تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-02-2016

تازہ ’’فانوس‘‘ میں چھپی حامد یزدانی کی نظم

مرے لاہور (ایک کولاژ)
مرے لاہور/تم کب اپنے بوجھل کندھے اُچکائو گے/یکسر بے خیالی میں.../کرو گے بات اس ناراض ٹیلیفون سے/ بتلائو گے، امریکہ سے آئے صحافی کو/ کہ آخر لوگ کیوں اتنے خفا ہیں/خوش نما بحران سے/کیوں ملگجے مزدور بچوں کی ہنسی/ سیلاب بھر بہتی ہوئی ندی/ ابھی پکی سڑک کی خام وحشت میں بھٹکتی ہے/ ادھورے امتحان سکول کے ٹاٹوں پہ بکھرے ہیں/ وہ چوبی تختیوں سے جھولتی کالی دواتیں/سولہ کاالٹا پہاڑہ/ میز کے نیچے جھجکتے، کسمساتے حرف و معنی کے نئے رشتے/جہالت کا سبق ازبر نہیں ہوتا!/سویرا دھیرے دھیرے چھپ رہا ہے/ جون کے پہلو میں/ پبلک لائبریری کے احاطے میں/ فضا میں آکسیجن کھوجتی چڑیا کی حیرانی/ کہ لارنس گارڈن کے ڈھلتے پیڑوں کو چِڑاتی/ گورنمنٹ کالج کے اوول پر چمکتی دھوپ/ آخر ایک سی کیوں ہے!
2:
دبکتی چھائوں میں دیوار روتی ہے/کسی اخبار کے دفتر میں دبکا لاتعلق سا پر/ٹوٹے ہوئے سگنل، ربڑ جیسا سپاہی/ کاغذی بندوق، مسروقہ خبر/رہگیر جانے کیوں ہراساں ہیں!/ چہکتاتائیوان کا نوکیا/پھر دن دہاڑے چوک چوبرجی میں لٹ جاتا ہے، وہ تنخواہ گنتے ہیں/ مسلسل گنتے جاتے ہیں/ چٹختی انگلیاں جھڑنے لگی ہیں/ریز گاڑی کی طرح/ روداد جاری ہے/اسی پسماندہ چینی کی/ شکردانی سے لے کر ڈاک کے خالی لفافے تک/اڑھائی سو روپے،ماہانہ اخراجات کے گنجھل/کہ اک عددی کتھک/اب اک غزل کے تیس ماہِ نو سے ملتے ہیں/ سنا ہے ریڈیو پچاس دیتا ہے/تو جیتا کون؟/ساغر؟یا کوئی اقبال ساجد؟/چھوڑئیے یہ بعد میں سوچیں گے/پہلے، چینی والے اس لفافے کو تو تھیلے میں ذرا رکھ لیں/ وہ دیکھیں! چیونٹیاں آنے لگی ہیں۔
3:
منتخب ایواں کی چکنی سیڑھیوں سے لے کے/ سیکرٹریٹ کی سردراہداری تلک/ بیروزگاری کی چپکتی بھنبھناہٹ/ فائلوں میں رینگتے کچھ ملتجی سے/ سائلوں میں ڈھل رہی ہے/ خواہشوں کے موڑ مڑتی غیر ملکی/ گاڑیوں کی روشنی میں/شام عریاں ہے/ اکہتر اور پینسٹھ کے زمانے لد گئے...پھر بھی/ اندھیرا کیوں نہیں جاتا؟/ یہاں میلے تو ہوتے ہیں چراغاں کیوں نہیں ہوتا/ سٹاک ایکسچینج کی لپٹیں معاشی پالیسی کو بوسہ دیتی ہیں/ حقارت سے/ شکستہ پٹڑیاں، رفتہ صدی کا زنگ/ گورے، نیم گورے صاحب اور پس خوردہ آزادی کے نعرے/ یاکسلمندی؟ تھکن؟ پامال سانسیں نیلے پیلے قمقمے سے/ شیرشہ سوری کے رستے میں دراڑیں اگ رہی ہیں/ جنگِ آزادی سے رنگ خو اب تک، بس ایک نارنجی دیاسا بڑ بڑاتا، سوئے اسٹیشن کے پیچھے/ گاڑیوں کی تیز گامی سے پرے/ کچھ تار بجلی کے/ سڑک کے دونوں جانب، آرپار/ جمع ہوتے، ضرب کھاتے، بھورے کوے/ شہر بھر کی بے لباسی گن رہے ہیں/ چاہ میراں سے نفیرآباد تک/ زندہ دلوں کی یاد/ وہ اقبالؔ، دانشؔ، فیضؔ، شورشؔ، تاجورؔ، یزدانیؔ، عابدؔ اور ندیمؔ/ امروز محفل، ریڈیو مجلس، بیاض، امروز، مشرق اور فنون/ جھلملاتے عکس سارے/ عشق کے مارے، وہ پیارے کیا ہوئے؟/اب بالز اک چپ ہے/ ادب چوپال میں سمٹا ہے یا/بیٹھک کی زینت ہے/ سعادت جی!/ منیر، اشفاق، 
انجم اور جالبؔ کی نشستیں اب بھی خالی ہیں/ سراجؔ، ارشاد، خالدؔ اور ضیاؔ، جاوید تابش/ اصغرؔو امجدؔ، وسیم و طارقؔ و مختارؔ سارے یار باہر منتظر ہیں/ گیلی ریکنگ پر/ نتیجہ آنے والا ہے/ سراسیمہ ساٹی ہائوس، چائے.../چائے کا کیا ہے؟ سٹوڈنٹس اون چوائس سے بھی پی لیں گے/ مگر شیزان کے ملبے کو ڈھونڈیں کس کی بستی میں/ خجستہ مال کو شہ راہ کا طعنہ کھائے جاتا ہے/ ترانہ خطۂ لاہور کاکس پان کے کھوکھے پہ بجتا ہے/ دھنیں، سردی کی راتیں بن گئی ہیں/ پیالوں میں کھنکتی ایک آہٹ/یا کہیں امجدؔ علی کی گنگناہٹ
4 :
نیشنل سنٹر، عجائب گھر، نمائش/چھت کی رنگینی میں اُلجھے صادقینی عکس کیا جانیں/ کہ ضلعی ناظمین بہتر رہیں گے یا میئر/ اُن کو بھلا کیا فرق پڑتا ہے/ زیادہ کون چلتا ہے،ظفرؔ اقبال کی غزلیں کہ کالم خالد احمد کا؟ نیا قانون، برقعہ... اور اب/ ہر ایک منٹو آن لائن ہے/ ابھی تک سائبر کیفے میں کتنی بھیڑہے!/چیٹنگ کے رسیا پوچھتے ہیں/سالِ نو کا ریٹ کتنا ہے؟/ بھٹکتے حرف اور کیبل کا کیا جھگڑا ہے/ معلومات کا اندھا خزانہ لُٹ رہا ہے، پر لٹیرا کون ہے؟ ابکائی بدرو سے بجٹ تک پھیل جاتی ہے/ سی این این اور بی بی سی کہاں ہیں اب؟/ تھیٹر بند ہے/ لیکن مسلسل کھیل جاری ہے/ کہانی اپنا راوی ڈھونڈتی ہے/ ریت سے لپٹی پتنگوں کو ہوا ملتی نہیں/ دیکھو، یہ آندھی کی دعائیں کون کرتا ہے؟/ کہ کھڑکی 
میں پڑے کاغذ اُڑانے کو تو ٹیبل فین کافی ہے/ نشستِ شاعری برپا ہے قلعے میں/ سیاسی قیدیوں کی سسکیاں بھی داد دیتی ہیں۔
5:
خبر کی کھوڑ بھرتی میڈیا کوریج/ کچہری کی طرح کیوں لال ہے مسجد؟/ اذانیں ایک جیسی مختلف ہیں/ داتا صاحب سے سمن آباد تک/ بہرے سپیکر بانٹتے ہیں فرقہ وارانہ دھماکے یا دھمال!/ یہ آخر کون ہیں جو خانہ جنگی چھانتے ہیں جنگ سے/ اور کیش کرواتے ہیں چیک اب بھی/ لٹے قومی خزانے سے/ قیامِ امن کے، قومی ثقافت اور شرافت کے اثاثے/ عسکری کھاتوں میں پس انداز کرتے ہیں/ شمالی گھاٹیوں کی آتش بازی مری گلیوں تک آ پہنچی/ دُھواں سا پھیل جاتا ہے/ مزنگ اڈے سے ماڈل ٹائون/ نسبت روڈ سے شہ راہِ قائد تک/ کہ موٹروے پہ بھی ہے ناشناخت دھند کا ڈیرا/ درانتی سے ستاروں تک وہی چہرا/ کبھی اے کاش ناگی یہ بھی منوؔ بھائی سے پوچھے/ کہ آخر حزن کب اس شہر کے موسم کو چھوڑے گا؟/ سیاسی پوسٹر/ اور جھنڈیاں بھی جل چکیں کب کی/ سوالی ہڈیاں بھی گل چکیں کب کی/ مگر یہ کیا ضیافت ہے/ کہ اب تک ختم ہونے میں نہیں آئی۔
آج کا مطلع
روز سرِ راہ اُس کا ملنا ممکن ہے مجبوری ہو
لیکن اب تو یوں لگتا ہے جیسے بہت ضروری ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved