جو خوش فہمیوں اور خوابوں کی جنت پالے، قربانیوں کے بغیر، حکمت اور ایک پیہم جدوجہد کے بغیر جو قوم نجات کی آرزومند ہو، اس کے بارے میں کیا عرض کیجئے؟
انٹلی جنس بیورو نے ایک دس رکنی گروہ کا سراغ لگایا، بھاری اسلحہ لے کر جو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتا۔ اسلام آباد کے نواح ترنول میں اسلحہ وہ زمین میں دفن کر دیتے۔ ہر طرح کی وارداتیں کیا کرتے۔ یہ بات ادارے کے سربراہ آفتاب سلطان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو ایک بریفنگ میں بتائی۔ خوش قسمتی سے اس گروہ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ انٹلی جنس بیورو کی تشکیلِ نو جاری ہے اور اس نے کچھ دوسرے کارنامے بھی انجام دیے ہیں۔
پولیس افسر کی حیثیت سے آفتاب سلطان کا کردار بے داغ رہا۔ بہت دن ہوتے ہیں‘ میاں محمد شہباز شریف نے انہیں لاہور کا ایس ایس پی بنانے کی پیشکش کی۔ انہوں نے انکار کر دیا اور وجہ بتائی۔ وزیرِ اعلیٰ نے کہا، ایک پوری قطار انتظار میں ہے۔ ان کا جواب یہ تھا: میں اس قطار کا حصہ نہیں۔ ایک ایسے افسر کو گوارا کرنے، ذمہ داری سونپنے اور پھر توسیع دینے پر وزیرِ اعظم کی ستائش کی جانی چاہیے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں، جن کے بل پر ملک چلائے جاتے ہیں۔ بے شک بلا لحاظ قانون کا نفاذ ہی وہ واحد راستہ ہے، معاشرے جس سے استحکام اور فروغ پاتے ہیں۔
غزنی کے محمود نے سگے بھانجے کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، جو ایک فرومایہ آدمی کے گھر گھس جایا کرتا۔ شیر شاہ سوری نے اپنے فرزند کو سزا سنائی تھی۔ شہنشاہ جہانگیر نے ملکہ نور جہاں کے قتل کا حکم صادر کیا تھا کہ محل کی دیوار تلے غلط فہمی میں چلائے گئے اس کے تیر سے ایک بے گناہ جاں بحق ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثالی حکمران تھے۔ دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے۔ اس راز سے وہ آشنا تھے کہ طاقتوروں کو اگر سزا نہ دی جائے تو مجرم بے خوف ہو جائیں گے۔ تب ریاست کا اعتبار اٹھ جاتا ہے اور وہ تحلیل ہونے لگتی ہے۔ حکمران کی سب سے بڑی فکرمندی یہ ہونی چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس اور عدالتیں بے خوف ہوں، دبائو اور خوف سے آزاد۔
انگریز اس لیے برصغیر پر حکومت کر سکا کہ خانہ جنگی اور طوائف الملوکی کے طویل زمانوں کے بعد اس کی پولیس اور قاضیوں پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا۔ چار ہفتے ہونے کو آئے، گجر خان کے غیر معمولی حد تک اچھی شہرت رکھنے والے پولیس افسر کو ایک ایسے ایم پی اے کی فرمائش پر بدل دیا گیا، جس پر جعلی ڈگری کا مقدمہ قائم ہے، متعدد اور بھی۔ اتنے دن گزر جانے کے باوجود جناب شہباز شریف کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔
نواحِ اسلام آباد میں صورتحال سنگین ہے۔ کچی آبادیوں کے بعد مضافاتی بستیوں میں‘ افغانیوں سمیت ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد نے ٹھکانے بنا لیے ہیں۔ بھتہ وصول کرنے کی اطلاعات ہیں‘ مگر پولیس اور انتظامیہ بھنگ پی کر سو رہی ہیں۔ وہ مستقبل کا کراچی بن سکتا ہے۔ شہرِ کراچی ایک دن میں اس حال کو نہیں پہنچا کہ ہزاروں قتل ہوئے۔ ٹارگٹ کلرز دندناتے پھرے۔ اغوا برائے تاوان جیب تراشی کی طرح عام ہو گیا۔ جرائم کی صنعت 270 ارب روپے سالانہ تک جا پہنچی۔ تب رینجرز طلب کیے گئے۔ اس کے باوجود یہ عالم تھا کہ شہر کی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے ٹیلی
ویژن پر اپنے حامیوں سے کہا کہ سمندر کنارے وہ فائرنگ کی مشق کیا کریں۔ جنرلوں کو دھمکیاں دیں کہ ان کے بلّے اور بیج باقی نہ رہیں گے۔ مظلوم ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مظلوم کون ہے؟ 20 کروڑ پاکستانی۔ جنہیں پینے کا صاف پانی میسر ہے، نہ ہی وہ پولیس اور عدالت، جس سے انصاف کی امید ہو۔ مکمل طور پر یہ ملک اب اشرافیہ کی چراگاہ ہے، جو پہلے ہی بہت طاقتور تھی۔ جاگیرداری کا رونا اپنی جگہ کہ بہرحال وہ ایک ناسور ہے۔ شہروں کی حالت کیا ہے؟ جو بارسوخ ہے، ظلم ڈھانے کے لیے وہ آزاد ہے۔ دیہات میں زمیندار ہیں تو شہروں میں نئی صنعت کار اشرافیہ۔
1968ء میں ڈاکٹر محبوب الحق نے 22 خاندانوں کا رونا رویا تھا، منصوبہ بندی کمیشن، بینکوں اور پالیسیاں بنانے والے ہر ادارے کو جو کنٹرول کرنے لگے تھے۔ 2005ء میں ڈاکٹر عشرت حسین نے ان اداروں کی تعداد 44 بتائی تھی۔ ممکن ہے، اب کچھ اضافہ ہو۔ پیپلز پارٹی ہو، نون لیگ یا تحریکِ انصاف، سب پر وہ سوار ہیں۔ جناب نواز شریف اور آصف علی زرداری تو کیا، عمران خان بھی اب انہی کے نمائندہ ہیں۔ تحریکِ انصاف مختلف تھی مگر اغوا کر لی گئی۔ تینوں جماعتوں کے ممتاز لیڈر شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ یہ صنعت حکومت کو اولاد کی طرح عزیز ہے۔ سالِ گزشتہ سات ارب روپے کی سبسڈی اسے دی گئی۔ اس کے باوجود کہ دگنی قیمت پہ شکر بیچتے ہیں۔ کاشتکاروں سے اس قدر بدسلوکی کہ خدا کی پناہ۔ سب سے پہلے یہ خبر محترمہ شیریں مزاری نے دی تھی مگر انہیں واپس بلا لیا گیا‘ اور پھر قومی اسمبلی کی رکنیت ان کی خدمت میں پیش کی گئی۔ اس لیے کہ وہ وائس چیئرمین کا الیکشن لڑنے کی آرزومند تھیں۔ خان صاحب کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ یہ منصب تو شاہ محمود کے لیے مختص تھا، جن کی خانقاہ کے لاکھوں وابستگان ہیں۔ جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو تحریکِ انصاف کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ شاہ محمود وہی صاحب ہیں، جن کے اسی نام کے جدّ ِامجد نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ آپ کا خاندان اس سے پہلے جنرل محمد ضیاء الحق، نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے وابستہ رہ چکا۔
کیا کسی کا خیال ہے کہ حکمران پارٹیاں مسائل حل کرنے کی خواہشمند ہیں؟ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کیا کراچی میں امن چاہتی ہیں؟ نون لیگ پنجاب میں قیامِ انصاف کی تمنائی ہے؟ پرسوں کے واقعہ سے آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ پختونخوا میں احتساب کمیشن کے چیئرمین کیوں مستعفی ہوئے؟ وہ خوش گمان تھے۔ کچھ کر دکھانے کی لگن میں اس ادارے سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر سڈل نے آمادگی کے بعد انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جن خطوط پر ادارے کی تشکیل ہے‘ جو اختیارات چیئرمین کو دیے جا رہے ہیں، وہ کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے گا۔ تحریکِ انصاف کی قیادت اگر مخلص اور یکسو ہوتی تو 2012ء میں پارٹی الیکشن کیا اسی طرح ہوتے؟ 2013ء میں ٹکٹیں کیا اسی طرح بکتیں؟ جی نہیں، ان سب کی ترجیح صرف اور صرف اقتدار ہے۔ دھرنا اس لیے تھا کہ پسِ پردہ لوگوںکی مدد سے شریف حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ رہے میاں محمد نواز شریف تو بے شک ایک داغدار الیکشن ہی سے، مگر وہ منتخب ہیں۔ خلقِ خدا کی نجات سے کوئی غرض البتہ ان کو بھی نہیں۔ وگرنہ کیا وہ کاشتکاروں کو یوں مرنے دیتے؟ پولیس، عدالت اور ایف بی آر کی اصلاح نہ کرتے؟
خدا خدا کرکے، دو برس کی منصوبہ بندی سے چند ایک دردمند لوگوں نے پاکستان فریڈم موومنٹ کے نام سے سیاسی پارٹی قائم کی۔ دیرپا منصوبہ بندی کے ساتھ ایک حقیقی، جدید عوامی جماعت تشکیل دینے کی تمنّا۔ اس کی کردار کشی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس پہ پھر بات ہو گی۔ نکتہ یہ ہے کہ ایک سچی اور کھری جدوجہد کے بغیر اس اشرافیہ سے نجات نہیں پائی جا سکتی‘ جس کے لیے جناب عبدالقادر حسن نے ''بدمعاشیہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی۔
آئیے، ایک بار پھر سرکارؐ کے فرمان پر غور کریں اور توفیق ہو تو حرزِ جاں کریں: برائی سے جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط ہوں گے۔ وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے۔ اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔
جو خوش فہمیوں اور خوابوں کی جنت پالے، قربانیوں کے بغیر، حکمت اور ایک پیہم جدوجہد کے بغیر جو قوم نجات کی آرزومند ہو، اس کے بارے میں کیا عرض کیجئے؟