تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-02-2016

بحران بے قابو نہ ہو جائے

پی آئی اے کی انتظامیہ نے 78 ملازمین کو لازمی سروس ایکٹ کی خلاف ورزی پر اظہار وجوہ کے نوٹس دیئے ہیں‘ جس کے تحت 48ملازمین کو نوکری سے نکالا جا سکتا ہے اور انہیں سزا بھی ہو سکتی ہے۔اس کے باوجود ہڑتال میں کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ روایتی طور پر انتظامی طاقت کا استعمال کر کے‘ کمزور دل کے ملازمین کو ڈرا دھمکا کر ڈیوٹی پر بلایا جا سکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ خصوصاً لاہور میں خواتین کارکنوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں پر باوردی پولیس ملازمین بھیجے جاتے ہیں‘ جو ان پر دبائو ڈالتے ہیں کہ وہ ہڑتال ختم کر کے‘ ملازمتوں پر حاضر ہوں۔متعدد خواتین نے ایسی شکایات کیں‘ تو پولیس حکام نے حسب روایت اس سے صاف انکار کر دیا۔ ایک خاتون ایئرہوسٹس نے ‘پولیس کی جانب سے دھمکائے جانے پر ‘باضابطہ ٹی وی چینل پر آ کر نہ صرف اپنا قصہ بیان کیا بلکہ اس پولیس ملازم کی باتوں کی ریکارڈنگ بھی پیش کر دی‘ جس نے اس کے گھر پہ آ کر ڈرایا دھمکایا تھا۔ جب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا‘ تو وہ صاف انکار کر گئے اور کہا کہ ہم نے کسی ملازم کو نہیں دھمکایا۔ البتہ خواتین ملازمین کی حفاظت کے لئے ہم نے پولیس کی ڈیوٹی ضرور لگائی تھی‘ کیونکہ حالات کشیدہ ہو رہے ہیں‘ یونین کے دو فریقوں میں تصادم کا اندیشہ ہے‘ اس لئے ہم نے خواتین کی حفاظت کے لئے پولیس کو مستعد رہنے کے لئے کہا تھا۔ پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے پر‘ متعدد خواتین نے اپنی یونین کے لیڈرز کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ بات یہیں تک محدود نہیں۔ پی آئی اے کے متعددخواتین اور مردملازمین کی طرف سے یہ شکایت مل رہی ہے کہ نوکری پر حاضر ہونے کے لئے‘ ان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ بعض بڑے افسر اس دبائو میں آ کر ڈیوٹی پر حاضر ہو رہے ہیں‘ لیکن صرف وہ اکیلے ‘پورے مسافروں کو سروس فراہم نہیں کر سکتے۔ دیگر غیرملکی ایئرلائنز اور پی آئی اے کے خوفزدہ ملازمین کی مدد سے کچھ پروازیں ضرور چلائی گئی ہیں‘ لیکن تمام مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔
پی آئی اے انتظامیہ نے متعدد نجی ایئرلائنز کے ساتھ بندوبست کیا تھا کہ وہ پی آئی اے کے مسافروں کو اپنے جہازوں میں سفر کی سہولت فراہم کر دیں۔ اس انتظام کا باقاعدہ میڈیا میں اعلان بھی کیا گیا‘ لیکن یہ بندوبست خاطرخواہ سروس فراہم نہیں کر سکا۔ انتظام یہ کیا گیا تھا کہ وہ دوسری نامزد ایئرلائنز کے کائونٹرز پر‘ پی آئی اے کے ٹکٹ دکھا کر‘ نجی ایئرلائنز سے اسی منزل تک سفر کر سکتے ہیں‘ جس کا ٹکٹ انہیں پی آئی اے نے جاری کیا ہو‘ مگر ایسا بہت کم ہو سکا۔ بیشتر مسافر یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ نامزد ایئرلائنز نے پی آئی اے کے ٹکٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر انہیں اپنی منزل تک سفر کرنا ہے تو ٹکٹ کے پورے پیسے دیئے جائیں اور جب کرائے کا پوچھا گیا تو جواب میں اصل کرائے سے دوتین گنا زیادہ رقم مانگی گئی۔ خصوصاً بیرونی ممالک میں پھنسے ہوئے مسافروں کو تو بہت زیادہ پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا۔ مثلاً ہزاروں کی تعداد میں جو مسافر اہل خاندان کے ہمراہ عمرے کے لئے گئے ہوئے تھے‘ انہیں بیحد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عموماً ایسے ٹکٹ واپسی کے ہوتے ہیں۔ مسافروں نے دوطرفہ ٹکٹ کا کرایہ ادا کر کے‘ دوچار دن کے اخراجات اپنے پاس رکھے اور سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ انہوں نے عمرہ ادا کیا‘ تو پی آئی اے کی سروس بند ہو گئی۔ ان کے لئے واپسی کا ٹکٹ بیکار ہو گیا اور وہ بے یارومددگارمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بھٹکتے رہے۔ ان کے پیسے ختم ہو گئے اور وہ کھانے پینے سے بھی محتاج ہو کر‘ ان دونوں مقدس شہروں میں بھٹکنے لگے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ پی آئی اے کی انتظامیہ نے دیگر ایئرلائنز کے ساتھ بندوبست کیا کہ وہ سعودی عرب میں پھنسے ہوئے ان مسافروں کو پاکستان پہنچا دیں‘ جن کے پاس پی آئی اے کے واپسی ٹکٹ موجود ہیں۔ اس انتظام کے تحت سعودی ایئرلائنز نے دوجہاز فراہم کئے‘ لیکن وہ تمام پاکستانی مسافروں کو لانے میں ناکام رہے۔ ابھی دوتین جہاز ہی پی آئی اے کے مسافروں کو پاکستان لائے تھے کہ ان کے جہاز کم پڑ گئے اور آج تک یہی صورتحال ہے کہ سعودی عرب میں بطور خاص سینکڑوں پاکستانی زائرین پھنسے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پی آئی اے کی انتظامیہ تمام تر تگ و دو کے بعد بھی ‘کسی دوسری ایئرلائنز کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ کم و بیش یہی 
صورتحال دیگر ملکوں میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے‘ جو غیرممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس واپسی کا ٹکٹ موجود ہے‘ لیکن بیرونی سفر ختم کر کے عموماً لوگوں کے پاس واپسی کا کرایہ موجود نہیں رہتا۔ یہی صورتحال غیرملکوں میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی ہے۔ سعودی عرب میں پھنسنے والے زائرین کو تو جزوی طور پر واپسی کی سہولت مل گئی‘ لیکن دوسرے ملکوں میں جہاں پاکستانیوں کی زیادہ آمدورفت نہیں ہوتی‘ وہاں پی آئی اے کے پھنسے ہوئے مسافروں کو متبادل سہولت نہیں مل سکی۔ 
ادھر صورتحال یہ ہے کہ پی آئی اے یونین کے لیڈروں اور کارکنوں کے جذبات میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ جن کارکنوں نے انتظامیہ کے دبائو میں آ کر ڈیوٹی دینا شروع کر دی تھی‘ وہ بھی اپنے ساتھیوں کے جذبات میں شدت دیکھ کر‘ پھر سے ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ میڈیا میں یہ خبریں تو دی جا رہی ہیں کہ پی آئی اے یونین میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور ایک گروپ نے باقاعدہ اپنی ڈیوٹی دینا شروع کر دی ہے اور اب پی آئی اے کے مسافروں کو تکلیف نہیں ہو گی‘ مگر جن لوگوں نے پہلے سے لئے گئے ٹکٹوں کے تحت جہازوں کا رخ کیا‘ صورتحال ان کی توقع کے مطابق نہیں تھی۔ خصوصاً یورپ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ ملائشیا اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں جانے والوں کو تو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا‘ کیونکہ انہیں وہاں پر پی آئی اے کے دفاتراور کائونٹر پر بھی کوئی ذمہ دار شخص نہ مل سکا اور وہ بیچارے پریشان حالی میں دوردراز کے ملکوں میں بے یارومددگار پھر رہے ہیں۔ جن مسافروں کا کوئی دوست یا رشتے دار وہاں موجود ہے‘ وہ تو اپنا گزارا کر رہے ہیں‘ لیکن جو صرف آمدورفت کا کرایہ جیب میں ڈال کر ‘گھر سے نکلے تھے اور چھ سات دن سیروتفریح کے اخراجات پاس رکھے تھے‘ ان کی حالت زیادہ خراب ہے۔ ایسے بیشترلوگوں کے کرائے ختم ہو چکے ہیں۔ ان کی میزبانی کرنے والا کوئی دوست یا عزیز وہاں موجود نہیں اور وہ خستہ حالی میں بھٹک رہے ہیں۔
ادھر منتخب حکومت کے رویّے میں نرمی نہیں آ رہی۔ اس کے برعکس بعض وزرا‘ پی آئی اے کے کارکنوں کے لئے ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں‘ جسے نرم سے نرم لفظوں میں توہین آمیز کہا جا سکتا ہے۔ کسی جماعت یا تنظیم کی اگر اجتماعی توہین کی جا رہی ہو‘ تو اس کا ردعمل اجتماعی ہوتا ہے اور اگر ہڑتال طویل ہوتی جائے‘ تو دوسری سیاسی اور مزدور تنظیمیں بھی ان کا ساتھ دینے کے لئے میدان میں آ جاتی ہیں۔ کئی مزدور تنظیمیں‘ پی آئی اے کے کارکنوں کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ ریلوے کی یونین کے قائدین صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت میدان میں آ سکتے ہیں اور اگر ریلوے یونین جدوجہد میں پی آئی اے کا ساتھ دینے کے لئے میدان میں نکل آئی‘ تو بحران شدید ہو جائے گا۔ اس وقت ریلوے ‘ پی آئی اے کے مایوس مسافروں کو سفر کی متبادل سہولتیں مہیا کر رہی ہے۔ ریلوے کے وزیرخواجہ سعد رفیق نے یونین والوں کو عارضی طور پر سڑکوں پر آنے سے روک رکھا ہے‘ مگر پی آئی اے کا بحران طول پکڑ گیا‘ تو پھر ریلوے ہی نہیں دیگر کئی اداروں کے کارکن بھی پی آئی اے یونین کے ساتھ مل جائیں گے۔ فی الحال تحریک انصاف نے کھل کر پی آئی اے کے کارکنوںکا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پیپلزپارٹی ابھی اخلاقی امداد کر رہی ہے‘ لیکن مزدوروں اور کسانوں کے نام پر سیاست کرنے والی یہ جماعت زیادہ عرصہ لاتعلق نہیں رہ سکے گی۔ وہ کسی بھی وقت پی آئی اے کے محنت کشوں کی حمایت میں سامنے آ سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کھل کر پی آئی اے کے کارکنوں کی حمایت کر چکی ہے۔ اسے عملی جدوجہد میں پی آئی اے کے کارکنوں کا ساتھ دینا پڑا‘ تو وہ بھی میدان میں اتر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت ہر طرح کی عملی تحریکوں میں شامل ہونے کا رجحان رکھتی ہے۔ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو دیکھ کر ‘ پی آئی اے کے ہڑتالی کارکنوں کی حمایت کا اعلان کر سکتی ہے۔ حکومت کے رویے میں وقت کے ساتھ ساتھ سختی آ رہی ہے۔ اس کے اور حمایتی جماعتوں کے کارکن سڑکوں پر ضرور آئیں گے‘ کیونکہ حکمران جماعت کی اعلیٰ قیادت کا رویہ بہت سخت ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ کوئی حکومتی عہدیدار‘ ہڑتالیوں سے بات نہیں کرے گا‘ حکومتی رویے میں انتہائی سخت گیری کی نشانی ہے ۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی حمایت کرنے والے دوسرے 
عناصر‘ حالات میں بہتری کے لئے لچک پیدا کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں‘ لیکن وہ جماعتیں جو آگے بڑھ کر حکمران جماعت کے انتہائی سخت گیر رویے میں تبدیلی لانے کا کردار ادا کر سکتی ہیں‘ موجودہ صورتحال میں ان کی کامیابی مشکوک نظر آتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کی نجکاری میں‘ حکومت کی ہٹ دھرمی شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے اور ایسے الزامات سامنے آ رہے ہیں‘ جن میں کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم ‘ پی آئی اے کو بیچنا نہیں‘ خریدنا چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں طرح طرح کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ قومی ایئرلائنز کا نجی ہاتھوں میں جانا کسی شدید عوامی ردعمل کا باعث بن جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved