تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-02-2016

زندگی کو بسر کیجیے!

دنیا میں ہماری زندگی ، عمر بھر کی انسانی جدوجہد تین چار بنیادی جذبات کی محتاج ہے : اپنی ذات سے شدید ترین محبت، جان بچانے کا خوف، اولاد کی محبت اور مادے (وسائل )کی محبت ۔ اپنی ستر یا سوسالہ زندگی میں طمانیت کے لیے ان بنیادی جذبات کو سمجھنا ضروری ہے ۔ اس کے بعد ہی ان میں توازن پیدا کیا جا سکتاہے ۔ 
ہر نفس میں اپنی شدید ترین محبت پیدا کی گئی ہے ۔ تمام انسانی رویوں کی بنیاد میں یہی جذبہ کارفرما ہوتاہے ۔ کوئی فقرہ کسے اور سب ہنس پڑیں تو ہم غصے میں آجاتے ہیں ۔ سبب اس کا یہ ہے کہ انسانی نفس خود سے محبت کرتا ہے اور اپنی تذلیل اسے گوارا نہیں ۔ غصہ، انتقام، نفرت سمیت تمام منفی جذبات اپنی ذات سے اسی محبت کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں ۔ خود کو نقصان پہنچانے والے کا پیچھا انسان ساری زندگی کرتا ہے ۔ اس کی بنیاد بھی اپنی ذات سے یہی بھرپور محبت ہے ۔ ہر انسانی جبلّت کے پسِ منظر میں یہی محبت جھلکتی ہے ؛حتیٰ کہ جان بچانے کا خوف بھی اسی کا مرہونِ منت ہے ۔ اپنی ذات سے شدید ترین محبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ تمام تر محرومیوں کے باوجود وہ اپنی زندگی کی حفاظت کرتا رہے ۔ 
جان بچانے کا یہ خوف انسان ہی نہیں بلکہ تمام جانداروں میں مشترک نظر آتاہے ۔ کوئی جذبہ اگر اس پہ غالب نظر آتاہے تو وہ اولاد کی محبت ہے ۔ خوف بڑا بنیادی جذبہ ہے ۔انسان میں 
جذبات پیچیدہ تر صورت اس لیے اختیار کرجاتے ہیں کہ وہ عظیم تر انسانی عقل کے ساتھ تعامل کرتے ہیں ۔ یہ عقل اسے ٹوکتی رہتی ہے۔ اسے اپنے غلط ، خطاکار اور گناہ گار ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے ۔ آدمی جرم پہ جرم کرتار ہتاہے ۔ و ہ دوسروں کا حق کھاتاہے ۔دوسروں کے مادی وسائل پہ قابض ہونے کے لیے انہیں قتل کر ڈالتاہے ۔ جوں ہی وہ جرم اور گناہ میں ملوث ہوتاہے ، ساتھ ہی خوف بڑھتا چلا جاتاہے ۔ بظاہر وہ خوش و خرم ہوتاہے ، اندر ہی اندر ایک خلش اسے بے چین کیے رکھتی ہے ۔ بظاہر وہ چالاکی سے دوسروں کو لا جواب کیے رکھتاہے ۔خود کو حق پہ ثابت کرتاہے ۔ ظالم ہونے کے باوجود اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتاہے ۔ اندر ہی اندر ایک خوف اسے کھائے جاتاہے ۔ قتل کے کسی مقدمے میں کچھ شواہد سامنے آتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اس خوف میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ؛حتیٰ کہ پر سکون رہنے کے لیے وہ بے تحاشا الکحل پینے لگتاہے ۔جرم اور کرپشن کی زندگی میںآدمی کھرب پتی ہو جاتاہے ۔ یہ خوف اس کا معدہ تباہ کر ڈالتاہے ۔اسے اپنے دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ 
بہت سے نفسیاتی مسائل کی بنیادی وجہ بھی خوف ہے ۔جہاں 
کہیں موقع ملے، شیطان انسان کے اندر یہ احساس پوری قوت سے پیدا کرتاہے کہ اس سے ایسے گناہ سرزد ہو چکے ہیں ،جن کی معافی کا اب کوئی امکان نہیں ۔ وہ اسے یہ یقین دلانے میں لگا رہتاہے کہ انسانیت کے رتبے سے وہ نیچے گر چکا ہے ؛لہٰذا اب اسے مر ہی جانا چاہیے ۔ بنیادی طو رپر بہت سے نیک طینت لوگ اس شیطانی چال میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ۔ وہ انہیں شدید احساسِ جرم (Guilt)میں مبتلا کرتاہے ۔ مستقل طور پر ایسے خیالات کے حصار میں رہنا، جو انسان کو تکلیف پہنچا رہے ہوں ، ذہن کے لیے بہت نقصان دہ ہوتاہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانی دماغ میں بہت سے پیچیدہ توازن بگڑنے لگتے ہیں ۔ ذہنی خلیات ایک دوسرے 
سے رابطے کے لیے چند مادوں مثلاًسیرو ٹونن کے محتاج ہوتے ہیں۔ان مادوں کا توازن بگڑنے کے ساتھ ہی آدمی ایک ناقابلِ برداشت تکلیف میں اتر جاتاہے ۔ وہ مستقل طور پر اداس ہو جاتاہے ۔ طبیعت گری ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اب مستقل طور پر اس کا مورال گر جاتاہے اور گرا ہی رہتاہے ۔خواہ وہ کتنی ہی کوشش کر ے، اپنے آپ کو کتنا ہی سمجھائے، زبردستی بھاگ دوڑ کرتا رہے ، اس کیفیت کو وہ بدل نہیں سکتا۔ یہاں بھوک، نیند اور وزن میں سے ایک، دو یا تینوں چیزیں متاثر ہو سکتی ہیں ۔ ان میں بے تحاشا کمی یا اضافہ ہوتاہے ۔ذہین اور بنیادی طور پر نیک فطرت لوگ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ یہ صورتِ حال مناسب ادویات (Medication)کی متقاضی ہوتی ہے لیکن ماہرِ نفسیات (Psychiatrist)سے رجوع کرنا ہمارے معاشرے میں غلط طور پر تمسخر اور طنز کا باعث ہے ؛لہٰذا بہت کم لوگ اس کی طرف رجو ع کرتے ہیں ۔ وہ اندر ہی اندر گلتے سڑتے رہ جاتے ہیں اور صحت مند زندگی کی طرف لوٹتے نہیں ۔مناسب ادویات ضروری ہیں ۔ علم میں اضافہ آدمی کوبہت سے نفسیاتی مسائل سے بچا لیتاہے ۔ قرآنِ پاک کا ایک حصہ، چند پارے یاد کرنے اورروزانہ آدھ گھنٹہ اسے دہرانے سے نفسیاتی مشکلات، بہت سے واہمے مستقل طور پر چھٹ جاتے ہیں ۔ Obsessionکے علاج میں یہ انتہائی حد تک موثر ہے ،جس میں آدمی کی ساری توجہ ایک تکلیف دہ خیال تک محدود اور مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے ۔ 
آدمی میں وسائل (مادے ، مال ودولت ) کی محبت پیدا کی گئی ہے ۔ دولت بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ محبت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے ؛حتیٰ کہ آدمی روپیہ کمانے کی مشین بن کر رہ جاتاہے ۔ انسان کا اپنا رزق وہی ہوتاہے جو وہ کھا لے ، پہن لے، استعمال کر لے یا کسی محتاج کو دے دے ۔ بینکوں اور تجوریوں میں پڑے دولت کے انبار انسان کا اپنا رزق نہیں ہوتے ۔ وہ اولادکا نصیب ہو سکتے ہیں ۔ سوئٹزرلینڈ میں جمع ایسے انبار آخر بینک والوں یا حکومت کی ملکیت بن جاتے ہیں ۔ دولت جمع کرتے کرتے انسان قبر میں جا لیٹتا ہے۔ ضرورت سے بہت زیادہ مال جمع کرنے اور جمع ہی کرتے چلے جانے کی بیماری انسان کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیتی ہے ۔ توازن سے وہ محروم ہوجاتاہے لیکن اس کے رزق سے پھر سینکڑوں ہزاروں لوگوں کا رزق وابستہ ہوتاہے ۔ خدا یہ دنیا اسی طرح چلاتاہے ۔ 
سادہ زندگی، باعزت طور پر ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کی جدوجہد، حصولِ علم ، دوسروں کے تکلیف دینے والے روّیوں کی بنیاد کو سمجھنا، اپنا تجزیہ ، زندگی کو سمجھنے کی کوشش، ان میں ایک توازن ہی سے انسان بہتر، طمانیت بھری زندگی بسر کر سکتاہے ۔ زندگی کو بسر کیجیے ، بجائے اس کے کہ اپنی تمام تر زندگی کو کسی ایک جذبے کا ماتحت کر دیا جائے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved