تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-02-2016

گڈ گورننس

حکومت چلانے کے جوطور طریقے اس وقت زیرعمل ہیں‘ جاری رہے‘تو بڑے بڑے ڈرامے دیکھنے کو ملیں گے۔ کل ریلوے کے ملازمین نے ہڑتال کر دی‘ تو حکومت کا اعلان ہو گا کہ ہم ریلوے کو چلانے کے لئے نئی انتظامیہ کھڑی کریں گے اور اگر ایسا نہ ہوا‘ تو اس کی نجکاری کر کے جان چھڑا لیں گے۔ اس کے بعد ریلوے ملازمین جانیں اور ان کی بیروزگاری۔ یہی کچھ سٹیل مل میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ملازمین بھی سڑکوں پر آ جائیں گے اور حکومت اس کا انتظام بھی اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ایک طرف یونین کے احتجاجی مظاہرے ہوں گے‘ دوسری طرف ریلوے کی نئی انتظامیہ حالات کو سمجھنے میں لگی ہو گی۔ ملک میں جہازوں کی پروازیں 
غیریقینی ہو جائیں گی۔ کسی کو پتہ نہیں ہو گا کہ وہ کب سفر کر سکے گا؟ پی آئی اے کے جہاز چل نہیں پائیں گے۔ حکومت نے اس کا متبادل یہ بتایا ہے کہ ایسے لوگ نجی ایئرلائنز کے ذریعے‘ پی آئی اے کے ٹکٹ پر سفر کر سکیں گے۔ کہنے کو تو یہ ہو گیا لیکن مسافر بیچارے کہاں کہاں جائیں گے؟ اور نجی ایئرلائنز والے ان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں‘ کیا اس کے لئے بہتر نہیں ہو گا کہ وہ سفر کا ارادہ ہی ترک کر دیں ؟یا دوسرے ذرائع سے اپنی منزل پر پہنچنے کا انتظام کریں؟ عملی طور پر پاکستان کسی پسماندہ اور دورافتادہ افریقی ملک کا نقشہ پیش کرنے لگے گا۔ جو کہانیاں بیرونی میڈیا میں شائع ہو رہی ہیں‘ انہیں پڑھ کے ہمارے طرز حکومت پر ‘دلچسپ تبصرے ہو رہے ہیں۔ایک نشریاتی ادارے نے مسافروں کے تکلیف دہ واقعات بتائے ہیں۔ مثلاً کراچی ایئرپورٹ پر واقع ایک ہوٹل کے مناظر قابل دید ہیں۔ کئی بزرگ احرام پہنے ‘ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان بزرگوں میں ساڑھے تین سو کے قریب مسافروں کو اندرون اور بیرون ملک سفر کرنا تھا لیکن فضائی آپریشن معطل ہونے کی وجہ سے اب وہ بے بس ہو گئے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک بزرگ نے بتایا کہ انہوں نے کئی سال تھوڑے تھوڑے روپے جمع کر کے کرائے کے لئے پیسے جمع کئے تھے تاکہ عمرہ ادا کر سکیں۔ لیکن گزشتہ پانچ روز سے یہ بزرگ ہوٹل میں موجود ہیں اور پیچھے ان کے رشتہ دار پریشان ہیں کہ ہمارے بابا جی عمرے کا کہہ کر کسی اور طرف تو نہیں نکل گئے؟ یہاں بزرگ صاحب کی یہ حالت تھی کہ مسافروں کے کپڑے و دیگر سامان بک کر دیاگیا تھا‘ جو واپس بھی نہیں مل رہا۔ پی آئی اے کی پرواز نہیں جا رہی‘ تو کسی اور ایئرلائنز کے جہاز میں بٹھا دیں۔ رحیم یار خان کے رہائشی منیراحمد خان کی پریشانی کچھ زیادہ ہی تھی۔ سعودی عرب میں ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے کو تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 8فروری کے بعد وہ سعودی عرب میں داخل نہیں ہو سکیں گے‘ اس لئے وہ دوسری فضائی کمپنی کے ذریعے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا سامان بھی انہیں واپس نہیں مل رہا اور یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ سامان کی واپسی کب تک ممکن ہے؟ انہوں نے کھانے پینے کی جو اشیا‘ اچھی طرح پیک کر کے رکھی تھیں‘ ظاہر ہے وہ ضائع ہو چکی ہوں گی۔ اس ہوٹل میں کئی خاندان موجود ہیں۔ جن میں سے بعض نے بچوں کے کپڑوں سمیت دیگر ضروری اشیاء کی دوبارہ خریداری کر لی ہے۔ نظام الدین سکھر سے آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دوائوں کے علاوہ کچھ رقم بھی بیگ میں احتیاط سے رکھ دی تھی۔ اب دونوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ 
پی آئی اے کا فضائی آپریشن معطل ہونے کے بعد‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نجی کمپنیوں کو پروازیں اڑانے کی ہدایت کی ہے۔ ان کمپنیوں نے پریشان حال مسافروں کی جیب پر اور بوجھ ڈال دیا ہے۔ نجی کمپنیوں نے کرائے بڑھا کر‘ مسافروں کی مالی حیثیت کا امتحان لینا شروع کر رکھا ہے۔ جو ٹکٹ پہلے 9ہزار روپے کا ہوتا تھا‘ وہ اس وقت کم سے کم 19ہزار روپے میں دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی نجی فضائی کمپنیوں کے طیاروں کی تعداد‘ پی آئی اے کے مقابلے میں کم ہے۔ ٹریول ایجنٹ ندیم شریف کا کہنا ہے کہ جن مسافروں نے پی آئی اے کے ٹکٹ لئے تھے‘ اب انہیں دوسری فضائی کمپنیوں میں ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے‘ لیکن کرایوں کا بڑا فرق ہے اور یہ بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پاکستان میں ریلوے کا سفر کم خرچ ضرور ہے‘ لیکن سہولیات کے فقدان اور ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر کی وجہ سے لوگ اس سے گریز کرتے ہیں۔ مجبوری لوگوں کو اس طرف کھینچ لائی ہے۔ لاہور ریلوے سٹیشن سے کراچی کے لئے روانہ ہونے والے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچنے والا مسافر ‘ 18سے 20 گھنٹے میں پہنچے گا اور جو ملاقاتیں مجوزہ تھیں‘ ساری کی ساری متاثر ہوئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انہیں اور کمپنی‘ دونوں کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ کراچی میں پی آئی اے کے مرکزی دفتر میں ملازمین کا احتجاج تیسرے روز بھی جاری رہا‘ جہاں ملازمین کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ مرد سائے میں بیٹھتے ہیں اور خواتین کے لئے دو درجن سے زیادہ کرسیاں لگی ہوئی ہیں۔ دوپہر کو یہاں شرکا کے لئے بریانی کا بندوبست ہوتا ہے‘ جس میں اولیت صحافیوں کو دی جاتی ہے۔ سراپا احتجاج ملازمین کا پہلے یہ مطالبہ تھا کہ نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ وہ مطالبہ تو پورا نہیں ہوا‘ اب وہ دوسرا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں کہ ان کے دو ساتھیوں کے قتل کی تحقیقات کر کے ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنے ساتھیوں پر تشدد اور 2کی ہلاکت کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لئے ملیر سیشن کورٹ میں درخواست دی تھی‘ جس میں وزیراعظم کے ہوابازی کے مشیر شجاعت عظیم‘ سینیٹرمشاہد اللہ اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر آصف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ عدالت نے پولیس کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کرے اور اگر وہ قابل دست اندازی ہو‘ تو مقدمہ درج کیا جائے۔ سندھ حکومت تحقیقات کر رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ جنہوں نے بڑے بڑے مجرموں کو گرفت میں لیا ہے‘ وہ بھی اپنے کام میں مصروف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قاتل بچ نہیں پائیں گے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ کے مطابق جس شخص کو ویڈیو میں مشکوک ظاہر کیا جا رہا ہے‘ وہ پی آئی اے کا ملازم ہے‘ جس نے شیلنگ سے بچنے کے لئے چہرے پر رومال ڈال رکھا تھا۔ 
حکومت اپنی طرف سے یہ سمجھ رہی ہے کہ پی آئی اے کی پروازیں بند ہونے سے ہڑتال کرنے والے ملازمین کو سبق سکھایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ سبق پورے ملک میں شہریوں کو دیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی‘ جو پی آئی اے کے ذریعے دوسرے ملکوں میں سفر کر رہے تھے‘ مختلف ایئرپورٹس پر بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ اب وہ کدھر جائیں؟ ان کے ویزے کی مدت ختم ہو گئی‘ تو وہ کیا کریں گے؟ جو اخراجات کے لئے اپنے میزبانوں پر بھروسہ کر کے آئے تھے‘ وہ کیا کریں؟ جن نجی ایئرلائنز کے ساتھ حکومت نے یہ معاہدے کئے کہ وہ پی آئی اے کے ٹکٹ والے مسافروں کو لے جائیں لیکن یہ وضاحت موجود نہیں تھی کہ ٹکٹ کا جو فرق پڑ رہا ہے‘ و ہ کون دے گا؟ مسافروں کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ پی آئی اے کے کائونٹر پر جا کر اپنا ٹکٹ دکھائیں اور سفر کر لیں۔ مگر جب وہ نجی کمپنی کے کائونٹر پر جاتے ہیں‘ تو ان سے مزید رقم طلب کی جاتی ہے اور جو مسافر سوال کر بیٹھے‘ اس کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔ حکومت چلانے والے بابو تو اپنی طرف سے پی آئی اے کے ملازمین کو سزا دے رہے ہیں‘ لیکن اس سزا کے نتیجے میں جو تکلیف پاکستانی مسافروں کو دنیا بھر میں دی جا رہی ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان مسافروں کو کس جرم کی پاداش میں پردیس کے اندر ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں؟ کتنے بزرگ مرد اور عورتیں‘ سعودی عرب میں پریشان پھر رہے ہیں‘ جو عمرے کے لئے واجبی خرچ لے کر سعودی عرب گئے‘ ان کی واپسی کا ٹکٹ بیکار ہو گیا‘کیونکہ پی آئی اے کی پروازیں ہی بند پڑی ہیں۔ وہ کہاں جائیں؟ کس کے پاس جائیں؟ حکمران کہتے ہیں کہ وہ پی آئی اے کے ملازمین کے پر کتر دیں گے۔ مگر جو مسافر ‘ دوسرے ملکوں میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہونے کی وجہ سے پریشانیوں کا شکار ہو رہے ہیں‘ حکومت نے ان کے پر کس جرم کی پاداش میں کاٹے؟ افسران بالا کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ پی آئی اے کے ملازمین کو سزا دینے کی خاطر‘ پاکستان کے ہزاروں بے گناہ 
مسافروں کو سزائیں دے رہے ہیں۔ کیا اسی کو جمہوری حکومت کہتے ہیں؟ کیا عوام کے نمائندوں کی حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ فیصلے کرتے وقت بے گناہ عوام کو سزائیںنہ دے؟ انہیں غیرملکوں میں دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا جائے اور بیچارے بزرگ اور خواتین بغیر کسی جرم کے‘ تکالیف کا شکار ہوں؟اپنی قومی ایئرلائنز کے ٹکٹ خرید کر انہیںبلاجواز سزائیں بھگتنا پڑیں؟ بغیر کسی وجہ کے خراب ہونے والے وہ مسافر‘ جو ن لیگ کے زبردست حامی ہیں‘اپنے ساتھیوں کے طعنے سن کر کیا جواب دیں؟ ایک طرف وہ تکلیفوں اور مشکلوں کا شکار ہیں اور دوسری طرف ان کے ساتھی طنز کرتے ہیں کہ یہ ہے تمہارے نوازشریف کی حکومت؟ اسی کو کہا جاتا ہے گڈگورننس؟ جھگڑا پی آئی اے یونین سے ہے اور سزا سارے پاکستان کو دی جا رہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved