جب گوگل کے ایک کمپیوٹر پروگرام Alpha Go نے گزشتہ ماہ Go (ایک پیچیدہ چینی کھیل جس میں سفید اور سیاہ پتھر ایک بورڈ پر رکھے جاتے ہیں اور حریف کھلاڑی چالوں کی مدد سے بورڈ کا زیاد ہ سے زیادہ علاقہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں) کے یورپی چیمپئن فین ہوئی (Fan Hui) کو شکست دے دی تو اس کھیل کا شغف رکھنے والی برادری جوش سے وجد میں آگئی۔ درحقیقت کمپیوٹر پروگرام کی جیت سماجی اور معاشی منصوبہ سازوں کے لیے لمحہ ٔفکریہ ہونی چاہیے۔
Go اڑھائی ہزار سال پرانا ایک انتہائی پیچیدہ چینی کھیل ہے۔ دنیا میں اس کے کھلاڑیوں کی تعداد چالیس ملین کے قریب ہے۔ اس کی چالوں کے سامنے شطرنج کی چالیں بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہیں۔ بورڈ پر ممکنہ پوزیشنز کی تعداد کائنات کے کل ایٹموں سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی چالوں کی انتہائی پیچیدگی کو کمپیوٹر پروگرام میں داخل کرنا کم و بیش ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ شاید کم از کم ایک عشرے کے بعد ایسا کمپیوٹر پروگرام بن پائے گا جو اس کے کسی کھلاڑی کو شکست دے پائے۔ تاہم Alpha Go نامی پروگرام نے اس کھیل کے چیمپئن، فین ہوئی کو 5-0 سے شکست دے دی۔
اگرچہ ایسا پروگرام بنانا ایک متاثر کن کامیابی ہے، لیکن اس میں ہمارے لیے، جو Go نہیں کھیلتے یا جنہیں کمپیوٹر سائنس کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں، پریشانی کی کیابات ہے؟ تاہم مستقبل کی نسلوں کے لیے اس میں لمحۂِ فکریہ ضرور ہے کیونکہ ایک اندازے
کے مطابق2035 ء تک برطانیہ میں ایک تہائی ملازمتیں روبوٹ کی وجہ سے ختم ہوجائیں گی۔ Alpha Go کی کامیابی کے پیچھے ''اے آئی‘‘(Artificial Intelligence) کارفرما ہے۔ اسے ہولی گریل کمپیوٹر سائنس کا نام دیا گیا ہے۔ دراصل ہمارے پاس موجود کمپیوٹر اگرچہ پرانی نسل کے کمپیوٹروں کی نسبت بہت تیز اور طاقتور ہیں لیکن یہ ہیں بہت ہی ''احمق‘‘، کیونکہ یہ وہی کچھ کر سکتے ہیں جس کے لیے انہیں پروگرام کیا جائے۔ اس سے کم یا زیادہ کچھ نہیں۔ چنانچہ طے شدہ پروگرامنگ پر انحصار کرنے والے کمپیوٹر اپنے حریف کی غیر متوقع چالوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تاہم ''اے آئی ‘‘ ایسا کرنے کی اہل ہے۔ یہ انسانی دماغ کی طرح کام کرتے ہوئے اپنی مرضی سے سوچ سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ '' اے آئی‘‘ ٹیکنالوجی کے حامل کمپیوٹر اپنی غلطیوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔
جب 1996ء میں آئی بی ایم کے ڈیپ بلو سپر کمپیوٹر نے شطرنج کے بے تاج بادشاہ گرے کیسپروف (Gary Kasparov) کو شکست دی تو وہ کمپیوٹر محض اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کا حامل تھا۔ عام طور پر ایک شطرنج کھیلنے والے کمپیوٹر کی میموری میں شطرنج کی لاتعداد گیمز سٹور کردی جاتی ہیں ؛ چنانچہ وہ برق رفتاری سے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے چال چل سکتا ہے۔ شروع میں تو شطرنج کا کھیل سادہ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے کھیل آگے بڑھتا ہے کمپیوٹر کو ہر چال کے لیے لاکھوں مرتبہ تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ نئی چالیں چل سکتا ہے۔ دوسری طرف ایک انسان کھلاڑی ایسے تمام تجزیے سے بے نیاز اپنی توجہ صرف حریف کے اٹیک اور ڈیفنس پر مرکوز رکھتے ہوئے اس کے مطابق چال چلتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ انسان کی اس صلاحیت۔۔۔۔' آزاد اور اختراعی سوچ‘ کا مشینی اور مصنوعی ذہانت کبھی حریف ثابت نہیں ہوگی، لیکن ''اے آئی‘‘ میں ترقی نے اس یقین کو متزلزل کر دیا ہے۔ اس وقت کیلی فورنیا کی گلیوں میں ایسی کاریں چلتی دکھائی دیتی ہیں جنہیں گوگل کی پروگرام کردہ مصنوعی ذہانت ڈرائیو کرتی ہے۔ دیگر کار تیارکنندگان بھی اس کو اپنا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ 2020ء تک بہت سی امریکی ریاستوں میں ڈرائیور کے بغیر کاریں چلنا شروع ہوجائیںگی۔
اس مصنوعی ذہانت کے فعال اور طاقتور ہونے سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوںگی۔ سب سے اہم یہ کہ سڑکیں زیادہ محفوظ ہو جائیں گی کیونکہ بیشتر ٹریفک حادثات میں انسانی غلطی کار فرما ہوتی ہے۔ ''اے آئی‘‘ ٹیکنالوجی کے مضمرات یہ ہیں کہ زیادہ تر ڈرائیور بے روزگار ہو جائیں گے۔ آپ اپنے موبائل کے 'ایپ‘ پر انگلی رکھیں تو ڈرائیور کے بغیر کار آپ کے سامنے ہوگی۔ آپ اسے بتائیں کہ آپ کی منزل کیا ہے، اور پھر آپ آرام سے کار میں بیٹھ کر موسیقی یا کسی کتاب کے مطالعے سے لطف اندوز ہوں۔ سڑک اور ٹریفک کا فکر مصنوعی ذہانت کے سپرد کرکے آپ بے فکر ہوجائیں۔ یہ کوئی سائنس فکشن نہیں، ہمارا مستقبل ہے اور ہم میں سے زیادہ افراد اپنی زندگیوں میں ہی ایسا ہوتے دیکھ لیںگے۔
سب سے پہلے صنعتی مقاصد کے لئے روبوٹس جاپانیوں نے استعمال کرنا شروع کیے تھے۔ اب دنیا بھر میں لاکھوں خودکار مشینیں فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں۔ اب گھر کے معمر افراد کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے لیے بھی جاپانی سائنس دان روبوٹ بنا رہے ہیں۔ گھر کی صفائی، لان کی کٹائی اور کچن ورک کی انجام دہی کے لیے گھر میں مشینیں فعال ہوںگی۔ انتظامی امور سے متعلق ملازمتیں ایسی مشینوں کا پہلا شکار ہوںگی۔ اندازہ ہے کہ صرف اعلیٰ ترین یا انتہائی خطرناک کام ہی انسانوں کی انجام دہی کے لیے بچیںگے۔ اس طرح دنیا بھر میں کروڑوں افراد بے روزگار ہونا شروع ہوجائیںگے۔ اس وقت پہلے ہی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے کام کی تلاش دشوار ہو چکی ہے، چند عشروں کے بعد جب دنیا کی آبادی میں مزید اضافہ ہوچکا ہوگا، مصنوعی ذہانت رکھنے والی مشینیں مزید انسانوں کو بے روزگار کردیںگی۔ یقیناً حکومتوں اور منصوبہ سازوں کے دردِ سر میں اضافہ ہوجائے گا۔ دوسری طرف روبوٹ کام کے معیار اور رفتار میں اضافہ کردیںگے۔ اہم بات یہ ہے کہ اُن کی ''یونین ‘‘ ہڑتال بھی نہیں کرے گی۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ اگر فیکٹریوں میں کام کرنے والے بے روزگار ہوںگے تو صارفین کہاںسے آئیںگے؟ جب مزدورکو مزدوری نہیں ملے گی تو وہ کچھ خرید بھی نہیں سکے گا۔ اس سے عالمی معیشت ایک سنگین بحران کا شکار ہو جائے گی۔ اس صورت ِحال کا مثبت پہلو یہ ہے کہ تیسری دنیا میں لیبر اتنی سستی ہے کہ یہاں شاید روبوٹس کو سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے۔ مغرب میں ذاتی کاروبارکرنے اور اپنا کام خود کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ زیادہ تر کام کرنے والوں کو عارضی بنیادوں پر رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں ہر صنعت نے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کیے تھے۔ سٹیم انجن کی ایجاد اور بجلی نے صنعتی دور کو بام عروج تک پہنچا کر ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے تھے۔ اسی طرح ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت بھی انسانوں کو کسی ''کام ‘‘ پر لگا دے۔ اس طرح مستقبل خوش کن ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے۔ بہرحال محمد رفیع کا ایک گانا ذہن میں ابھر رہا ہے۔۔۔۔''یہ زندگی کے میلے، دنیا میں کم نہ ہوںگے، افسوس ہم نہ ہوںگے‘‘۔