جو پاکستانی جنرل راحیل شریف کی یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ 2016ء واقعی دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہے انہیں ڈی جی انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان کے قائمہ کمیٹی کے سامنے دیئے گئے بیان سے لازماً مایوسی ہوئی۔ موصوف نے فرمایا ''دہشت گردی اگلے آٹھ دس سال میں جا کر ختم ہو گی اور دس سال تک پوری قوم کو جاگتے رہنا پڑے گا۔‘‘
معلومات کے ذرائع آئی بی کے پاس کم ہیں نہ آرمی چیف کا اندازہ غلط ہو سکتا ہے۔ ایک کے پاس صرف معلومات ہیں جبکہ دوسرا معلومات کے علاوہ ان کی روشنی میں عملی اقدامات پر قادر ہے البتہ آرمی چیف کے مقابلے میں آفتاب سلطان کو سویلین اداروں اور منصوبہ سازوں کے عزم و صلاحیت‘ انداز کار اور قوت فیصلہ کا نسبتاً بہتر اندازہ ہے۔ وہ گھر کے بھیدی ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ آرمی چیف کے احکامات پر ان کے ماتحت کس طرح خشوع و خضوع سے عمل کرتے ہیں اور کسی سویلین چیف کی ہدایات کو کس طرح ہوا میں اُڑایا جاتا ہے۔ کمال آرمی چیف کے ماتحتوں کا ہے نہ سویلین چیفس کے تابعداروں کا۔ دونوں کی تربیت کا انداز مختلف ہے۔ ایک طرف سخت کوشی‘ ریاضت اور اپنا کام وقت پر نمٹانے کی تربیت اور دوسری طرف کام چوری‘ دفع الوقتی اور ٹال مٹول کا کلچر۔
بھارتی کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے جنرل(ر) امیر عبداللہ خان نیازی کو 1977ء کی نظام مصطفیٰ تحریک میں قومی اتحاد نے اپنے سیاسی اجتماعات کی زینت بنایا اور وہ جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے جا بجا تقریریں کرنے لگے تو انہیں یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ وہ عوام میں مقبول ہیں۔ مولویوں کی جماعت میں دوسری تیسری پوزیشن پر کام کرنے کے بجائے اپنی جماعت بنا لیں تو مستقبل میں بننے والے سیاسی و انتخابی اتحاد میں انہیں بہتر نمائندگی مل سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے جھٹ سے اعلان کر دیا کہ وہ اپنی نئی سیاسی جماعت تشکیل دے رہے ہیں۔
ایک دن میںبرادرم امتیاز بخاری کے ہمراہ کینٹ میں اُن کی اقامت گاہ پر حاضر ہوا تو موصوف گھر کے برآمدے میں لال پیلے بیٹھے کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے پوچھا جنرل صاحب !خیر باشد۔بولے جماعت کی باقاعدہ لانچنگ کیا خاک ہو گی بلڈی سویلینز نے سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا ہے۔ پوچھا کیا ہوا؟ بولے جماعت کا منشور‘ دستور اور رکنیت فارم چھپنے کے لیے دیے تھے، ایک ہفتے کا وعدہ تھا پندرہ دن گزر گئے متعلقہ آدمی پکڑائی نہیں دے رہا۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں کب کام مکمل ہو گا اور میں پریس کانفرنس کرپائونگا تسلی دی کہ کوئی بات نہیں دیر سویر ہو جاتی ہے۔ مزید بھڑک اٹھے کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ میں نے فوج میں اگر کسی ماتحت کو یہ حکم دیا ہوتا تو وہ چوبیس گھنٹوں میں سارا کام مکمل کر کے اوکے رپورٹ دیتا، یہاں ہفتے کا کام پندرہ دن میں ہو نہیں پایا ،ملک کیسے ترقی کریگا؟بعد ازاںپرویز مشرف سمیت کئی دیگر جرنیلوں کو بھی اپنی جماعتیں بنانے کا شوق چرایا مگر سویلینز کی اس سستی‘ غفلت اور وعدہ خلافی کی وجہ سے ناکا م رہے ورنہ ان کی اپنی منصوبہ بندی کمال کی تھی،اور ارادے ہمالیہ سے بلند۔
دہشت گردی کے حوالے سے فوجی قیادت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ قبائلی علاقوں‘ کراچی اور بلوچستان میں پہنچ کر کبھی جنگ میں مصروف افسروں اور جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں، کبھی خفیہ ایجنسیوں کو شاباش دیتے ہیں اور کبھی مرکز اور صوبے میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلا کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ وزیر اعظم سے ملاقاتوں میں بھی موضوع بحث عمومی طور پر آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان ہی ہوتا ہے مگر ہمارے منتخب حکمرانوں کو ؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس اور پشاور میں اپیکسکمیٹی کے خصوصی اجلاس میں آپریشن کی تکمیل اور ٹی ڈی پی ایز کو جلد اپنے گھروں کو واپسی کا معاملہ زیر غور آیا تو پتہ چلا کہ ابھی تک فاٹا سیکرٹریٹ نامکمل ہے، فاٹا کے بارے میں اصلاحات کا کچھ اتا پتا نہیں اور ٹی ڈی پیز کی واپسی میں اہم ترین رکاوٹ فنڈز کی کمی ہے کیونکہ مطلوبہ اسّی ارب روپے میں سے وفاقی حکومت اب تک صرف بیس ارب روپے فراہم کر سکی ہے۔ حالانکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار پارلیمنٹ میں متعدد بار قوم ‘ فوج اور دیگر اداروں پر یہ احسان جتلا چکے ہیں کہ حکومت آپریشن اور بحالی کے اخراجات کے لیے دل کھول کر فنڈز فراہم کر رہی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ حکومت اگر ان لوگوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے قاصر ہے جنہوں نے پوری قوم کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے گھر بار چھوڑے‘ گرمی سردی بارش اور بے آرامی کے علاوہ سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور غریب الوطنی کا عذاب سہا تو بھرا خزانہ کس مرض کی دوا ہے۔
ویسے تو عرصہ ہوا ہمارے حکمرانوں نے اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر محض عیش و عشرت‘ سیر سپاٹے اور لوٹ مار کو شعار کیا ہے۔ خربوزوں کی رکھوالی پر مامور گیدڑوں کی پالیسی یہ ہے کہ عوام اپنے بچوں کو تعلیم نجی اداروں سے دلائیں ‘اپنا اور اپنے خاندان کا علاج معالجہ کاروباری طبی اداروں سے کرائیں‘ روزگار خود ڈھونڈیں۔ اپنی رہائش اور حفاظت کا خود انتظام کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے دانشوروں‘ماہرین تعلیم‘ صحافیوں اور معاشی اکابرین نے بھی حکومت کی منطق تسلیم کر لی ہے مگر جب ان سے سوال کیا جائے تو جواب کسی کے پاس نہیں کہ پھر عوام ٹیکس کیوں دیں۔ اپنے پیسے سے خریدی گئی مہنگی جائیداد پر پراپرٹی ٹیکس‘ خون پسینے کی آمدنی پر انکم ٹیکس اور خریداری پر سیلز ٹیکس کس بات کا؟ یہ ٹیکس تو وصول ہی اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ حکومت بے روزگاروں کو روزگار‘ غریب کے بچوں کو تعلیم‘ مستحق خاندانوں کو صحت کی سہولتیںاور بے گھروں کو اقساط پر گھر فراہم کر سکے مگر یہاں ٹیکس اور اندرونی و بیرونی قرضے محض میگا پراجیکٹس اور حکمران اشرافیہ کی عیش و عشرت کی خاطر لیے جاتے ہیں ۔
کوئی سوچ نہیں سکتا کہ اکیس ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے والی حکومت کے پاس قبائلی علاقوں کے بے گھروں کی واپسی کے لیے فنڈز کی کمی ہے اور محض اس بنا پر بحالی کا کام متاثر ہو رہا ہے، حالانکہ ان لاکھوں افراد کی واپسی دنیا کو یہ باور کرانے میں مددگار ثابت ہو گی کہ فاٹا واقعی دہشت گردوں سے پاک ہو چکا ہے۔ معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں اور نہتے شہری پُرامن زندگی گزارنے کے لیے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ انہی غلط ترجیحات‘ سہل پسندانہ انداز فکر اور آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادت نے پاکستان میں نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور مسلکی تعصبات اور دہشت گردی کو جنم دیا اور ہمارے حکمرانوں کو پتہ اس وقت چلا جب یہ فصل پک کر تیار ہو چکی تھی۔ اب بھی کاٹنے کی فکر کم ہے برقراررکھنے کی زیادہ۔ پنجاب پولیس کا وتیرہ ہے کہ کسی چھوٹے موٹے مقدمے میں مطلوب کوئی شخص مر جائے تو سارے اگلے پچھلے کیس اس پر ڈال کر فائل داخل دفتر کر دیتی ہے۔یہی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہو رہا ہے اور ڈی جی آئی بی نے بھی موجودہ دہشت گردی کے تانے بانے مرحوم سے ملانا ضروری سمجھے حالانکہ جب 1988ء میں ان کا طیارہ بقول اسحق خان ''فضا میں پھٹ گیا‘‘ تو تحریک طالبان پاکستان ‘لشکر جھنگوی القاعدہ‘ جنداللہ اور دیگر عفریتوں کا نام و نشان تک نہ تھا حتیٰ کہ افغان طالبان بھی بہاولپور حادثہ سے کم و بیش چھ سال بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں منظم ہوئے یا کئے گئے۔ تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ کراچی اور بلوچستان کے دہشت گرد‘ علیحدگی پسند اور ٹارگٹ کلرز جنرل (ر) پرویز مشرف کا تحفہ ہیں مگر چونکہ ضیاء الحق کی فائل داخل دفتر کرنا آسان ہے اس لیے ممکن ہے اگلے دس سال تک ہر جرم انہی کے نام لکھا جائے۔ آخر اپنی نااہلی کا ملبہ کسی پر تو ڈالنا ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی رسوائی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہا ہے تو1988ء سے اب تک ملک چلانے والے سویلین حکمران اور ریاستی ادارے ضیاء الحق کو مورد الزام کیوں نہیں ٹھہرا سکتے۔ داعش کو بھی مرحوم کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دینے میں حرج نہیں مگر پنجاب حکومت اس کے وجود سے مُنکر ہے‘ نجانے آئی بی نے اسے کہاں سے ڈھونڈ نکالا ؟ بہرحال ایک باخبر ریاستی عہدیدار کی بریفنگ کا احوال جان کر ہر اس پاکستانی کی مایوسی میں اضافہ ہوا جو 2016ء کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال سمجھ بیٹھا تھا۔ یقین تو کرنا ہی پڑے گا کہ یہ سول ادارے کی بالادستی کا سوال ہے!