کچھ دوستوں نے فون پر کہا ہے کہ منصور آفاق نے آپ کے نام سے منسوب کر کے جو غزل لکھی ہے اور اس میں لفظ غلطی ‘ کو جو غلط تلفظ میں باندھا ہے‘ کیا آپ نے اس کا نوٹس نہیں لیا‘ تو عرض یہ ہے کہ یہ غزل انہوں نے اظہارِ محبت کے لیے لکھی ہے‘ غلطی کا نوٹس لینے کے لیے نہیں‘ پھر یہ ہے کہ غلطی تو ہم سب کرتے ہیں اور یہ کرنے ہی کے لیے ہوتی ہے کہ تقاضائے بشریّت بھی ہے اور انہیں بندہ بشر ہی رہنے دیا جائے تو اچھا ہے‘ نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موصوف کا اظہارِ محبت بھی غلط ہو‘ کیونکہ وہ اگر خود اتنے اچھے شاعر ہیں تو وہ میرے ساتھ محبت کرنے کی بجائے خود سے کیوں نہ کریں...؟
میرا اپنا عقیدہ تو یہ ہے کہ شعر اگر بصورتِ دیگرعمدہ ہے تو اس میں اگر تھوڑا بہت فنّی نقص بھی رہ جائے تو قابلِ برداشت اور گوارا ہے جبکہ ہمارے ہاں المیہ تو یہ ہے کہ شعر میں بظاہر کوئی خامی نہیں ہوتی تو بھی وہ شعر کہلانے کے قابل نہیں ہوتا‘ اور اس کی مثالیں ہر جگہ بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ لیکن میرے سمیت ‘ ہر کوئی اپنے تئیں ملک الشعراء بنا بیٹھا ہے۔ اور ‘ اگر کسی شعر کی تعریف نہ کی جائے یا اس میں کسی فنّی نقص کی نشاندہی کر دی جائے تو وہ ایک گناہِ عظیم قرار پاتا ہے اور آپ کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور رائے دیتے وقت تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے نہ ملا دیے جائیں‘ تو شاعر کی تسلی نہیں ہوتی۔
سو‘ اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ ہر ایک شاعر اور اس کی شاعری کی تعریف کے پُل باندھ دیے جائیں‘ اور یہی کچھ آج کل ہو بھی رہا ہے کیونکہ اس طرح آپ کا جاتا کچھ نہیں ہے اور شاعر کے علاوہ اس کے جاننے والے بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ آپ رفتہ رفتہ ہر دلعزیزی کے جملہ مراحل بھی طے کرنے لگتے ہیں اور ہر جگہ مناسب پذیرائی بھی ہونے لگتی ہے۔ لوگ آپ کو شوق سے بلکہ جوق در جوق اپنی کتابیں بھی پورے اطمینان سے بھجوانے لگتے ہیں اور آپ ایک شریف النفس نقاد کے طور پر مشہور بھی ہو جاتے ہیں‘ اور اگر شومئی قسمت سے آپ شاعر بھی ہیں تو اس حیثیت سے بھی آپ کی ایک شناخت قائم ہونے لگتی ہے اور آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔
تاہم‘ ایسا کرنے سے‘ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے نزدیک آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جبکہ وہ صحیح الرائے لوگ ہوتے ہیں جو شعر کے حُسن و قبح پر گہری نظر رکھتے ہیں‘چنانچہ ان کی نظر میں آپ محض ایک چالو قسم کی چیز ہو کر رہ جاتے ہیں‘ بے وقعت اور بے حیثیت چنانچہ یہ خود آپ کے لیے بھی ضروری ہے کہ اگر اس کی توفیق رکھتے ہوں تو میرٹ اور محض میرٹ کی بات کریں کیونکہ ہر کوئی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آپ کس بینڈ سے بول رہے ہیں اور کس کس مصلحت کا
شکار ہیں‘ اور ‘ اگر خود آپ کے اندر بھی انصاف کی کوئی رمق موجود ہے تو آپ کے لیے بھی یہ ممکن نہ ہو گا کہ آپ جانبداری یا کسی قسم کے تعصب سے کام لیں۔ اگرچہ یہ کافی مشکل کام ہے اور خود میں نے اس کے ذریعے کافی دشمن اور مخالف پیدا کر لیے ہیں‘ اور ‘ ایسا ہونا ہی تھا اور مجھے اس کا پتہ بھی تھا لیکن دماغ کے اندر نام نہاد راست روی کا جو کیڑا ہر وقت کلبلاتا رہتا ہے‘ اس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا جبکہ یہ سراسر ایک گھاٹے کا سودا ہے‘ اس لیے بھی کہ انصاف کو پسند کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں ہے جبکہ اکثریت تحسینِ باہمی ہی پر یقین رکھتی ہے۔ یہاں پر ایک شعری مجموعے''جھلمل‘‘ کا ذکر ضروری ہے جس کے خالق جمشید اعظم چشتی ہیں جو ایک گلوکار کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں اور ایک معروف دینی شخصیت کے صاحبزادے بھی ہیں۔ یہ کتاب خزینہ علم و ادب لاہور نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 150روپے رکھی ہے۔ موصوف اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنی شاعری کے بارے میری رائے کے طلب گار ہیں حالانکہ اس پر خورشید رضوی اور نجیب احمد جیسے معتبرین اپنی تحسینی رائے دے چکے ہیں جو کتاب پر درج بھی ہے جبکہ ان کے بعد میری رائے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ جدید اردو غزل جہاں تک پہنچ چکی ہے اس کے معمولی سے مطالعے کے بعد بھی اس طرح کی شاعری تخلیق کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن جدید غزل بھی وہی قابلِ اعتبار ہے جو اس کے تقاضے بھی پورے کرتی ہو اور جس میں پہلا نمبر تازگی کا ہے۔ سو‘ یہ گزارے موافق شاعری ضرور ہے یعنی جس سے شاعر اور اس کے جاننے والوں کا گزارہ ہو سکتا ہے‘ میں حضرات خورشید رضوی اور نجیب احمد کی رائے کو رد نہیں کر رہا بلکہ اگر میں اس کا فلیپ لکھتا تو کم و بیش یہی کچھ لکھتا کیونکہ یہ کام ایسے ہی کیا جاتا ہے‘ اور‘ اس کے بغیر کتاب چھپتی بھی نہیں ہے! اور‘ اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
جواب اگر نہیں ملتا‘ پکار کافی ہے
ابھی ہمارے لیے انتظار کافی ہے
ہم ایسے اہلِ قناعت کو آج بھی‘ کل بھی
جو ہے نہیں وہ ترا اعتبار کافی ہے
بُھلا بھی سکتے ہیں دوچار سال میں تجھ کو
کہ اپنے دل پہ ہمیں اختیار کافی ہے
یہ عشق جس کا کوئی سر نہ پیر ہے‘ اس پر
ہمارا آپ کا دارو مدار کافی ہے
ہمارے ساتھ محبت کے نام پر‘اے دوست
سلوک جو بھی ہُوا ایک بار‘ کافی ہے
جو لکھے گئے سیاہ و سفید‘ اپنے لیے
یہی دو رنگیٔ لیل و نہار کافی ہے
یہ زندگی جو بڑی مُشکلوں میں ہے کب سے
زمانہ اپنے لیے سازگار کافی ہے
یہ ہو تو سکتا ہے‘ اِس خواب زار میں کوئی
سوار بھی نکل آئے‘ غبار کافی ہے
کبھی تو آئے گی باری‘ ظفرؔ ‘ ہماری بھی
لگے ہوئے ہیں جہاں‘ وہ قطار کافی ہے
آج کا مطلع
جلوہ کوئی بھی ہو جاناناں لگ سکتا ہے
اور اس کے پیچھے دیوانہ لگ سکتا ہے