تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-02-2016

محبت کرنے والے اور ان کا دن ؟

دو باہم متصادم نظریات ہیں ۔ آزاد خیال طبقے کے مطابق محبت ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اظہار بھی ۔وہ ویلنٹائنز ڈے منانے ، اظہارِ محبت اور محبوب کو تحائف پیش کرنے کی تیاری میں مشغول ہے ۔ رکاوٹیں پیدا کرنے والے اس کے نزدیک گنوار اور انتہا پسند ہیں ۔ مذہبی طبقات کی چیخ و پکار کو وہ پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں دیتا۔
دوسری طرف روایتی مذہبی طبقات ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا اس جنگ کا مظہر ہے ۔ 12ربیع الاول کو ہمیشہ یہاں عید میلاد النبیؐ کی شرعی حیثیت کے بارے میں دو مذہبی طبقات کے درمیان جنگ چھڑتی ہے۔ محرم میں بھی یہ بھرپور فرقہ واریت کا مظہر ہوتاہے ۔یہاں ایک دوسرے کو فاسق وفاجر ہی نہیں بلکہ کافر اور منافق قرار دینے میںبھی کوئی رکاوٹ نہیں ۔ اس کے علاوہ'' خلافت ‘‘قائم کرنے کے لیے ''کفریہ جمہوریت ‘‘ کا بوریا بستر سمیٹنے کی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے ۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف مہم چلائی جا سکتی ہے ۔ دنیا بھر سے بمباری اور لاشوں کی تصاویر پر یہ لکھا جا سکتاہے کہ یہ وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے کے شہدا ہیں ۔ اگر انہیں پاک فوج کے ذمّے لگانا مقصود ہوتو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔نون لیگ اور تحریکِ انصاف کے کارکنان یہاں مخالف لیڈروں کی تصویروں کے ساتھ ناقابلِ اشاعت سلو ک کر سکتے ہیں ۔ مخالف پارٹی کی خواتین کے سکینڈل طنز اور طعنے کے ساتھ پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ نیز مشہور شخصیات کے جعلی اکائونٹ بنانے کی سہولت بھی موجود ہے ۔ 
ویلنٹائنز ڈے کے خلاف مذہبی طبقات ان الفاظ میں منع کرتے ہیں : اگر تمہاری بہن ، بیٹیوں سے اظہارِ محبت کیا جائے تو یقینا تم برداشت نہ کرو گے ۔ لبرل طبقے کے بارے میں تضحیک آمیز لطائف تحریر کیے جاتے ہیں ۔ ان سب کا نچوڑ یہ ہوتاہے کہ وہ غیرت سے محروم ہے ۔ 14فروری کو بعض ڈنڈ ابردار جتھے محرم اور غیر محرم کی چھان بین کرتے ، ان کی تذلیل اور پھر انہیں ایک دوسرے سے دور بھگاتے نظر آئیں گے ۔ ملکی آئین اور قانون ہی نہیں ، مذہب بھی انہیں قانون نافذ کرنے کا کتنا اختیار دیتاہے، یہ ایک الگ بحث ہے ۔ سوال یہ ہے کہ زبردستی، ڈنڈے کے زور پر، طعنے اور طنز کے ذریعے کیا اصلاح ممکن ہے اور اسلام میں اس کی کس قدر گنجائش موجود ہے ؟ منفی ہتھکنڈے اور جبر ہمیں خدا کے قریب لے جانے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کیا مذہب سے دور لوگوں کو بے حیا ہونے کا طعنہ دینا جائز ہے ؟ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت حدیث یہ کہتی ہے کہ ایک پاکباز
نے ایک گناہ گار سے یہ کہا:اللہ کی قسم ، اللہ تمہیں نہیں بخشے گا یا تمہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا ۔انجام یہ ہوا کہ اپنی تمام تر پاکیزگی اور نیکی کے باوجود اس فتوے نے اسے جہنم کا حقدار بنا دیاکہ خدائی رحمت پر روک ٹوک لگانے والا وہ کون ہوتاہے ۔ دوسری طرف گناہگار بخش دیا جاتاہے ۔ (مفہوم)۔ سنن ابی دائود، کتاب الادب ، 4901۔
کس کا کیا انجا م ہے، خدا بہتر جانتا ہے ۔ کس کی موت گمراہی پہ ہوگی اور کون ہدایت یافتہ مر ے گا، خدا بہتر جانتاہے۔حکم اس کا یہ ہے کہ موت سے قبل عبادت کیے جائو۔ یہ بھی کہ خود اپنے منہ سے اپنی پاکیزگی کا اعلان نہ کرو۔ بعض مذہبی سیاسی جماعت والوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو یہودیوں کا ایجنٹ اور خود کو ہدایت کا علمبردار قرار دینے کی روش اختیارکر رکھی ہے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شرعی احکامات کی پیروی کرنے والوں کو کیا مذہبی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ خود کو وہ پاکباز اوردوسروں کو گناہ گار قرار دے سکیں ؟کون جانتا ہے کہ کب ایک ڈاکو حضرت فضیل بن عیاضؒ کا درجہ پا جائے ۔ 
ہر آدم کے اندر حوا کی محبت پیدا کی گئی ہے اور یہ غیر فطری نہیں ۔ اپنے اہلِ خانہ کی عزت کی حفاظت کا جذ بہ بھی قدرتی ہے۔ زندگی ، اس کے جذبات ایک توازن کے متقاضی ہیں ۔ حد سے بڑھی ہوئی غیرت جہالت میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ خدا تو یہ کہتاہے : اور تم پر گناہ نہیں ، اس بات میں جو پردہ رکھ کر تم عورتوں کے نکاح کا پیام دو یا اپنے دل میں چھپا رکھو۔ اللہ جانتاہے کہ اب تم ان کی یاد کرو گے...سورۃ البقرہ 235۔ 
اصلاح تعلیم کا عمل ہے ۔ درسگاہوں ، خانقاہوں میں یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ انسان گناہ کی طرف مائل کیوں ہوتاہے ۔ کیسا خوفناک درندہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر روپوش ہے ۔ ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ ، جبلّتوں کا توازن کیا ہے ۔ نفس کیا ہے ، اس کی کبھی کم نہ ہونے والی خواہشات کا پسِ منظر کیاہے ؟ مخالف جنس کی کشش کیوں پید اہوتی ہے ۔یہ عقل پہ اس حد تک غالب کیسے آجاتی ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن سے لے کر سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس تک دنیا کے طاقتور ترین لوگ رسوائی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔تعلیم و تحقیق میں اپنی خیرہ کن بالادستی کے باوجود مغربی معاشرے میں خاندانی نظام تباہ ہوا تو اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ عقل کیا ہے ؟ نفسانی خواہشات کو اخلاقیات کے تابع رکھنے میں یہ کس قدر معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ چار ٹانگوں والے برہنہ جانوروں کے مقابلے میں کپڑے پہننے والے دو ٹانگوں والے انسان میں دماغی ساخت کس قدر مختلف ہے ۔ انسانی خواہشات کا ماخذ کیا ہے ؟ 
خدا کس قدر عظیم ہے ۔ اس نیلی زمین پر زندگی کیونکر وجود میں آئی اور اس کا انجام کیا ہے ۔ عناصر کا یہ خیرہ کن تناسب کب تک برقرار رہے گا۔ بڑے اساتذہ کے نزدیک تجسس نفس کی ایک ایسی کمزوری ہے ، جس کے ذریعے اسے پالتو بنایا جا سکتا ہے۔ علم ، تجسس اور تحقیق کے رستے پر خدا کی شناخت کا ایک ذرّہ بھی جسے عطا ہو ، وہ جہنم کے خوف نہیں بلکہ خد ا کوکھو دینے کے ڈر سے اپنی اصلاح کا دشوار ترین فریضہ سر انجام دینے میں لگا رہتاہے ۔ یہ دنوں کا عمل نہیں ۔ یہ ایک ساعتِ واحد میں پینٹ شرٹ سے شلوار قمیض ، کلین شیو سے داڑھی ، عمامے اور تین چار قسم کی چادریں لپٹنے کا نام نہیں ۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے ۔خدا اس نیکی سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے جو اپنی پاکیزگی کے اعلان اور دوسروں کو گنہگار کہنے پہ اکسائے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved