تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-02-2016

Blessing in Disguise

مملکت خداداد بھی بڑی زرخیز زمین ہے۔ ہر طرح سے‘زمین کی زرخیزی سے لے کر ذہنی زر خیزی تک۔ ایسی ایسی منصوبہ بندی اور ایسے ایسے نئے کام کہ عقل دنگ رہ جائے۔ اوپر سے رجائیت کا یہ عالم کہ طبیعت باغ باغ ہو جائے۔ خرابیوں سے مایوس ہونا اس قوم نے سیکھا ہی نہیں۔ صدموں سے نڈھال ہونا اس کی سرشت میں ہی نہیں۔ ناکامیوں سے پریشان ہونا تو دور کی بات، ناکامیوں میں سے کامیابیاں برآمد کرنا کوئی اس سے سیکھے۔ خرابیوں سے خوبیاں نکالنا اس پر ختم ہے ۔ تباہیوں سے تعمیری پہلو نکالنا کوئی اس سے سیکھے۔ انگریزی میں ایک محاورہ ہےBlessing in disguise یعنی خرابی سے بہتری نکل آنا۔ انگریزی محاورہ ہمیں بتاتا ہے کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر ہمیں پریشان کن صورتحال کا سامنا نظر آتا ہے مگر اس خراب صورتحال میں سے بسا اوقات بہتری کی کوئی صورت نکل آتی ہے۔ محاورے کی بناوٹ یہ بتاتی ہے کہ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مگر ایسا ہونا بہر حال نا ممکنات میں سے نہیں۔ تا ہم ہمارے ہاں یہ انگریزی محاور ہ ٹکے ٹوکری ہوا پڑا ہے۔ ہم ہر خرابی سے کوئی نہ کوئی بہتری (اپنی) نکال لیتے ہیں۔ ہر بربادی کی ٹوکری کے نیچے سے فوائد کا کبوتر نکال لیتے ہیں۔ ہر تباہی سے اپنی تعمیر کا پہلو دریافت کر لیتے ہیں اور ہر خراب صورتحال سے نفع وصول کر لیتے ہیں۔
سیلاب آئے تو ہر طرف تباہی مچ جاتی ہے۔ محکمہ آبپاشی والے پہلے سے تعمیر کیے گئے کاغذی حفاظتی بند اس سیلاب میں بہا دیتے ہیں اور کروڑوں روپے کے نئے حفاظتی بند دوبارہ کاغذوں میں بنا کر اپنے لیے کھڑے کر لیتے ہیں۔ امدادی ٹیمیں درشنی قسم کے کیمپ لگاتی ہیں اور قوم کو بیوقوف بنا کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر لیتی ہیں۔ سیاسی لیڈر سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر فوٹو سیشن کرواتے ہیں اور دو چار مستحقین کو چار چھ پیکٹ پکڑا کر باقی سارا مال گول کر لیتے ہیں۔ نقصان کا تخمینہ لگانے پر مامور پٹواری تخمینے میں ڈنڈی مارنے کے علیحدہ ریٹ وصول کرتا ہے اور سچ لکھنے کے علیحدہ۔ چیک جاری کرنے والا اپنا حصہ وصول کر لیتا ہے اور چیک پاس کرنے والا اپنی 
شرح فیصد کھری کر لیتا ہے۔ اصل نقصان کا بیس فیصدی حکومتی امداد میں آتا ہے اور اس کا بیشتر حصہ تقسیم پر مامور محکموں کے اہلکاروں اور افسروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ شخص کو ہفتوں مہینوں کی ذلت، خواری اور دھکے کھانے کے بعد نقصان کا دس فیصد بھی نہیں ملتا۔ اس ساری بھاگ دوڑ میں معاشرے کے کافی سارے معزز طبقے سیلاب کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والے فوائد سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہو گا۔ اگر ہوتا بھی ہو گا تو اس طرح کی امدادی رقم اور سامان کا اسی نوے فیصد مستحقین کو ملتا ہے اور دس بیس فیصد اوپر والوں کی جیب میں جاتا ہوگا مگر ہمارے ہاں یہ شرح الٹی ہے۔ اسی نوے فیصد اوپر والوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے اور ذلت و خواری کے بعد دس بیس فیصد مستحقین کو مل جاتا ہے۔ جس کا نقصان ہو ا ہے اس کا تو کچھ نہیں بنتا تا ہم اس بربادی سے اوپر والوں کا بہت کچھ بن جاتا ہے۔
زلزلہ آتا ہے تو باہر سے امدادی اشیاء کا سیلاب آ جاتا ہے۔ امدادی خیمے بازاروں میں بکتے ہیں۔ کمبل افسروں کے گھروں میں چلے جاتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء فٹ پاتھوں پر فروخت ہوتی ہیں اور نقد رقم کے بارے میں راوی حسب معمول خاموش ہے کہ اس کے اِدھر اُدھر جانے کا ثبوت بہر حال کمبلوں، خیموں، بستروں اور کھانے پینے کی اشیاء کی مانند کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ چھوٹے موٹے کا تو کیا ذکر، ایک معتبر بزرگ بتاتے ہیں کہ 1974ء میں ہنزہ میں زلزلے سے پٹن گائوں مکمل تباہ ہو گیا تھا اور تقریباً ساڑھے پانچ ہزار کے لگ بھگ افراد موت کی نیند سو گئے تھے۔ بڑی تباہی و بربادی پھیلی تھی ۔ دنیا بھر سے ہر قسم کی امداد آئی جس میں نقد امداد پر مشتمل بھاری رقوم باہر کے بنکوں میں منتقل کر دی گئیں۔ یہ رقوم تب کے بڑے نیک نام اور عوام کے حقوق کے حوالے سے بہت بڑا نام رکھنے والے حکمران کے بنک اکائونٹس میں منتقل ہوئیں۔ وہی بزرگ بتانے لگے یہ رقم ابھی تک برطانوی بنکوں میں لاوارث پڑی ہے کہ اسے وصول کرنے کا جو پیچیدہ طریقہ ہے وہ وارثان کے لیے فی الحال پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔
تازہ مثال پی آئی اے کی ہڑتال کی لے لیں۔ کوئی مہذب معاشرہ ہوتا تو ایسے میں دوسری ائیر لائنز امدادی آپریشن شروع کر دیتیں۔ فالتو پروازیں چلاتیں اور پریشان حال مسافروں کی مدد کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے بڑھتیں مگر ادھر الٹ ہوا۔ جونہی مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہوا، دیگر ایئر لائنز نے جن میں ایک ایئر لائن ایک حکومتی شخصیت کی ملکیت ہے ‘ حکومت کو درپیش مشکل میں مدد دینے کے بجائے لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے میں لگ گئی۔ شنید ہے کہ اس ایئرلائن نے اس مشکل وقت میں پورے زور و شور سے اپنے ہاتھ نفع میں رنگے اور تین گنا تک کرایہ وصول کیا۔ کوئی حساس حکومت ہوتی تو ایسے وزیر کو فارغ کر دیتی مگر حکومت کاخیال ہے کہ وزارت ایک علیحدہ چیز اور وزیر کا کاروبار ایک بالکل علیحدہ چیز ہے۔ دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ وزارت اس کی سیاسی خدمات کا عوضانہ ہے جبکہ اس کا کاروبار ایک ذاتی چیز ہے۔ حکمران خود بھی اپنے کاروباری اور سیاسی معاملات اسی فارمولے کے تحت چلا رہے ہیں اس لیے ان کے زیر سایہ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس سارے چکر میں پی آئی اے کے خسارے میں مزید اضافہ ہوا جبکہ وزیر موصوف کی ایئرلائن کا منافع بڑھا۔ قومی ایئرلائن کے نقصان میں سے ذاتی ایئرلائن کا منافع نکالنا اسی Blessing in disguiseکی مثال ہے۔
آرمی پبلک سکول کا سانحہ شاید دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا حقیقی نقطۂ آغاز ثابت ہوا اور کئی معاملات پر منتشر قوم اس سانحے کے سبب ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی اور قومی سوچ میں یکسوئی پیدا ہوئی۔ اس دردناک سانحے نے جہاں قوم کو سوچ بخشی، وہیں پیدا گیری کا سامان بھی پیدا کیا۔ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا مسئلہ سنجیدہ معاملے کے طور پر سامنے آیا۔ سکولوں کی چار دیواریاں اونچی کرنے کا حکم جاری ہوا۔ دیواروں پر خاردار تاروں کی تنصیب کا فیصلہ ہوا۔ واک تھرو گیٹ لگوانے کی تجویز آئی اور منظور ہو گئی۔ میٹل ڈیٹیکٹرز خریدنے کا پابند کیا گیا۔ گارڈ مقرر کرنے کا حکمنامہ جاری ہوا۔ سب کچھ بظاہر ٹھیک ہوا مگر جو کچھ بھی ہوا وہ باچہ خان یونیورسٹی میں ہونے والے سانحے میں سامنے آ گیا کہ عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ دیواریں اونچی کرنے کا حکم تو پہلے ہی ہوا میں اڑ گیا کہ اونچی وہ دیواریں کی جاتی ہیں جو پہلے نیچی مگر موجود تو ہوں۔ بے شمار سرکاری سکولوں میں دیواریں سرے سے تھیں ہی نہیں اور جو موجود تھیں وہ اس طرح تھیں کہ کہیں پر موجود ہیں اور کہیں غائب۔ سرکاری ٹھیکیداروں اور بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا اور پہلے سے موجود دیواروں کو دوبارہ تعمیر کر کے سارا پیسہ اپنی جیبوں میں ڈال لیا۔ دیواروں پر خاردار تاروں کا معاملہ یہ بنا کہ جس روز ان خار دار تاروں کو لگانے کا حکم دیا گیا اسی روز اس خار دار تار کی قیمت دوگنی ہو گئی۔ دوچار دن بعد تار ختم ہو گئی اورسپلائی اور ڈیمانڈ کا عالمی مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ جس کے پاس تار موجود تھی اس نے منہ مانگی قیمت وصول کی۔ فرض کریں جس تار کی قیمت دو سو روپے فی کلو گرام تھی وہ چھ سو روپے ہو گئی اور 
ٹھیکیداروں اور سرکاری محکموں نے اس کی خرید آٹھ سو روپے میں ڈال دی۔ اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ کچھ طے نہیں تھا کہ اس تار کے ایک فٹ میں کتنے چکر سٹینڈرڈ ہوگا۔ جو تار ایک میٹر دیوار کے لیے ہونی چاہئے تھی وہ کھینچ کھانچ کر دو میٹر دیوار پر لگائی گئی مگر پیسے پورے وصول کیے گئے۔ یہی حال میٹل ڈی ٹیکٹرز کا تھا۔ ان کی قیمت دگنی تگنی ہو گئی ‘ معیار صرف یہ تھا کہ ٹوں ٹوں کرتا ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی میٹل ڈی ٹیکٹر کام نہیں کرتا۔ بٹن دبائیں تو سرخ بتی جلتی ہے اور ٹوں ٹوں کی آواز آتی ہے۔ کیوں آتی ہے؟ کسی کو نہیں پتہ۔ کس چیز پر آواز آتی ہے اور کس پر نہیں آتی، یہ بات ابھی تک راز ہے اور کسی کو معلوم نہیں۔ واک تھرو گیٹس میں بھی لمبا مال کمایا گیا۔ میں نے کہیں بھی یہ واک تھرو گیٹ چالو حالت میں نہیں دیکھے۔ اس حفاظتی گورکھ دھندے میں بلا مبالغہ کروڑوں روپے متعلقہ لوگوں کی جیب میں چلے گئے۔ اس سلسلے میں سکیورٹی کمپنیوں نے بھی اپنے ہاتھ خوب رنگے اور جو گارڈ آٹھ ہزار روپے میں ملتا تھا وہ چودہ پندرہ ہزار تک جا پہنچا۔ ظاہر ہے سکول اس سلسلے میں پیچھے کیوں رہتے؟۔ انہوں نے سکیورٹی انتظامات کو بہانہ بنا کر فیسوں میں اضافہ کر دیا۔ اگر سکول کے ماہانہ اخراجات میں پچاس ہزار روپے کا اضافہ ہوا تو چار سو بچوں والے سکول نے فی بچہ پانچ سو روپے اضافہ کر کے دولاکھ روپے جنریٹ کر لیے۔ اسے اس ساری بھاگ دوڑ میں ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ مفت میں بچ گئے۔ 
ہم سیلاب میں پیسے کما لیتے ہیں۔ زلزلے میں نوٹ بنا لیتے ہیں۔ پی آئی اے کی ہڑتال کے دوران سرکاری نقصان میں سے ذاتی نفع نکال لیتے ہیں۔ شہید بچوں کے خون سے مال بنا لیتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ میں مرنے والے شخص کی جیب سے بٹوا نکال لیتے ہیں۔ فرد واحدسے لے کر حکومتی اداروں تک سب خرابیوں میںسے ''خیر اور نفع‘‘برآمد کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ انگریزی محاورہ نے جس کثرت سے ہمارے ہاں عملی تفسیر پیش کی ہے اس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں ملنا محال ہی نہیں نا ممکن ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved