قومی ایئر لائن کے طیارے زمین پر کھڑے رہے اور ہڑتالی ملازمین نے ہڑتال کے پَر لگاکر ٹیک آف کیا۔ ہفتہ بھر اِس حالت میں گزرا کہ مسافر پریشان دکھائی دیئے اور ہڑتالی ملازمین دھرنوں میں تازہ دم۔ چینلز کی گاڑیاں لگی ہوئی تھیں اور رونق میلہ جاری تھا۔ دوسری طرف اندرون اور بیرون ملک سفر کرنے کے خواہش مند منتظر ہی رہے کہ کب اپنے پیاروں سے جا مِلیں۔ جنہیں ملک سے نکل کر اپنی ڈیوٹی دوبارہ جوائن کرنا تھی وہ زیادہ پریشان تھے۔ چند ایک کو تو شاید ویزا کی میعاد ختم ہونے جیسے سنگین مسئلے کا بھی سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
ہڑتال کے ذریعے جنہیں پیالی میں طوفان اٹھانا تھا انہوں نے تو اپنا شوق پورا کرلیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہفتہ بھر پروازوں کے معطل رہنے سے قومی خزانے اور عوام کو جو جس نقصان کا سامنا رہا اُس کا ازالہ کون کرے گا۔
نجکاری کے خلاف پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتالی اپنی نوعیت اور ٹیمپرامنٹ کے اعتبار سے ڈیڑھ سال پہلے دھرنے کی بھونڈی نقل کے سِوا کچھ نہ تھی۔ انداز نیم دِلانہ تھا۔ دو دن بعد ہی ہڑتالی ملازمین کے قائدین کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اُنہوں نے ہڑتال کی پتیلی میں جو دال ڈالی ہے وہ گلنے والی نہیں۔ احتجاج کا انداز سراسر غیر منطقی تھا۔ بظاہر کوشش یہ تھی کہ چلیے، احتجاج کے نام پر کچھ شغل میلا ہی ہوجائے گا۔
مگر افسوس کہ پتھر بھی ہاتھ نہ لگے۔ ہڑتال نجکاری کے خلاف تھی مگر حکومت نے تو خفیف سا بھی عندیہ نہیں دیا کہ وہ قومی ایئر لائن کی نجکاری کے ارادے سے باز آگئی ہے۔ پھر ہڑتال کیوں ختم کی گئی؟ یا یہ کہ کی ہی کیوں گئی؟ اگر ہڑتال کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا تو عرض ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مطالبہ تھا وزیر اعظم سے ملاقات کرکے ان پر موقف واضح کرنے کا مگر انہوں نے تو ملنا گوارا نہ کیا۔ وزیر اعظم راضی نہ ہوئے تو برادرِ خورد سے ملنے کو کافی سمجھ لیا گیا۔ بقول ناصرؔ کاظمی ؎
کچھ یادگارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں!
پی آئی اے کا شمار اُن سرکاری اداروں میں ہوتا ہے جنہیں سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز اور ہمدردوں کو کھپانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ریلوے، پاکستان اسٹیل اور واپڈا کا حشر ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ پی آئی اے بھی اِسی تماشے کا حصہ ہے۔ 14 ہزار ملازمین اور طیارے یہی کوئی تین ساڑھے تین درجن! بہت خوب۔ ایسے میں ادارہ کس طور کام کرے گا اور قوم کو کیا کماکر دے گا، کوئی ہمیں سمجھائے۔ قومی ایئر لائن ہونی چاہیے مگر کس قیمت پر؟ ایسی قومی ایئر لائن کا ہمیں کیا اچار ڈالنا ہے جس کے طیارے تو تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر اُڑا کریں اور خسارہ سو میل کی بلندی پر محوِ پرواز رہے!
ریلوے، واپڈا، پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے جیسے ادارے وہ پہاڑ ہیں جو قومی خزانے کے سینے پر چڑھ بیٹھے ہیں۔ ان اداروں کے بطن سے نمودار ہونے والا خسارہ اونچی اڑان بھر رہا ہے اور قوم کا ''لینڈنگ گیئر‘‘ لگا ہوا ہے!
پی آئی اے کی صورت حال ایسی ہے کہ نجکاری غیر منطقی معلوم نہیں ہوتی۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ نجکاری کس نیت سے کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت پی آئی اے کو بیچنے کی بات کر رہی ہے مگر در حقیقت وہ اِسے خریدنا چاہتی ہے! سلیم مانڈوی والا نے ایک جملے میں پوری داستان بیان کردی ہے۔ حکومت خود بھی ایسے اشارے دے رہی ہے کہ معترضین کا کھل کر سامنے آنا حیرت انگیز نہیں۔ اب شہباز شریف صاحب ہی کی مثال لیجیے۔ پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین کے قائدین شہباز شریف سے ملاقات پر کیوں راضی ہوگئے؟ شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پی آئی اے کے معاملات سے اُن کا کیا تعلق؟ پی آئی اے کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ کا یہ کہنا بھی دلچسپ ہے کہ صرف شہباز شریف ہی ان کا موقف وزیر اعظم تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ''بھائی چارہ‘‘ ہی ذہنوں میں سوالات پیدا کر رہا ہے!
اگر خسارے کی بنیاد پر کسی ادارے کو بیچنا لازم ٹھہرتا ہے تو کل کو اِس قوم کی بھی نیلامی کرنا پڑے گی کیونکہ قوم تو مستقل خسارے میں ہے! ریلوے، واپڈا، پاکستان اور اسٹیل اور پی آئی اے جیسے انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کے اداروں کی نجکاری لازم ہے تو ذہن میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ کہیں ان اداروں کے خسارے میں جان بوجھ کر تو اضافہ نہیں ہونے دیا گیا تاکہ نجکاری کا ڈول آسانی سے ڈالا جاسکے!
وفاقی اور صوبائی سطح پر تعلیم اور صحت دونوں ہی شعبے سیاسی بنیاد پر بھرتی کے ذرائع کے سِوا کچھ نہیں۔ تعلیم کا شعبہ خاص طور پر قابلِ رحم ہیں۔ اپنی مرضی کے یعنی نا اہل اور ناکارہ لوگ آسانی سے کھپادیئے جاتے ہیں۔ اور اس کا بھگتان عوام کو اپنی محنت کی کمائی سے کرنا پڑتا ہے۔
پی آئی اے کی ہڑتال سے ادارے کے ملازمین کا تو خیر کچھ زیادہ بھلا نہ ہوا ہوگا اور قوم بھی کچھ نہ پاسکی مگر اتنا ضرور ہوا کہ سیاسی جماعتوں کی غیر منطقی سوچ ایک بار پھر خاصے بھونڈے انداز سے سامنے آگئی۔ ہڑتالی ملازمین نے دھرنے دیئے تو چینلز کی گاڑیاں (ڈی ایس این جی) بھی کوریج کے لیے پہنچ گئیں۔ ڈی ایس این جیز کو دیکھ کر ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے جو سیاست کے نام پر کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کو زندگی سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کراچی میں اسٹار گیٹ پر ہڑتالی ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو لتاڑا۔ انہوں نے پی آئی اے پر لازمی سروس ایکٹ کے نفاذ کو بھی جابرانہ اقدام قرار دیا۔
عمران خان کا حکومت پر برسنا واجب تھا۔ بہت دنوں سے کوئی ایسا نکتہ ملا ہی نہیں تھا جس پر زور و شور سے کچھ کہا جاتا۔ بھلا ہو پی آئی اے کے ہڑتالی ملازمین کا جنہوں نے یہ موقع عطا کیا۔ مگر دو دن بعد ایسا تضاد سامنے آیا کہ جس تحریک انصاف سے اس کے مخالفین بے نقاب ہونے کی توقع کر رہے تھے وہ قوم کے سامنے بے لباس سی ہوگئی! جس لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ پی آئی اے ملازمین کے لیے جابرانہ اقدام ٹھہرا تھا وہی لازمی سروس ایکٹ خیبر پختونخوا میں ڈاکٹرز اور نیم طبّی عملے کو ہڑتال سے روکنے کے لیے نافذ کردیا گیا! اور لطف کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر صحت نے یہ بھی کہا کہ پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ ناجائز اور خیبر پختونخوا میں جائز ہے! ع
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اِسے کیا کہیے!
خیر، پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتال ناکام ہی سہی مگر بہت سوں کو بے نقاب کرنے کے معاملے میں تو کامیاب ہی رہی۔ ہڑتال کی لینڈنگ نے بہت سے معاملات میں ہمارے گمان کو پرواز دی ہے۔ ہڑتالی ملازمین کے قائدین کا یہ کہنا بھی محلِ نظر تھا کہ وزیر اعظم نے بات نہ سُنی تو ''کوئی اور‘‘ سُنے گا! ہوسکتا ہے کچھ دن میں اِس ''کوئی اور‘‘ کی بھی نقاب کُشائی ہوجائے! کیا ایک اور دھرنے کی راہ ہموار کی جارہی تھی؟
پی آئی اے قومی ادارہ اور عوام کا اثاثہ ہے۔ اِسے ٹھکانے لگانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ غیر ضروری حد تک فاضل عملے کی موجودگی میں ادارہ منافع تو کمانے سے رہا۔ ایسے میں کارکردگی کی بنیاد پر چھانٹی میں کوئی ہرج نہیں۔ معاملات شفاف طریقے سے انجام کو پہنچیں تو کسی کو شکایت کا موقع ملے گا نہ ہڑتال کی ترغیب!
پی آئی اے کا معاملہ پوری قوم کو بتاگیا ہے کہ قومی اداروں کو گھریلو امور کی چلانے کی روش خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ اگر وزیر اعظم تک موقف پہنچانے کے لیے چھوٹے بھائی ہی کا سہارا لینا ہے تو وفاقی کابینہ کی کیا حیثیت اور ضرورت رہ جاتی ہے! جمہوریت کے فیض سے ایک بار پھر اقتدار ہاتھ آیا ہے تو اِسے خاندانی کاروبار کی طرح چلانے سے گریز ہی دانش اور حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ پی آئی اے جیسے بڑے اور بنیادی خدمت والے ادارے کی نجکاری ضِد یا ہٹ دھرمی کے سے انداز سے کی جائے تو قوم کا تشویش میں مبتلا ہونا حیرت کی بات نہیں۔ وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہیے کہ یار لوگ کسی بڑی غلطی کے منتظر ہیں۔ ایسے میں تمام سرکاری معاملات کی لینڈنگ محفوظ طریقے سے ہونی چاہیے ورنہ جمہوریت کا ٹیک آف ایک بار پھر ناکامی سے دوچار کیا جاسکتا ہے!