرات کا مطلب ان لوگوں کو سزا دینا ہوگا جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہے ہیں۔بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑبھی اس معاملے میں سرفراز بگٹی کے ساتھ ہی نظر آتے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ تو اس معاملے پر اپنے موقف کی حمایت میں اتنے دلائل لاتے ہیں کہ سننے والے ان کا ہمنوا ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ کمانڈر سدرن کمان جنرل عامر ریاض نے بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم براہمداغ بگٹی (پوتا نواب اکبر بگٹی)، حربیار مری (خیربخش مری کا بیٹا) اور جاوید مینگل(عطااللہ مینگل کا بیٹا) سے کسی قسم کے مذاکرات کووہ اپنے پیشرو جنرل ناصر جنجوعہ کے برعکس بے فائدہ سمجھتے ہیں۔
اس ایک نکتے پر اختلاف کے باوجود صوبے میں قائم مخلوط سیاسی حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان اعتماد کی فضا مثالی ہے۔ ایک سینئر فوجی اہلکار نے تو مجھے بتایاکہ ''ہم نے وزیراعلیٰ کو زبان دی ہے کہ وہ صوبے کے جس حصے میں چاہیں ترقیاتی کام کریں، وہاں سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ہم جانیں لڑا دیں گے‘‘۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنی ڈھائی سالہ وزارتِ اعلیٰ کے دوران سکیورٹی اداروں کو یہ مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر آپریشن کریں لیکن طاقت اسی صورت میں استعمال کریں جب ان پر حملہ
کیا جائے۔ بظاہر یہ شرط معمولی نظر آتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کا مطلب ہے‘ اپنے آپ کو پہلی گولی کے نشانے پر رکھ لینا۔آفرین ہے ایف سی ، آئی ایس آئی، ایم آئی ، بلوچستان پولیس اور لیویز پر کہ انہوں نے جانیں قربان کردیں مگر وزیراعلیٰ کو شکایت کا موقع نہیں دیا، اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے موجودہ وزیراعلیٰ بھی صوبے میں سکیورٹی فورسز کے کردار سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کو اس وقت جو سیاسی حمایت میسر ہے اور انہوں نے جس انداز میں بلوچستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے دن رات کام کیا، اس کا ایک نتیجہ وہ تصویر ہے جس میں چیف آف آرمی سٹاف وزیراعظم کو ایک کھلی جیپ میں بٹھا کر ہوشاب گوادر شاہراہ کا دورہ کرا رہے ہیں۔
بات ہورہی تھی دہشت گردی کے خلاف بیانیے کی تشکیل کی۔ بلوچستان میں متنوع آبادی اور رنگا رنگ نظریات کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے جو بیانیہ تشکیل پائے گا وہ پورے ملک کی ضرورت پوری کرسکے گا۔ عجیب بات ہے کہ بلوچستان جس کی پسماندگی کو ہم رونا روتے رہتے ہیں، سیاسی حوالے سے ہمیشہ پختگی کا ثبوت دیتا ہے۔ جب پاکستان کے تین صوبے عدالتوں میں جاکر بلدیاتی الیکشن نہ کرانے کے بہانے تراش رہے تھے ، اس وقت بلوچستان نے اپنے ہاں بلدیاتی ادارے قائم کرکے اپنی سیاسی و جمہوری سوچ کا اظہار کردیا۔ اسی طرح پورا ملک پندرہ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے لیکن اس جنگ کے نظریاتی محاذ پر وفاقی وزارت اطلاعات کے ذمہ داران وزیر اعظم کے گن گانے اور صوبائی حکومتوں کے محکمہ ہائے اطلاعات سوائے اپنے اپنے وزرائے اعلیٰ کے قصیدے پڑھنے کے کچھ نہیں کررہے۔ بلوچستان نے ایک بار پھر ملک بھر کو راہ دکھائی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ایک متفقہ بیانیے کی تیاری ایک مشکل کام ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ حکومت اسے کر نہ سکے۔
سیمینار کے دوسرے روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی آگئے۔ ان کی موجودگی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ فوج کے نزدیک بھی دہشت گردی کا مستقل حل اس کی فکری جڑوں کو کاٹنے سے ہی مشروط ہے۔ سپاہ سالار نے نہ صرف پوری دلجمعی سے ڈاکٹر مالک بلوچ، شفقت محمود، مولانا عبدالواسع ، سینیٹر آغا شکیل درانی اور انوارالحق کاکڑ کی تلخ و شیریں جبکہ سینیٹر مشاہد حسین کی صرف شیریں گفتگو سنی بلکہ بڑی فصاحت سے ملک اور بلوچستان کے حالات کا مدلل تجزیہ بھی پیش کیاجس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص دہشت گردی کی وجوہ مقامی نوعیت کی نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کی ہیں اس لیے یہاں دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ ہمہ گیر حکمت ِ عملی اختیار کرنا ہوگی۔ہمہ گیر حکمت عملی سے ان کی مراد یہ تھی کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو گورننس کے معاملات بہتر بنانا ہوں گے ۔ چیف آف آرمی سٹاف کی موجودگی میں جب بھی گورننس کا ذکر آیا، سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ مسکرانے لگتے، اور موجودہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گزر جاتا۔