تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     07-02-2016

گم گشتہ تہذیب کا آخری آدمی!!

اس شہر کے ہنگاموں میں وہ ایک ایسا شخص تھا جو بلند شہر کے پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں سن سکتا‘ جو ہار سنگھار اور مولسری کے پھولوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی مہک سے مسحور ہو جاتا‘ جس کے لیے زندگی محض آگے کی طرف سرپٹ دوڑتے رہنے کا نام نہیں تھی بلکہ اس کی زندگی کے تار ہمہ وقت اس ماضی کے ساتھ جڑے رہتے‘ جس میں اس نے اپنا بچپن بِتایا تھا۔ اردو ادب کو بے مثال شاہکار تحریریں دینے والا خود کبھی نانی اماں کی کہانی سے جدا نہیں ہواتھا۔ نوّے برس کی عمر میں بھی انہوں نے اسی یاد کی انگلی تھام رکھی تھی۔ اور شاید یہ یادیں ہی تھیں جو ہمہ وقت انتظار حسین کے گرد رقص کرتی رہتیں اور انہوں نے خود کو کبھی تنہا نہیں سمجھا۔ اپنی یادوں کا سرمایہ انہیں آخری عمر میں بھی چاق و چوبند رکھتا۔ شریک حیات کئی سال پہلے عدم کو سدھار چکی تھیں۔ اولاد تھی نہیں۔ ایسے میں جیل روڈ کے اس سادہ سے گھر میں تنہائی ان کے ساتھ رہتی مگر وہ خوش قسمت لکھاری تھے کہ زندگی کے آخری لمحے تک انہیں چاہنے والوں کی بے پناہ محبتیں ملیں‘ اور یوں ان کا سادہ سا گھر سرشام محبت کرنے والوں کے وجود سے مہک اٹھتا۔ کچھ دوست ایسے تھے جن کا روزانہ کا معمول تھا کہ وہ انتظار حسین کو شام میں ملیں اور ان کی تنہائی بانٹیں۔ اور بلا شبہ اشہبِ عمر رواں‘ انہیں ڈبائی بلند شہر کے خوب صورت پُرسکون قصبے سے سن دو ہزار سولہ کے تھر ی ڈی دور تک لے آیا تھا جب ہر شے تھری ڈی میں ڈھل کر اصل جیسی تو لگے مگر اصل اور خالص ناپید ہو۔ سوشل میڈیا کے بے سروپا رابطوں کے اس دور 
میں‘جب دوستی‘ ملاقاتوں اور شناسائیوں کے معنی الٹ چکے ہوں‘ ایسے دور میں انتظار حسین‘ اس تہذیب کا نوحہ پڑھتا رہا جو گردش زمانہ میں بھلا دی گئی مگر ان کی اپنی شخصیت اسی گم شدہ تہذیب کا ایک خوبصورت عکس تھی۔ رکھ رکھائو‘ نفاست میں دُھلی شخصیت‘ گفتگو سے جھلکتا ہوا تہذیبی رچائو‘ بے پناہ شہرت کے باوجود شخصیت میں عجز اور انکساری۔ وہ یقیناً اس تہذیب کے آخری آدمی تھے جو جدیدیت کے سراب میں گم ہو گئی اور جسے بچانے کی کوشش کسی نے نہ کی۔ ناسٹیلجیا ‘ یا ماضی سے گہری وابستگی انتظار حسین کا دوسرا نام تھا۔ وہ جنتِ گم گشتہ کا نوحہ تمام عمر پڑھتے رہے۔ ان کی تحریروں کا خمیر ناسٹیلجیا سے ہی اٹھتا ہے۔ ترقی پسندوں نے اس پر اعتراضات اٹھائے مگر وہ ہر اعتراض کا اپنی شاہکار تحریروں کے ذریعے جواب دیتے رہے۔ آخری سالوں میں انہوں نے بہت سی ایسی ادبی تقریبات میں شرکت کی جہاں ان کی تحریر کے دیوانے آتے اور ان سے مختلف طرح کے سوال کرتے جن کے جوابات وہ بڑی خوب صورتی اور ٹھہرائو سے دیتے۔ تمام عمر‘ انتظار حسین اس سوال کا جواب دیتے رہے کہ آخر وہ اتنے ماضی پرست کیوں ہیں۔ وہ بہت پیارے انداز میں مسکراتے ہوئے کہتے کہ میرے لیے ماضی اور لمحۂ موجود دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ جب میں اپنے ماضی کے بارے میں کچھ لکھتا ہوں تو اس میں میرا حال بھی میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اور جب میں اپنے حال کے حوالے سے کچھ لکھوں تو اپنے ماضی سے جُدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے ماضی کو ساتھ لے کر چلتا ہوں حقیقت یہی ہے کہ وہ بلند شہر ڈبائی میں گزرے اپنے بچپن کے قصّے اس طرح سے سناتے کہ حیرت ہوتی۔ مجھے یاد ہے انتظار حسین سے پہلی ملاقات ان کے جیل روڈ پر واقع گھر پر ہوئی تھی ‘جہاں ہم سکول کے طالب علموں کا ایک گروپ لے کر اخبار کی اسائنمنٹ کے سلسلے میں گئے۔ ان کا گھر بھی ان کی شخصیت کی طرح نفیس اور سادہ تھا اور پرانے وقت کا رنگ گھر کی سیٹنگ میں نمایاں تھا۔ بیٹھک میںلکڑی کی سادہ سی میز پر موتیے کے پھولوں سے بھری ہوئی چنگیر رکھی تھی۔ سامنے کونے 
میں بلیک اینڈ وائٹ ‘ٹانگوں والاٹی وی جس پر گلابی رنگ کا غلاف چڑھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیربعد ملازم مہمانوں کے لیے شربت لے آیا۔ جب ہم نے انتظار حسین صاحب سے کہا کہ آپ سے آج ہم بچپن کی باتیں سنیں گے‘ آپ کا بچپن کیسا گزرا تو وہ یہ سن کر کسی بچے کی طرح خوش ہوئے، کیونکہ یہی ان کا من پسند زمانہ تھا جس میں تمام عمر جیتے رہے۔ اور اس نشست میں انہوں نے اپنے بچپن کی چڑیوں کے پروں کے رنگ بھی بتائے ‘ پرندوں کے ایسے ایسے نام بتائے جو ہم نے کبھی سنے تک نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ جو پرندے میں نے بلند شہر کی فضائوں میں دیکھے وہ دوبارہ کبھی دکھائی نہیں دیے۔ بارش کے بعد جو قوس قزح میں نے اپنے بچپن میں دیکھی ‘رنگوں کا وہ جھولا پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ یہ باتیں سن کر ورڈز ورتھ کی نظم To the Cuckooیاد آ گئی جس میں شاعر ایک خوش آہنگ پرندے کی آواز سن کر اسے ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ آواز اسے لڑکپن کے خوب صورت دور میں لے جاتی ہے۔ انتظار حسین بھی تمام عمر بچپن کے پرندے اور ان کی آوازیں تلاش کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں ہار سنگھار کا درخت بھی ماضی کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے لگا رکھا تھا۔
پرانی تہذیب کے ایک پورے عہد کو اپنے اندر بسائے ہوئے انتظار حسین نے ہجرت اور ہجرت کے بعد کا زمانہ‘ پاکستان کے سیاسی سماجی حالات ‘مارشل لاء کے ادوار اور پھر خود کش حملہ آوروں کا خون آلود دور ایک خاص زاویے سے دیکھا اور شہر افسوس‘ آخری آدمی‘ آگے 
سمندر ہے‘ بستی‘ جیسے شاہکار تخلیق کئے۔2013ء میں ان کے ناول بستی کا انگریزی ترجمہ‘ برطانیہ کے اہم ادبی اعزاز مین بکرپرائز کے لیے نامزد ہوا۔ فرانس نے انہیں ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا۔ حکومت پاکستان نے ستارۂ امتیاز دیا۔ ادب کے حوالے سے پاکستان کے تمام اہم اعزازات ان کو ملے۔ اتنی پذیرائی نے ان کے اندر مزید قناعت اور انکساری بھر دی۔ بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے ساتھ وہ کبھی بھی ہم آہنگ نہیں ہو سکے ۔قدم ملا کر چلنا تو دور کی بات ہے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ وہ ذہنی مطابقت پیدا نہیں کر سکے ‘یہاں تک کہ موبائل فون استعمال کرنے میں بھی انہیں ہمیشہ ہچکچاہٹ ہی رہی۔
انتظار حسین نے اکیانوے برس کی قابل رشک زندگی گزاری۔ وہ آخر وقت تک چاق و چوبند رہے، بلکہ زندگی کے آخری سالوں میں انہوں نے لوگوں سے رابطہ زیادہ بڑھا دیا ۔عموماً اس کے برعکس ہوتا ہے۔ مثبت سوچ‘ قناعت اور مصروفیت کے ساتھ انہوں نے قدرت کے دیئے ہوئے وقت کا خوب صورت استعمال کیا۔ اخبار سے تمام عمر وابستہ رہے اور اس کے باوجود ادب کے لیے قابل رشک کام کیا۔ خود کو غیر ضروری تنازعوں اور پی آر کے جھمیلوں سے دور رکھا۔ کام پر فوکس کیا اور پھر اس کام کی بدولت ساری دنیا کی چاہتیں سمیٹیں۔ ان کے جانے سے گم گشتہ تہذیب کا آخری آدمی بھی رخصت ہوا۔ اب اس سے ملنا ہو تو کہانی کے کرداروں میں اسے ڈھونڈنا پڑے گا!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved