بھارت کے ایک اہم خفیہ ادارے کے سابق اعلیٰ ا فسر آنجہانی ایم، کے ، دھراکثر نجی محفلوں میں مسلمانوں میں مسلکی منافرت کے حوالے سے ایک واقعہ سناتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب''مشن ٹوپاکستان‘‘ میں اس کا بلاواسطہ ذکربھی کیا ہے۔ گو کہ یہ کتاب ناول کی طرح لکھی گئی ہے۔ مگر دھر کے بقول اس کا پلاٹ اور کیریکٹر حقیقت پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق 60کی دہائی میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے حساس اداروں کے افسران کی میٹنگ طلب کی گئی۔ کئی تجاویز سامنے آئیں۔ لیکن ایک نوجوان مگر جہاںدیدہ افسر کی تجویز کہ پاکستانی شہر کراچی میں مسلکی منافرت کو شہ دیکر پاکستانی ایجنسیوں کا دماغ ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے، سب کے من کو چھو گئی۔خفیہ ایجنسی کے تمام افسران اس تجویز پر متفق ہوگئے لیکن اتنے اہم اور حساس آپریشن کیلئے معقول افراد کا انتخاب اور ان کی بھرتی ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہا تھا۔ ایک تجویز یہ بھی تھی، کہ اس آپریشن کیلئے سکیورٹی ایجنسیوں میں موجودبھارتی مسلم اہلکاروں کو مامور کیا جائے۔ مگر ادارے کے سربراہ نے اس تجویز کو سختی کے ساتھ رد کردیا۔اس ادارے میں ابھی تک بھی آپریشنل خدمات کیلئے مسلمانوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا۔ایم کے دھر مزید لکھتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے حکم دیا کہ شدت پسند نظریات رکھنے والے ہندو نوجوانوں کی ٹیم تیار کی جائے جو آخری دم تک آپریشن کے وفادار رہیں۔تلاشی کی اس مہم کے بعد منتخب افراد کی ایسی تربیت کا انتظام کیا گیا کہ وہ دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ ان پر جید عالم کی طرح بحث مباحثہ کر سکیں۔ ان کی ابتدائی تربیت دہلی سے متصل ایک فارم ہائوس میں شیام پروہت المعروف مولوی رضوان نامی افسر نے کی۔حساس ادارہ جوائن کرنے سے پہلے پروہت کسی شدت پسند ہندو تنظیم کاسرگرم رکن تھا اور دین اسلام کے متعلق اس کی معلومات قابل رشک تھیں۔ابتدائی تعلیم کے بعد پروہت نے اپنے ایک شاگردگوتم رے المعروف مہم خان کو مزید تعلیم کیلئے دیوبند بھیجا۔ جہاں اس نے مناظرہ میں خاصی مہارت حاصل کی۔ فراغت کے بعد ٹریننگ کے ایک حصہ کے طور پر خان صاحب نے بریلی جاکر علمائے بریلی کو مناظرہ کی دعوت دی۔ مگر مناظرہ سے ایک رات قبل رے صاحب داد عیش دینے ایک طوائف کے کوٹھے پر جاپہنچے۔ طوائف اس بات پر حیران و پریشان تھی کہ بظاہر مولوی کی صورت والا یہ شخص آخر غیر مختون کیوں ہے ؟فراغت کے بعد جب اس نے یہ بات اس دلال سے پوچھی جو مسٹر رے یا خان صاحب کو لایا تھا تو وہ بھی حیران و پریشان ہوگیا اور سیدھا خان صاحب کا تعاقب کرتا ہوا ان کے قیام گاہ تک پہنچ گیا ۔ اس کی حیرت کی مزید انتہا نہ رہی جب اسے معلوم ہوا کہ یہ جید مولوی صاحب تو اس علمائے دیوبندکے وفد میں شامل ہیں جو علمائے بریلی کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہے۔یہ بات اس نے علمائے بریلی کو جاکر بتادی۔ بات پھیل گئی کہ دیوبندی ختنہ نہیں کراتے ‘ شہر میں فساد برپا ہوا۔ صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خان صاحب یا مسٹر رے پہلی ہی بس میں سوار ہوکر دہلی فرار ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد دیوبند سے ساتھ آئے دیگر سیدھے سادھے مولویوں کا کیا حشر ہوا‘ دھر صاحب نے اس سے پردہ نہیں اٹھایا‘ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد چیف صاحب کا پہلا حکم تھا ، کہ ایسے آپریشنز کیلئے بھرتی کئے گئے اہلکاروں کا سب سے پہلے ختنہ کرایا جائے۔
قصہ مختصر کہ دنیا بھر کی ایجنسیاں اس وقت مسلکی منافرت کو ہوا دینے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہیں شیعہ ، سنی اور کہیں دیوبندی اور بریلوی، اہل حدیث اور سلفی مسالک کے درمیان منافرت پھیلانے کیلئے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ ہر مسلک کے ماننے والوں میں انہیں چند ایسے افراد مل جاتے ہیں اور کچھ سادگی میں بھی دام فریب میں آجاتے ہیں جو ان کا کام بخوبی انجام دیتے ہیں؛حتیٰ کہ اب یہ ایجنسیاں اپنے ہی اہلکاروں کو مسلم علاقوں میں اس طرح داخل کردیتی ہیں ، کہ وہ عین موقع پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا کرتے ہیں۔ کئی سال قبل اتر پردیش کے شہر کانپور کی ایک مسجد کے باہرمیں نے ایک بورڈ آویزاں دیکھا‘لکھا تھا: مسجد میں دیوبندیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی طرح مغربی اتر پردیش کا دورہ کرتے ہوئے بستی اور سدھارتھ نگر میں، میں نے کئی مساجد میں لکھا دیکھا، کہ بدعتی(ان کے مطابق بریلوی)حضرات اس مسجد سے دور رہیں۔پچھلے سال دہلی میں کتابوں کے میلہ کے دوران ایک سٹال پر بینر آویزاں تھا، ''کہ شیعہ اسلام ہی صرف امن کا پیامبر ہے۔‘‘
بھارت میں جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں، ان کی حکومت نے ایک نیا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔مسلمانوں میں شدت پسند رجحانات کو روکنے اور اس کے سد باب کیلئے ایک خاص طبقہ کو صوفی ازم کے فروغ کے نام پر ، دیگر مسلکوں کے خلاف صف آرا کیا جارہا ہے۔ اگلے ماہ وزیر اعظم اس طرح کی ایک کانفرنس کا بھی افتتاح کرنے والے ہیں۔اس کیلئے زور و شور سے تیاریاں جاری ہیں۔ آخر کوئی سیکولر ملک کس طرح ایک مخصوص مسلک کی سرپرستی کرکے فتنوں اور تفرقوں کو دعوت دے کر ملک میں سلامتی قائم رکھ سکتا ہے۔حد تو یہ ہے، کہ اس مشن کیلئے حکومت نے کئی سرونگ اور ریٹائرڈ مسلمان بیوروکریٹوں کو آلہ کار بنایا ۔
دو رائے نہیں کہ مسلکی مناقشات عالم اسلام کا حصہ بن چکے ہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر اس سے کافی حد تک اچھوتا رہا ہے۔ چھ صدی قبل میر سید علی ہمدانی نے یہاں غیر فرقہ واریت اور مسلک سے مبرا اسلام کی بنیاد رکھی۔ بتایا جاتا ہے، کہ سید ہمدانی خود شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، مگر جب انہوں نے دیکھا، کہ کشمیر میں چند اہل سنت خاندان پہلے سے ہی آباد تھے، تو انہوں نے اپنے مسلک کے بجائے اہل سنت کی تبلیغ کی۔ چونکہ بیشتر لوگ ، ہندو مت کو چھوڑ کر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، وہ مندروں میں صبح سویرے بھجن اور گانے بجانے کے عادی تھے، ان کیلئے انہوں نے ایک وظیفہ '' اوراد فتحیہ‘‘ کی صورت میں عطا کیا، جو کشمیر کے طول و عرض میں سبھی مساجد میں بالجہر(باآوازبلند) پڑھا جاتا ہے۔ اولیاء ا للہ جیسی سعید روحوں نے کشمیر یو ں کو دین ومذہب کی انسانیت نو از تعلیمات سے ہی نہیں جو ڑا بلکہ بلا کسی تمیزو تفریق کے پورے سماج کوتہذ یب، فنو ن، ہنر مندیوں، صنعت ودست کاریوں اور ہمچو قسم کی معاشی سر گرمیو ں سے بہرہ ور کر کے اس سر زمین کو قابل فخر تشخص عطا کر دیا۔گزشتہ ہفتہ عشرہ سے اس خطے میں مردم شماری کے لئے مخصوص فارم میںمسلم آبادی سے اُن کے مسلک کے بارے میں خانہ پُری کر نے کو کہاجارہاہے۔ مزاحمتی تنظیمیں اس بارے میں خدشہ ظاہر کررہی ہیں کہ یہ مسلمانوں کو مسلک کے نام پر تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ اصولاً سیکولر ریاست ہونے کے ناتے مذہب و مسلک ہر شہری کا نجی معاملہ ہے جس میں سرکار کا کوئی عمل دخل نہیںہونا چاہئے؛ لہٰذا مسلک اور عقیدے کے بارے میں کسی شہری سے پوچھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔کئی مفاد پرست عناصر طبقاتی کشیدگی اور مسلکی انتشار کو درآمد کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں۔کشمیر کے ایک سابق گورنرایس کے سنہا نے اس خطے میں عالمی اہلحدیث یونیورسٹی کی منظوری دی تھی، دوسری طرف نام نہاد وہابی ازم کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ ان انتشار پسند قوتو ں کے مکروہ عزائم کا توڑ صرف یہ ہے کہ عوام مسلک اور مشرب کے نام پر منقسم نہ ہوکر ہرسطح پر سازشی عناصر سے چوکنا رہیں۔ پاکستان پہلے ہی اس طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ اب یہ آگ جلد یا دیر پورے خطے میں بھڑکانے کی کوشش ہو رہی ہے، تاکہ مفاد پرست عناصر ایک طرف تو اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرسکیں اور دوسری طرف ملت اسلامیہ کو مزیددشواریوں میں مبتلا کردیا جائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملی رہنما ، علمائے کرام نیز میڈیاکے مدیران اور صحافی حضرات اس سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں اور مسلکی منافرت کی سازش کا ایندھن بننے کے بجائے، وحدت ملی کیلئے ہر ممکن اور ہر سطح پر کوششیں کریں۔یہ عہد بھی کرنا چاہئے جو تنظیم بھی کسی دوسرے مسلک اور فرقہ کے خلاف تقریریں کرے یا پریس نوٹ جاری کرے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔