2007ء میں شروع ہونے والی ''عظیم کسادبازاری‘‘ یا ''گریٹ ریسیشن‘‘ توجون 2009ء میں 'تکنیکی‘ لحاظ سے ختم ہوگئی لیکن آج کی حقیقت وسیع بیروزگاری اور معیار زندگی میں مسلسل ابتری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ان بنیادی حقوق کی فراہمی میں ناکامی انفرادی بد اندیشی یا لاپرواہی کی وجہ سے نہیں ہے ،گوکہ وال سٹریٹ سمیت دنیا بھر میں اس نظام کو چلانے کے گڑھ ہوس میں دھت لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں،لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری میں روزگار اور اجرتوں کی فراہمی نظام کے کلیدی مقصد یعنی منافع کے مقابلے میں انتہائی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک سماجی و معاشی نظام کی نامعقولیت اور اندرونی تضاد ہے جو صرف محنت کشوں کے استحصال کے ذریعے ہی قائم رہ سکتا ہے لیکن یہی نظام تمام اہل، روزگار کے خواہش مند اور دستیاب افراد کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ دنیا بھر میں روزانہ روزگار کی تلاش میں ذلیل ہوتے ہیں لیکن روزگار ہے کہ ملتا ہی نہیں۔اس سے کہیں وسیع تعداد ان لوگوں کی ہے جو صرف زندہ رہنے کو اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہیں اور ان کی شخصیت، صلاحیت، قابلیت اور اجرت کا کام کی نوعیت اور اجرت سے کوئی میل نہیں۔
مارکس نے سرمایہ داری کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ سرمایہ انسانی محنت سے ہی پیدا ہوتا ہے اور مردہ محنت کی شکل اختیار کر لینے کے بعد زندہ محنت کا لہو چوستا ہے، سرمائے کا وجود اور پھیلائو اس عمل سے مشروط ہوتا ہے کہ وہ محنت کش کا لہو چوستا چلا جائے، بصورت دیگر سرمایہ اور سرمایہ دار طبقہ اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں۔مقابلے کی منڈی میں اپنی شرح منافع کو بڑھا کر دوسرے سرمایہ داروں کو منڈی سے باہر کرنے کے لئے ہر سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم محنت کشوں سے ہر ممکن حد تک کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرے، بصورت دیگر اس کا اپنا وجود مٹ جائے گا۔ یوں بیروزگاری اور کم اجرتیں سرمایہ دارانہ نظام کے ناگزیر مضمرات ہیں۔
اس نظام کے مشہور معیشت دان جان مینارڈ کینز کی بنیادی تجویز یہ تھی کہ معاشی بحران کے ادوار میں سرمایہ داری کو محنت کش طبقے کے انقلاب سے بچانے کے لیے ریاست خسارے کے بجٹ جاری کرے، یعنی اپنی آمدن سے زائد خرچ کرے ، اس زائد پیسے سے قوت خرید، معاشی سرگرمی اور نیا روزگار وغیرہ پیدا ہو گا جس سے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے گا۔ اس طریقہ کار یعنی 'کینشین ازم‘ کی تاریخی ناکامی اور متروکیت پر پہلے کئی مضامین میں روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ لیکن کینز کی جانب سے سرمایہ دارانہ نظام کا تجزیہ یکطرفہ اور محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک درست بھی تھا۔ مثلاً1935ء میں اس کے اندازوں کے مطابق ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہفتہ وار پندرہ گھنٹے کے اوقات کار کے ذریعے تمام مزدوروں کو روزگار دیا جاسکتا تھا اور اس کے باوجود بھی سرمایہ دار خاصی شرح منافع حاصل کر سکتے تھے۔ مارکسسٹ تو سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے ہی خلاف ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اگر آٹھ دہائیاں پہلے کی ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر کمتر ہفتہ وار اوقات کار اور سب کے لیے مناسب معیار زندگی ممکن تھا تو صرف تصور کریں کہ آج ہم کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
بیروزگاری صرف تیسری دنیا کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی وسیع سماجی وبا کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں امریکیوں کی معاشی زندگی ڈوب رہی ہے۔ اس کا سب سے اہم پیمانہ کم سے کم وفاقی اجرت ہے۔ پہلے 1938ء میں یہ 25 سینٹ فی گھنٹہ تھی جو بڑھتے بڑھتے 2009ء میں 7.25 ڈالر ہوگئی۔ 1968ء میں افراط زر سے منسلک قوت خرید کے حساب سے یہ اپنی بلند ترین سطح 8.67 ڈالر پر تھی، جبکہ آج کی کم سے کم اجرت حقیقی قوت خرید کے مطابق سینتالیس سال پہلے کی نسبت ایک ڈالر کم ہوگئی ہے اور 2009ء کے بعد افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر میں 8.1 فیصد کمی ہوئی ہے۔سینٹر فار اکنامک اینڈ پالیسی ریسرچ کے مطابق محنت کشوں کی فی کس پیداواریت کے حساب سے کم سے کم اجرت کو 2012ء میں 21.72 ڈالر ہونا چاہیے تھا۔لیکن تقریباً 3.7 ملین امریکی محنت کش 7.25 ڈالر فی گھنٹہ یا اس سے بھی کم کماتے ہیں۔ باروزگار امریکیوں کا 42 فیصد پندرہ ڈالر یا اس سے کم کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری طور پر آٹھ ملین بیروزگار اور لاکھوں دوسرے بھی ہیں جن کو اب بیروزگاروں میں شمار بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ بیزار ہو کر انہوں نے روزگارکی تلاش ہی چھوڑ دی ہے۔
حالیہ سالوں میں امریکی محنت کشوں نے ''پندر ہ ڈالر کے لیے جنگ‘‘ تحریک کا آغاز کیا ہے، یہ مالکان کی جانب سے دہائیوں پر مشتمل حملوں کے خلاف مزدورتحریک ایک انتہائی اہم آغاز ہے۔ لیکن یہ پندرہ ڈالر فی گھنٹہ بھی ملک کے مختلف حصوں میں ''مناسب اجرت‘‘ سے بہت کم ہے۔مثلاً نیو جرسی کے ایک مزدور کو کم سے کم اجرت 8.38 ڈالر فی گھنٹہ میں گزارا کرنے کے لیے ہفتہ وار 94 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے تاکہ ضروریات زندگی پوری کرسکے۔اندازاً ایک بالغ شخص کے لیے کم سے کم مناسب اجرت 19.76 ڈالر ہے۔ ہوائی میں ایک بالغ شخص کو ریاست کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت 7.75 ڈالر کے لیے ہفتہ وار 100.7 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے ، جبکہ وہاں کم سے کم مناسب اجرت اندازاً 21.44 ڈالر ہے۔ اب اس کا 2012ء کے500 امیر ترین سرمایہ داروں کی سالانہ اوسط ''تنخواہ‘‘ یعنی 10.5 ملین ڈالر سے موازنہ کریں۔ اس رقم کو باون ہفتوں اور ہفتہ وار چالیس گھنٹوں پر تقسیم کریں تو فی گھنٹہ پانچ ہزار ڈالر بنتا ہے جو کم سے کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور کی اجرت سے سات سو گنا زیادہ ہے۔یہ سرمایہ داری کی سب سے ترقی یافتہ اور ''مہذب‘‘ شکل ہے جس کے گن پاکستان جیسے ممالک کے حکمران اور اصلاح پسند گاتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں بھی مزدور تحریک کا بنیادی مطالبہ ''کم از کم اجرت ایک تولہ سونے کے برابر‘‘ ہونا چاہئے۔ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم 13ہزار ماہانہ اجرت محنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے اور اتنی آمدن میں شاید ایک فرد بھی ایک انسانی زندگی نہیں گزار سکتا۔ لیکن یہ 13ہزار کی شرمناک اجرت بھی محنت کشوں کی اکثریت کو میسر نہیں ہے۔ ان حالات میں مزدور تحریک کو ایک تولہ سونے کے برابر اجرت، نجکاری کے خاتمے اور مستقل روزگار کی ضمانت جیسے بنیادی مطالبات کے گرد منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
کم از کم اجرت میں اضافہ یقینا کوئی سوشلسٹ مطالبہ نہیں ہے بلکہ سوشلزم کی طرف انقلابی پارٹی کے عبوری پروگرام کا حصہ ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں رہتے ہوئے خلا میں معلق مطالبات نہیں کئے جا سکتے بلکہ محنت کش طبقے کے فوری مسائل کو سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی کے ساتھ عبوری پروگرام کے ذریعے جوڑا جاتا ہے۔اس پروگرام کا مقصد محنت کشوں کے سیاسی شعور میں اضافہ کرنا ہوتا ہے جس میں واضح کیا جاتا ہے کہ پیداوار کو اگر انسانی ضروریات کے مطابق محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں منظم کیا جائے تو چند سالوں میں سماج کا حلیہ ہی بدلا جا سکتا ہے اور بیروزگاری اور محرومی جیسی ذلتوں کا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے۔ کم سے کم اجرت میں کئی گنا اضافے کا مطالبہ اور بہت سے دوسری اصلاحات کے مطالبات سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے لاگو نہیں ہوسکتے ہیں۔روزگار اور معیار زندگی میں بہتری کی لڑائی آخری تجزئیے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی جنگ ہے۔ یہ تاریخی فریضہ ادا کرنے کے لئے مزدور تحریک کا وسیع پیمانے پر تحریک اور سوشلسٹ پروگرام کی حامل انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے۔آج سائنس، تکنیک اور پیداواری قوتیں جتنی ترقی کر چکی ہیں اس کے پیش نظر انسانیت ''کم از کم‘‘ سے کہیں زیادہ کی مستحق ہے!