تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     09-02-2016

الطاف صاحب کی ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘

الطاف صاحب اور اُن کے اردو ڈائجسٹ سے اپنی ''رفاقت‘‘ کا آغاز سکول کے دِنوں ہی میں ہوگیا تھا‘ جب سکول لائبریری میں پہلی بار اردو ڈائجسٹ ہاتھ لگا اور آج تک ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ تب ''شکاریات‘‘، ''جنگِ عظیم کی کہانی‘‘ اور''تاریخِ اسلام‘‘ ہمارے پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ ذہنی سطح کچھ بلند ہوئی تو الطاف صاحب کے طویل انٹرویوز کی طرف رجحان ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت کی گھٹن میں یہ انٹرویو تازہ ہوا کا جھونکا ہوتے۔ جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم۔ جمہور کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور آئین کی کارفرمائی کے تصورات ذہنوں میں راسخ ہوتے چلے جاتے۔ الطاف صاحب کے ان انٹرویز کی تعداد 200کے لگ بھگ ہوگی۔ 
''ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ میں ان میں سے 23انٹرویو یک جا کردیئے گئے ہیں۔ 1961ء سے 1977ء تک پھیلے ہوئے یہ انٹرویو اپنے طور پر بھی خاصے کی چیز تھی لیکن الطاف صاحب کے قلم سے تازہ حواشی نے، ان کی اہمیت اور افادیت کو دو چند کردیا ہے۔ 
ان شخصیتوں سے ملاقاتوں کی جھلک:۔ نومبر 1962ء میں جب فیلڈ مارشل ایوب خاں کی آمریت پورے جوبن پر تھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کہہ رہے تھے: ''میرا خیال ہے، اگر مسلمان ملکوں میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے تو بالکل فطری ارتقاء کے طور پر ان کے اندر اسلامی لیڈر شپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہر مسلمان ملک میں انتہائی محدود اقلیت میں ہے لیکن مغربی استعمار کی بدولت یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ طبقہ جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا تو آخر کار اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اسی لیے یہ گروہ سازشوں کے ذریعے آمریت قائم رکھے ہوئے ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا۔‘‘
جون1966ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو (تب ایوب خان کے وزیر خارجہ) کا انٹرویو شائع ہوا۔ ستمبر1965ء کی جنگ میں سلامتی کونسل میں بھٹو کی تقریر نے انہیں پاکستانی عوام کا ہیرو بنا دیا تھا۔ اردو ڈائجسٹ کا انٹرویو اخبارات کی شہ سرخیاں بنا۔ انگریزی اخبار کی 8کالمی سرخی تھی۔ ''ہم انڈیا کی بالادستی کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ الطاف صاحب دفتر پہنچے تو بھٹو صاحب کا فون آیا(وہ ایوانِ صدر میں تھے) اور قدرے کرخت آواز میں کہہ رہے تھے: یہ تم نے کیا غضب کیا، میری آف دی ریکارڈ گفتگو شائع کردی جس پر صدر صاحب سخت برہم ہیں اور تمہارے اور اُردو ڈائجسٹ کے خلاف ایکشن لینے پر بضد ہیں۔ تم فوراً بھارت کے حوالے سے مجھ سے منسوب کی گئی باتوں کی تردید کردو‘‘۔ اس پر الطاف صاحب کا جواب تھا: ''آپ نے قطعیت کے ساتھ کہا تھا کہ ہم کسی صورت بھارت کی بالادستی تسلیم نہیں کریں گے اور ضرورت پڑی تو اپنی تہذیب اور آزادی کے تحفظ کی خاطر میدان ِ جنگ میں اُتریں گے‘‘۔ اسی دوران لائن کٹ گئی۔ کچھ دیر بعدخود الطاف صاحب نے رابطہ کیا۔ اب بھٹو صاحب کا لہجہ خاصا بدلا ہوا تھا، ''اردو ڈائجسٹ میں شائع شدہ انٹرویو کے باعث میں کابینہ سے نکال دیا گیا ہوں۔ میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور اپنے وقار پر کوئی حرف نہیں آنے دیا‘‘۔ کہا جاتا ہے، ایوب خان کے دل میں اپنے ذہین و فطین وزیر خارجہ کے خلاف پہلے ہی میل آچکا تھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں ناکام ''آپریشن جبرالٹر‘‘ کے ذمے داروں میں بھٹو صاحب کو بھی شمار کرتے تھے۔(جنرل موسیٰ نے اپنی کتاب میں یہ ساری کہانی بیان کردی تھی)۔ فیلڈ مارشل ، اس پر بھی ناراض تھے کہ وزیر خارجہ انہیں امریکہ کی مبینہ یقین دہانی کے بارے میں بھی غلط بریف کرتے رہے کہ ہندوستان ، انٹرنیشنل بارڈر کراس نہیں کرے گا۔ 6ستمبر کے حملے سے پہلے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے نے ''الرٹ‘‘ بھجوادیا تھا کہ ہندوستان حملے کا فیصلہ کرچکا ہے لیکن پاکستان فارن آفس نے اس سلسلے میں ایوانِ صدر کو بے خبر رکھا۔ جناب ایس ایم ظفر ، ایوب کابینہ میں بھٹو صاحب کی طرح ایک اور نوجوان وزیر تھے۔ ستمبر65ء کی جنگ کے دوران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے، وہ بھٹو سے پہلے نیویارک پہنچ چکے تھے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اُنہوں نے پاکستان کا مقدمہ بڑے غیر جذباتی اور مدلل انداز میں پیش کیا اور ایوب خان کی ہدایت کے مطابق، مسئلہ کشمیرکے ''سیاسی حل‘‘ کی قرارداد منظور کراچکے تھے، جسے پاکستان کی بہت بڑی فتح قرار دیا جارہا تھا۔ اس کے بعد بھٹو نیویارک پہنچے۔ سلامتی کونسل سے اپنے جذباتی خطاب میں وہ کہہ رہے تھے، ہم بھارت سے ایک ہزار سال جنگ لڑیں گے اور سیز فائر ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ جوشِ خطابت میں وہ ''بھارتی کتوں‘‘ کے الفاظ بھی کہہ گئے۔ سلامتی کونسل نے سیز فائر کے لیے جو ڈیڈ لائن مقرر کی تھی، اس سے 2منٹ پہلے آغا شاہی نے بھٹو صاحب کے کان میں کہا کہ صرف دو منٹ باقی ہیں، اس پر بھٹو نے کہا، ابھی ابھی حکومتِ پاکستان کی طرف سے پیغام آیا ہے کہ اس نے فائر بندی قبول کر لی ہے۔ ظفر صاحب کے بقول، فائر بندی کا یہ اعلان جناب بھٹو تین گھنٹے قبل انہیں دِکھا چکے تھے۔ جنرل ایوب خان، ضیأالحق اور پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت کے دلچسپ اور تحیر خیز واقعات نے جناب ظفر کے انٹرویوکی قدر و قیمت فزوں تر کردی ہے۔ 
جنرل ضیأالحق کے طویل انٹرویو(ستمبر77ء) میں 5جولائی 1977ء کے ''آپریشن فیئرپلے‘‘ کے کئی گوشے پہلی بار منظر عام پر آئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اگلے ماہ (اکتوبر) کا اداریہ کچھ بڑی حکومتی شخصیتوں کی طبع نازک پر گراں گزرا جس میں لکھا تھا کہ شیر اپنا شکار کسی اور کونہیں دیتا۔ الطاف صاحب کے بقول، ان کے کچھ حاسدوں نے جنرل صاحب کو احساس دلایا کہ انٹرویو میں آپ سے گستاخانہ سوالات کئے گئے جن سے آپ کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔ 20اکتوبر کی شب 2بجے الطاف صاحب کو مارشل لاء کے تحت گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا۔ چار پانچ ماہ گزر نے کے بعد کچھ اعلیٰ فوجی افسر بیچ میں پڑے اور الطاف صاحب کی رہائی عمل میں لائی۔ 
مشرقی پاکستان میں 25مارچ 71ء کے ملٹری آپریشن کے ساتھ شیخ مجیب الرحمن غداری کے الزام میں گرفتار کر کے مغربی پاکستان لائے گئے۔ ممتاز قانون دان جناب اے کے بروہی ان کے وکیل صفائی بنے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان سے کوئی 2ماہ قبل الطاف صاحب (اپنے دوست نصیر سلیمی کے ہمراہ) بروہی صاحب سے ملنے گئے۔ وہ بہت اداس تھے۔ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا، اب پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا۔ حالانکہ میں نے شیخ مجیب سے پاکستان کے حق میں بیان لے لیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دُشمن اِدھر بھی ہیں اور اُدھر بھی۔ وہ اگر زندہ بچ کے ڈھاکے چلا گیا تو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ (اسی کتاب میں، جولائی 1969ء میں شائع ہونے والا )شیخ مجیب کا انٹرویو دلچسپ بھی ہے اور چشم کشا بھی۔)
آخری انٹرویو ایئر مارشل (ر) اصغر خاں کا ہے، انکشافات سے بھرپور اور جناب ایئر مارشل کی ذات کے حوالے سے کچھ اہم باتیں بھی۔ پاکستان ایئر فورس سے ریٹائر ہونے لگے تو ایک رشتے دار نے کہا، آپ ''توسیع‘‘ لینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ قوم کو آپ کی صلاحیتوں اور تجربوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایئر مارشل کا بے ساختہ جواب تھا، ''میں نے کمان تیار کردی ہے۔ کسی بھی تنظیم کے حق میں یہ بات اچھی نہیں کہ وہ ایک شخصیت کے گرد گھومتی رہے ۔اور اب ایئر مارشل کے احساسِ دیانت وامانت کا ایک اور واقعہ :اُن کے بھائی بریگیڈیئر افضل خاں کا ڈیری فارم ایک عرصے سے پی آئی اے کو کچھ چیزیں فراہم کرتا تھا۔ ایئر مارشل نے ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد پی آئی اے کا چارج سنبھالا تو پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بھائی کو خط لکھا، آج کے بعد آپ کی فرم کاپی آئی اے سے کوئی کاروباری لین دین نہیں ہوناچاہیے‘‘۔یہ ہر ماہ 80ہزار روپے خسارے کا پروانہ تھا لیکن ایئرمارشل کی اس اعلیٰ مثال سے اقربا پروری کا ہر امکان ختم ہوگیا۔ کاش! جنرل کیانی بھی اس مثال کو آگے بڑھا پاتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved