تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-02-2016

غور و فکر کا وقت

افسوس کہ مزاجوں میں ٹیڑھ گہرا ہو گیا ۔ سامنے کی سیدھی سی بات کسی کو سوجھتی ہی نہیں ۔ چاروں طرف افراتفری ہے اور بے یقینی ہے ۔ کوئی جماعت ہے نہ رہنما ۔ چیخنے چلّانے کا نہیں ، یہ غور و فکر کا وقت ہے ۔ 
دائیں کندھے کے نیچے ایک گلٹی سی ابھر آئی ۔ اوّل نظر انداز ہی کیا، جیسے سب کاہل لوگ کیا کرتے ہیں ۔ تکلیف دینے لگی تو ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا ۔ ان کا وہی مجرب نسخہ ،جراثیم کش دوائی (Anti Biotic)۔ پانچویں دن معاملہ گمبھیر نظر آیا ۔ نیندخراب ہونے لگی ۔ طبیعت پر بوجھ بڑھ گیا ، یکسوئی ٹوٹنے لگی ۔ ایک دیرینہ ہمدم سے بات کی ۔ حیرت سے اس نے کہا '' کمال کرتے ہیں آپ بھی ۔ آپ کو معلوم نہیں ، رسول اللہؐ اس پر مہندی لگانے کا حکم دیا کرتے ‘‘ ۔ اتوار کی شام مہندی تو میسر نہ آسکی ۔ حرارت پہنچانے کے لیے اس کا متبادل کسی نے تجویز کیا ۔ اللہ کا شکر ہے ، اب بھلا چنگا ہوں ۔ 
ذہن اس دوران پیہم ادھیڑ بن میں رہا ۔ خیال سے خیال کا رشتہ جڑتا ہے ۔ یہ سوچ کر ملال ہوتا رہا کہ بعض بنیادی باتوں سے وہ لوگ بھی واقف نہیں ، دانشوری کا جنہیں دعویٰ ہے ۔ مثال کے طور پر یہ کہ تمام اخلاقی اصول مذاہب سے آئے ہیں ۔ امانت داری، صداقت شعاری ،افتادگانِ خاک کی خلوصِ دل سے دلجوئی و دلداری ۔ کسی سیکولر مفکر نے کبھی کوئی اخلاقی اصول آدمی کو نہیں دیا ۔ اگر اس سے مراد رواداری ہے تو سر آنکھوں پر۔ رواداری اور وسعتِ قلب پہ جنونیوں کے سوا کس کو اعتراض ہو سکتاہے لیکن کوئی دوسری اصطلاح کیوںنہ اختیار کر لی جائے ۔ نجات ان ابدی اصولوں کے فہم اور پیروی میں ہے ، جو پیغمبروںؑ پر الہام کیے گئے مگر افسوس کہ انہیں تو خود مذہبی طبقات نے مسخ کر ڈالا ۔ ہمدردی ، ہوشمندی اور انصاف پسندی کی بجائے وہ خود انتہا پسندی اور تقسیم در تقسیم کا مظہر ہو گئے ۔ ایک جذباتی قوم کو اور زیادہ جذبات کی تلقین۔ ذہنی طور پر الجھے ہوئے ایک معاشرے میں اور زیادہ الجھائو ۔ 
برصغیر میں اسلام کے عظیم ترین شارحین میں سے ایک اقبالؔ کو شاید اسی لیے ملّا سے چڑ تھی ۔ پچھلی تین صدیوںمیں مسلم بر صغیر کے سب سے بڑے محسن قائدِ اعظم محمد علی جناح شاید اسی لیے طلبہ اور وکیلوں پر زیادہ انحصار کرتے تھے۔ افسوس کہ ان کی قوم نے اعتدال کی راہ چھوڑی اور جنون و جذباتیت کو شعار کیا ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ دنیا کی بدترین امیر شاہی (Plutocracy)ہم پہ مسلّط ہے ۔ ہر بڑی سیاسی جماعت کو امرانے اغوا کر لیا ہے ۔ اللہ کی رحمت سے نا امید ہوجانا تو کفر ہے مگر مستقبل قریب میں نجات کا کوئی دروازہ کھلتا نظر نہیں آتا۔ کوئی سا نعرہ گونجتا ہے اور خلقِ خدا اس کے پیچھے بھاگ کھڑی ہوتی ہے ۔ پی آئی اے کے واقعات سے بہت صدمہ پہنچا ۔ ابتداسے دکھائی دے رہا تھا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی صورتِ حال کو
سمجھنے میں ناکام رہی ہے ۔ 27دسمبر کو وزیرِ اعظم نے جب یہ کہہ دیا تھا کہ کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گااور نجکاری نہیں کی جائے گی تو ایسے جارحانہ احتجاج کا جواز کیا تھا ؟سب سے زیادہ المناک واقعہ یہ پیش آیا کہ سینیٹ نے قومی اسمبلی کا منظور کردہ مسوّدۂ قانون مسترد کر دیا ۔ پیپلز پارٹی اور اس کے حامیوں کی طرف سے ،ایوانِ بالا میں جن کی اکثریت ہے، یہ گویا اعلانِ جنگ تھا۔اوّل تو قانون کی بالادستی سے کوئی دلچسپی حکمران خاندان اور حکمران جماعت کو نہیں ۔ جہاں کہیں ایسا وہ کرنا چاہے ، وہاں کوئی نہ کوئی مزاحم ہو جاتاہے ۔مثلاً کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ، اسلام آباد میں مولوی عبد العزیز اور فاٹا میں طالبان ۔ کلاسرا نے بالکل ٹھیک کہا ،مارگریٹ تھیچر اخلاقی برتری کی بنا پر نجکاری کی مشکل مہم سر کرنے میں کامیاب رہی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ملک پہ امیر شاہی مسلّط ہو اور مدّتوں اس تسلّط کا اندیشہ ہو تو کیا معاشرے کو طوائف الملوکی کے حوالے کر دیا جائے ؟
ریاست مقدس ہے اور بری بھلی حکومت جیسی بھی ہو ، اس کے قانونی احکامات کی پاسداری کی جانی چاہیے ۔ اگر دھڑوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے معاشرے کا ہر حصہ حکومتِ وقت کو بلیک میل کرنے پر اتر آئے تو نتیجہ کیا ہوگا...باقی ماندہ پونجی بھی لٹ جائے گی ۔ یہ جنابِ شہباز شریف ہی کو زیبا ہے کہ وہ ترقی کے میناروں کاذکر کریں۔ اس وقت اصل کام باقی ماندہ پونجی کو بچانے کا ہے ۔ کچھ امید ضربِ عضب سے بندھی ، کچھ کراچی میں رینجرز اور کچھ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کمر ٹوٹنے سے ۔ پھر بھی استحکام کے لیے بہت ریاضت ابھی باقی ہے ۔ اس رستے میں ہمیشہ سے زیادہ صبر اور حکمت کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ اسی وقت بے حکمتی کا مظاہرہ سب سے زیادہ ہے ۔ روئیداد خاں کو اللہ تعالیٰ صحت اور ایمان کے ساتھ جیتا رکھے ، کیسی عجیب بات انہوں نے کہی ہے ۔ فرمایا کہ جنرل راحیل شریف مارشل لا نافذ کر کے رہیں گے ۔ ایک متعلقہ فوجی افسر سے بات کی تو ہنس کر وہ بولے : خان صاحب سے پوچھیے کہ کیا جنرل صاحب سے ان کی بات ہو گئی ہے؟ اوّل تو ایسی بات ہرگز نہ کہنی چاہیے ۔ کوئی کہہ دے تو نشر کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے ۔ ملک ایسی حالت میں آپہنچا ہے کہ افواہوں اور اندیشوں کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔ فوجی اور سول قیادت میں اگر کوئی اختلافات ہوں تو اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کرنی چاہیے ، بڑھانے کی نہیں ۔ حق بات کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر طرح کی چیخ و پکار جائز اور مستحسن ہو جائے ۔ مارشل لا کا کوئی اندیشہ نہیں۔ جنرل راحیل شریف کا یہ اندازِ فکر ہی نہیں ۔ مجھ ناچیز کی محدود سی معلومات کے مطابق وقت سے بہت پہلے بروقت سبکدوشی کا جو اعلان سپہ سالار نے کیا ہے ، دوسری وجوہات کے علاوہ ایک سبب یہ ہے کہ وہ خود اپنی سپاہ کو پیغام دینا چاہتے تھے ۔جنرل کیانی کے دور میں پروان چڑھایا جانے والا اندازِ فکر راسخ ہو تا جا رہا ہے۔ فوج کو اقتدار سنبھالنے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے۔ 
کسی بھی چیز سے زیادہ ملک کو امن کی ضرورت ہے ۔ وزیرِاعظم کو زیبا تھا کہ پی آئی اے پر اپوزیشن لیڈروں کو اعتماد میں لیتے۔ خورشید شاہ کو رام کرناان کے لیے مشکل نہیں ۔ زرداری صاحب کو بھی نہیں ۔ سینیٹر سراج الحق اور کپتان کو بھی شاید قائل کیا جا سکتا۔ نہ ہوتے اور انکار کر دیتے تو وزیرِ اعظم قو م کو اعتماد میں لیتے ۔ صاف ستھری ، سچی اور سیدھی بات دل میں اترتی ہے ۔ صداقت ہی آخر کار غالب آتی ہے ۔ شرارتی لوگ اگر آمادۂ فساد رہتے تو ایک راہ کھلی تھی اور اس پر غور بھی ہوا ۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر ویز میں تبدیل کر دیا جاتا۔ شرط بس یہ تھی کہ میرٹ کا خیال رکھاجائے ۔ افسوس کہ مزاجوں میں ٹیڑھ گہرا ہو گیا ۔ سامنے کی سیدھی سی بات کسی کو سوجھتی ہی نہیں ۔ چاروں طرف افراتفری ہے اور بے یقینی ہے ۔ کوئی جماعت ہے نہ رہنما ۔ چیخنے چلّانے کا نہیں ، یہ غور و فکر کا وقت ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved