تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     07-02-2016

میاں صاحب کے پاسپورٹ کی کہانی

نجکاری کے خلاف احتجاج کرنے والے، قومی ایئرلائن کے کارکنوں پر 2 فروری کو کراچی میں جو بیتی، اس پر برادرم رؤف کلاسرا کو 10 ستمبر 2007ء یاد آیا، جب جناب نواز شریف لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ یہ میاں صاحب کی طرف سے ایک طرح کا ''گیٹ کریش‘‘ تھا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں تھا۔ چاروں طرف خوف اور دہشت کے سائے تھے۔ اردو محاورے کے مطابق چڑیا کو بھی پر مارنے کی اِجازت نہ تھی۔ دھکم پیل میں میاں صاحب جہاز کی سیڑھیوں سے اُترے تو ماحول تالیوں سے گونج اُٹھا۔ یہ پی آئی اے کے افسران اور ایئرپورٹ کا عملہ تھا جو اپنی نوکریاں تک خطرے میں ڈال کر سابق وزیر اعظم کا استقبال کر رہا تھا۔ یہاں رؤف کلاسرا کو میاں صاحب کے پاسپورٹ کا معاملہ بھی یاد آیا۔ حکام کی کوشش تھی کہ میاں صاحب اپنا پاسپورٹ ان کے حوالے کر دیں (وہ اس کے لیے امیگریشن کا بہانہ کر رہے تھے) لیکن میاں صاحب کسی سیانے کے مشورے پر، پاسپورٹ دینے سے انکاری تھے۔
چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد والی سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی وطن واپسی کو ایک شہری کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے حکومت کو اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت توہین عدالت سے بچنے کے لیے، امیگریشن کی سٹیمپ والا پاسپورٹ پیش کر سکتی تھی کہ وہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترے اور واپس چلے گئے۔ میاں صاحب نے نومبر میں دوبارہ وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو یہ پاسپورٹ پھر خبروں کا موضوع بن گیا۔ طرح طرح کی کہانیاں عام ہوئیں، ایک یہ کہ میاں صاحب نے یہ پاسپورٹ لندن بھجوا دیا تھا۔ پاسپورٹ کی یہ کہانی دلچسپ ہے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ سے یہ پاسپورٹ کہاں گیا؟ اور نومبر میں وطن واپسی سے پہلے میاں صاحب نے یہ کہاں سے اور کیسے حاصل کیا؟ یہ تفصیل بعد میں، پہلے اس کہانی کا کچھ اور حصہ۔
10دسمبر 2000ء کو سابق وزیر اعظم اٹک جیل سے (اپنے اہل خانہ کے ہمراہ) جدہ پہنچے تو سرکاری ذرائع کے مطابق یہ جلاوطنی دس 
سال کے لیے تھی اور شریف فیملی کو یہ عرصہ سعودی عرب ہی میں گزارنا تھا (میاں صاحب اور اُن کی مسلم لیگ ایسی کسی ڈیل کی تردید کرتی تھی) کچھ عرصے بعد ان کی سعودی عرب سے لندن کی تیاریوں کی خبریں آنے لگیں۔ کہا جاتا تھا کہ اس میں بھی انہی ''دوستوں‘‘ کا اثر و رسوخ کارفرما ہے، جو انہیں جیل سے سرزمین حرمین لانے کا باعث بنے تھے۔ میاں صاحب کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی تھی‘ جس کے خلاف میاں صاحب اور سرکار دونوں اپیل میں چلے گئے تھے۔ سابق وزیر اعظم خود کو بے گناہ قرار دے کر اپنی بریت کے لیے درخواست گزار تھے‘ جبکہ حکومت عمر قید کی سزا کو کم قرار دے کر سزائے موت کا مطالبہ کر رہی تھی کہ میاں صاحب کے عرب دوست بروئے کار آئے (ہر اچھے کام کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کے عادی امریکن، اس کے کریڈٹ میں بھی خود کو حصے دار قرار دیتے ہیں)۔ 
ادھر 2002ء کے الیکشن قریب آچکے تھے۔ ڈکٹیٹر کی سیاسی ضرورت کے لیے وجود میں لائی جانے والی قاف لیگ کے متعلق ایجنسیوں کی محتاط رائے تھی کہ شاید مطلوبہ انتخابی نتائج نہ لا سکے۔ میاں صاحب جدہ روانگی کے وقت اپنے وفادار مسلم لیگیوں کی قیادت کا عَلم، جاوید ہاشمی کو تھما آئے تھے۔ یہ تعداد میں کم تھے لیکن ڈکٹیٹر کی اعصاب شکنی کے لیے کافی تھے۔ لاہور کے بزرگ ایڈیٹر (اب مرحوم) عمرے کے لیے سعودی عرب آرہے تھے۔ پرویز مشرف نے اُن کے ہاتھ پیغام بھجوایا۔ نون لیگ اور قاف لیگ کے ادغام کا پیغام، جس کی صدارت میاں صاحب کے نامزد کسی فرد کے سپرد کی جا سکتی ہے۔ اور یہ کہ یہ متحدہ مسلم لیگ الیکشن لڑے۔ میاں صاحبان اس دوران بیرونِ ملک رہیں۔ الیکشن کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہو جائے تو شہباز صاحب واپس آ جائیں جبکہ بڑے میاںصاحب سعودی عرب سے باہر جانے میں آزاد ہوں گے۔ وہ یورپ اور امریکہ جائیں، گھومیں پھریں، سیروتفریح کریںبرگر کھائیں لیکن پاکستان کا رُخ نہ کریں تاوقتیکہ یہاں سیاسی ماحول مستحکم ہو جائے۔ اس ''ڈیل‘‘ میں مشرف کی پانچ سالہ صدارت پکی تھی۔ میاں 
صاحب نے اس پیشکش کو مسترد کرنے میں تاخیر نہ کی۔ اسی دوران، ان کے پاسپورٹ کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا۔ 12 اکتوبر کی فوجی کارروائی میں پرائم منسٹر ہاؤس پر قبضے کے دوران وہاں کی تمام اشیا حکومت کی تحویل میں چلی گئی تھیں۔ 14 ماہ بعد جلاوطنی کے وقت جو چیزیں واپس کی گئیں، اُن میں وزیر اعظم کا ڈپلومیٹک پاسپورٹ نمبرD000377 بھی تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس پر 10دسمبر کو پاکستان سے EXIT اور سعودی عرب میں ENTRY کی کوئی اسٹیمپ نہیں تھی۔ یہ پاسپورٹ 28 اپریل 2002ء کو ایکسپائر ہو گیا۔ 
اکتوبر2005ء میں یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا۔ یہ ایام شہرِ نبی ؐ میں (اپنی فیملی سمیت) گزارنا میاں صاحب کا معمول تھا۔ لندن سے ان کا چھوٹا صاحبزادہ حسن بھی آ گیا تھا کہ یہاں اِسے اچانک بیماری نے آلیا۔ کنگ فیصل اسٹیبلشمنٹ ہسپتال جدہ میں ڈاکٹروں نے (جن کا شمار اپنے شعبے میں دُنیا کے بہترین ماہرین میں ہوتا تھا) ساڑھے پانچ، چھ گھنٹے تک مختلف ٹیسٹ لئے اور حسن کو لندن لے جانے کی ایڈوائس دی۔ مدینہ منورہ میں اسے روزانہ سات، آٹھ گھنٹے ڈرپس لگتیں۔ اس دوران وہ نمازیں اپنے کمرے ہی میں ادا کرتا، مسجدِ نبوی ؐ میں جانے کے لیے وہیل چیئر استعمال ہوتی۔ میاں صاحب اور باقی اہلِ خانہ کو حسن کے ساتھ لندن جانے کے لیے پاسپورٹ 
درکار تھے۔ میاں صاحب کے بااثر دوست پھر کام آئے اور مشرف حکومت نے 9 نومبر کو میاں صاحب (اور اہلِ خانہ) کو پاسپورٹ جاری کر دیے۔ میاں صاحب کے لیے یہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ کی بجائے عام پاسپورٹ تھا۔ سابق وزیر اعظم کی ڈپلومیٹک پاسپورٹ سے محرومی کو بعض لوگوں نے موضوع بنایا لیکن خود پاسپورٹ ہولڈر کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ پاکستان کا سبز پاسپورٹ اس کے لیے ہر اعزاز سے بڑھ کر تھا۔ حکومتِ پاکستان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم اس پاکستانی پاسپورٹ پر دُنیا میں کہیں بھی جا سکتے ہیں، پاکستان نہیں آ سکتے۔ اس پر ایک ستم ظریف کا تبصرہ تھا، لیکن اس سے پہلے تو یہ پابندی صرف اسرائیل کے لیے ہوتی تھی۔ 
ڈاکٹروں سے طے شدہ اپوائنٹ منٹس کے مطابق حسن 7 نومبر کو لندن روانہ ہو گئے، جہاں دو دِن بعد ان کا پہلا ٹیسٹ تھا۔ جدہ میں برٹش قونصلیٹ سے ویزا سٹیمپ ہونے کے بعد میاں صاحب، بیگم صاحبہ، مریم اور حسین بھی لندن روانہ ہو گئے۔ اللہ نے کرم کیا، بروقت علاج کے باعث حسن روبصحت ہونے لگا۔ اب لندن کی آزاد فضاؤں میں، میاں صاحب سیاست کرنے کے لیے بھی آزاد تھے۔ یہاں انہوں نے بے نظیر صاحبہ کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے۔ اگلے سال آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی کی۔ اسی دوران میاں صاحب اور محترمہ میں فاصلے پیدا ہونے لگے۔ امریکی اور برطانوی دوستوں کے ذریعے مشرف اور محترمہ میں رابطے بڑھے توا ین آر او پر کام ہونے لگا۔ جنرل کیانی کو اس کا مصنف کہا جاتا تھا۔ اُدھر سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی وطن واپسی پر پابندی کو غیر آئینی قرار دے دیا تو 10ستمبر 2007ء کو وہ لندن سے اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ اس کہانی میں ایک اہم بات یہ تھی کہ خود امریکی بھی میاں صاحب کی وطن واپسی کے حق میں نہیں تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ میاں صاحب کی پاکستان میں موجودگی این آر او پر عملدرآمد میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اسلام آباد سے میاں صاحب کو جدہ بھجوانے کے لیے خود مشرف نے شاہ عبداللہ سے رابطہ کیا، شاہ نے اس یقین دِہانی کے ساتھ اِسے قبول کیا کہ محترمہ بھی اس دوران وطن واپس نہیں آئیں گی۔ 18 اکتوبر کو محترمہ کی وطن واپسی کے بعد، نواز شریف کو جلاوطن رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ اس میں شاہ کے لیے مشرف کے منت ترلے بھی کام نہ آئے۔ اب میاں صاحب کو اپنا پاسپورٹ درکار تھا۔ 
اس کہانی کا دلچسپ موڑ۔ ہم بھی اُن دِنوں جدہ میں ہوتے تھے (ایک سعودی اخباری ادارے میں ملازمت) میاں صاحب نے ہمیں لاہور آنے اور یہاں سے اُن کا پاسپورٹ لے جانے کا کہا۔ یہ پاسپورٹ، انجینئرنگ یونیورسٹی کے پیچھے ایک گاؤں میں مقیم گلزار چودھری کے پاس تھا۔ میاں صاحب کی ہدایت کے مطابق اس سے ٹیلیفون پر رابطے میں ہمیں اپنا نام چودھری جاوید بتانا تھا۔ ہم انجینئرنگ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر3 کے سامنے اِسے ملے۔ عید کی چھٹیوں کے باعث یونیورسٹی بند تھی۔ وہ اپنے صاحبزادے کے ساتھ موٹر سائیکل پر آیا تھا۔ ہم اپنے بیٹے آصف کے ساتھ گاڑی میں تھے۔ اس سے یہ اہم ترین امانت وصول کرنے کے لیے ہم یونیورسٹی کے اندر چلے گئے۔ مزید اطمینان کے لیے، ہم نے فون پر میاں صاحب سے اس کی بات بھی کرائی کہ ہم ہی ''چودھری جاوید‘‘ ہیں۔ اس نے پاسپورٹ ہمارے حوالے کیا۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ جدہ روانگی تک ہم پاسپورٹ کو اپنے گھر رکھنے کی بجائے کسی قابلِ اعتماد دوست کے ہاں رکھوا دیں۔ ابھی گھر پہنچے ہی تھے کہ دروازے پر Bell ہوئی۔ باہر سفید رنگ کی 1300سی سی گاڑی تھی، ایک لمحے کو دِل دھڑکا، ''انہیں‘‘ اطلاع ہو گئی، وہ پاسپورٹ چھیننے (اور ہمیں حراست میں لینے) آئے ہیں لیکن یہ محمودالرشید کی گاڑی تھی، اُنہوں نے عیدی کے طور پر مٹھائی کا ٹوکرا بھجوایا تھا۔ یہ ان کے پی ٹی آئی میں شمولیت سے پہلے کی بات ہے۔ دورِ طالبِ علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے باعث ایک عرصہ تک ہماری رفاقت رہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved