تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     11-02-2016

آوے کا آوا؟

وزیرداخلہ پاکستان چودھری نثار علی خان کو یہ معلوم کرنے میں ڈھائی سال لگ گئے کہ اسلام آباد میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس غیرمجاز پولیس افسروں کے گھروں میں پولیس کے ایک سو جوان گھریلو ملازمین کا کام کر رہے ہیں۔ چودھری صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ حرکت قابل مذمت ہے اور ساتھ ہی حکم صادر فرمایا ہے کہ پولیس کے یہ کانسٹیبل فوراً اپنی اصلی ڈیوٹی پر آ جائیں۔ سنا ہے کہ چودھری صاحب اور ان کی وزارت کو کئی خفیہ ڈیپارٹمنٹ مسلسل باخبر رکھتے ہیں۔ لگتا ہے کہ خفیہ والوں نے یا تو اس بات کو اہمیت ہی نہیں دی یا وہ اپنے پیٹی بھائیوں کی ہر قیمت پر وفاداری کرنا چاہتے تھے۔ خواہ وہ غلط کام ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ نوشیرواں عادل نے صدیوں پہلے کہا تھا کہ بادشاہ اگر باغ سے ایک سیب بھی ناجائز لے گا تو اس کی فوج سارے کا سارا باغ کھا جائے گی۔ اگر آئی جی صاحب نے پولیس کانسٹیبل کو ناجائز رکھا ہوا ہے تو ڈی آئی جی اور ایس پی بھی ضرور یہ کار خیر کریں گے۔
چودھری صاحب جب وزیرداخلہ بنے تھے تو کاش پہلے دن اسلام آباد میں کسی بچے سے پوچھ لیتے کہ فلاں فلاں سیکٹر کے جن گھروں میں نوکروں کی فوج ظفر موج کام کرتی ہے وہاں کون صاحب رہتے ہیں۔ بلکہ ایک دو گھروں میں تو اتنے نوکر تھے کہ گھروں میں سما نہیں سکتے تھے، لہٰذا صاحب بہادر کو گھر سے باہر ٹینٹ لگوانا پڑے۔ چودھری صاحب! اب یہ بات زبانی مذمت پر نہیں رکنی چاہئے، ان افسران کے نام بتائے جائیں اور ان غیر مجاز افسروں کے نام افشا کیے جانے کے علاوہ ان سے جوانوں کی ساری گھریلو ملازمت کی مدت کی تنخواہیں لے کر پولیس کے ویلفیئر فنڈ میں جمع کرائی جائیں تاکہ آئندہ یہ حرکت نہ ہو۔
اس ملک میں ہر بڑا افسر، خواہ وہ 
حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ، اپنے آپ کو حکومت کا داماد سمجھ کر وکھری مراعات لینا چاہتا ہے۔ ہمارے ایک سابق چیف جسٹس، جنہیں ریٹائر ہوئے زمانہ ہوگیا، آج بھی سرکاری بلٹ پروف گاڑی استعمال کر رہے ہیں۔ کار کے جملہ اخراجات بھی حکومت برداشت کر رہی ہے۔ موصوف ایک زمانے میں ہمارے ہیرو تھے۔ ٹائم میگزین نے 2012ء میں ان کانام دنیا کے سو بااثر ترین لوگوں میں لکھا تھا، لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔ موصوف انصاف کے داعی ہیں، لہٰذا انہیں چاہئے کہ اس کار کے تمام اخراجات خود برداشت کریں اور اگر وہ اس کار کو خریدنا چاہتے ہیں تو شفاف نیلامی میں خریدیں۔ بصورت دیگر عین ایسی ہی مراعات دیگر ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان کو بھی دی جائیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ اور اب آتے ہیں انکم ٹیکس کی جانب۔ پاکستانی اشرافیہ میں ٹیکس چوری کا کلچر موجود ہے۔ پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ پارلیمنٹ کے ہر ممبر کے پاس اوسطاً نو کروڑ کے اثاثے ہیں، مگر ان میں سے کئی ممبر انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ یہ لوگ لینڈ کروزر میں سفر کرتے ہیں۔ بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے آگے پیچھے نوکر ہی نوکر ہوتے ہیں۔ گھی سے چپڑے بال ، روزانہ کلف سے اکڑے استری شدہ صاف ستھرے کپڑے زیب تن، مگر ٹیکس دینا گوارا نہیں۔ ایک محترمہ جو ایم این اے ہیں، نے 2015ء میں ایک ہزار انکم ٹیکس ادا کیا۔ چلیں خیر محترمہ نے ٹیکس ریٹرن تو فائل کر دیے، بہت سے ممبران پارلیمنٹ اتنی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتے۔ 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ساٹھ فیصد فیڈرل وزرا نے انکم ٹیکس ادا نہیں کیا تھا۔
یہ لوگ عوام الناس اور مڈل کلاس کے لئے ایک بڑی مثال ہیں۔ مڈل کلاس عام طور پر امرا کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک سابق چیئرمین کے مطابق ہمارا ٹیکس سسٹم اشرافیہ اپنے مفادات کے مطابق بناتی ہے۔ مثلاً فیوڈل کلاس کے وڈیروں نے آج تک اس ملک میں زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ کامیابی سے روکا ہے۔ تین چار سال پہلے کی بات ہے کہ میرے ایک عزیز ٹورنٹوسے پاکستان آئے۔ موصوف چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں اور ایک بڑی اکائونٹنگ فرم سے بطور پارٹنر ریٹائر ہوئے۔ اپنے فیلڈ میں مہارت کی وجہ سے معروف تھے۔ فرم والوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی مہارت سے استفادہ جاری رکھا۔ ایسے لوگوں کو عرف عام میں کنسلٹنٹ کہا جاتا ہے، یعنی جتنا جی چاہا کام کرلیا۔ تو ٹورنٹو سے اشرف صاحب اپنے چند ہم کار ساتھ لے کر پاکستان وارد ہوئے اور پروگرام کا بیشتر حصہ کراچی میں گزارا۔ اسلام آباد آئے تو ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا: حضرت آپ کراچی میں اتنے دن کیا کر رہے تھے، جبکہ کراچی میں آپ کا کوئی عزیز بھی نہیں۔
اشرف صاحب نے دلچسپ جواب دیا۔ کہنے لگے کہ کراچی کے رہائشی سینکڑوں صاحب ثروت پاکستانی دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ بے شمار لوگوں کے پاس کینیڈین نیشنیلٹی ہے۔ ان میں سے کئی لوگ کاروبار کراچی میں کرتے ہیں اور رہائش بھی پاکستان میں ہے کہ پاکستان اب بھی امیروں کے لئے جنت ہے۔ ساتھ ہی گویا ہوئے کہ ان لوگوں میں سے دو سو سے زائد پچھلے سال اپنی کینیڈین نیشنیلٹی گنوا بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ جواب تھا کہ کینیڈا میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے، ان لوگوں نے ریٹرن فائل نہیں کیے اور شہریت کھو بیٹھے۔ اب ہماری فرم سال میں کم از کم ایک مرتبہ پاکستان اپنے نمائندے بھیجتی ہے تاکہ ہم دوہری شہریت کے لوگوں کو کینیڈین ٹیکس قوانین کے حوالے سے مشورے دے سکیں۔ جب سے کچھ لوگوں کی پاکستان بیٹھے بیٹھے کینیڈین نیشنلٹی ختم ہوئی ہے، باقی لوگ بھاگے بھاگے ہمارے پاس آتے ہیں۔ اب فرق صاف ظاہر ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس نہ دیں تو کڑی سزا ملتی ہے جبکہ پاکستان میں ٹیکس نہ دیں تو ایم این اے اور وزیر بن سکتے ہیں۔
پاکستان کی اشرافیہ ٹیکس چور ہے تو غریب کام چور ہوگیا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ جیسی سکیموں نے غریبوں کو بھکاری بنا دیا ہے اور وہ سینہ تان کر بھیک لیتے ہیں۔ امیر سیاست دان ووٹ خریدتا ہے تو غریب ووٹ فروخت کرتا ہے۔ دونوں برابر کے گنہگار ہیں۔ اقبال کا شاہین اکثر طائر لاہوتی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یہاں سو دو سو، رشوت لیتا ہوا پٹواری پکڑا جائے تو اسے سزا ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہمارا ایک سابق سفیر جکارتہ میں غیر شفاف طریقے سے اربوں کھربوں کی سرکاری پراپرٹی چند کروڑ میں بیچ ڈالے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب اس ڈرامے کو چودہ سال ہونے کو ہیں لیکن نیب کی کارروائی سست روی کا شکار ہے۔ اس ڈرامے کے دو مرکزی کردار اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ایک مشتاق حیدررضوی، جس نے سچ بولنے کی سزا پائی اور آٹھ سال تک او ایس ڈی رہا اور دوسرے جاوید مسعود سی ایس پی، جسے جنرل مشرف نے انکوائری کے لئے جکارتہ بھیجا۔ وہ انکوائری کمیٹی جس میں نہ وزارت خارجہ کا کوئی افسر تھا اور نہ ہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا۔ مجھے یقین ہے کہ قیامت کے روز مشتاق حیدر رضوی کا ہاتھ جنرل مشرف اور جنرل مصطفیٰ انور حسین کے گریبانوں میں ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے تو ملک چل کیسے رہا ہے۔ کیا یہ ملک آزاد صحافت کی وجہ سے چل رہا ہے؟ جی نہیں۔ میری اطلاع کے مطابق صحافیوں میں بھی کئی کالی بھیڑیں ہیں۔ سنا ہے کہ اسلام آباد میں بعض صحافی سرکاری گھروں میں رہ رہے ہیں۔ این جی اوز والے بیرونی فنڈز لے کر خارجی ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں اور ایسا سب کرنے والے پاکستانی شہری ہیں۔ تو جناب یہ ملک اپنی زراعت پر چل رہا ہے، جہاں دہقان محنت کرتا ہے۔ یہ ملک پرائیویٹ سیکٹر کی وجہ سے چل رہا ہے کہ وہاں میرٹ اب بھی قائم ہے۔ یہ ملک عبدالستار ایدھی، رمضان چھیپا اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے بے لوث لوگوں کی وجہ سے قائم ہے کہ ہماری ریاست کمزور سہی مگر معاشرہ اتنا کمزور نہیں اور سب سے بڑھ کر ہماری مسلح افواج جو نظم و ضبط اور بہادری کا نمونہ ہیں۔جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved