ہم ونڈر لینڈ میں رہتے ہیں۔ اگر بات سمجھانے کی بجائے اُلجھانی ہو تو پھر اُسے ''دارالعجائب‘‘ کہہ دینا زیادہ مناسب ہو گا۔ ویسے ہی جیسے اردو زبان کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے والے ادارہء اردو نے انگریزی الفاظ کے ترجمے کیے۔ یہ تراجم فارسی، ہندی اور عربی کے مشکل ترین محاوروں سے نکالے گئے۔ نفاذِ اردو کی تنخواہ لینے والے اکثر انگریزی دان تھے یا انگریز پرست۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آئین کہتا ہے اردو نافذ کرو۔ زمینی جواب یہ ہے اردو نافذ ہو گئی تو پھر بے چارے نعرے باز کیا بیچیں گے...؟ میڈیکل کی کتابوں کا ترجمہ کون کرے گا...؟ قانون کے ایوانوں، سائنس اور آئی ٹی کے مضمون کا حُلیہ کیا ہو گا...؟ بینکنگ کی بات چھوڑ دیتے ہیں۔
لیکن وطنِ عزیز میں عزیز ہم وطنوں کے پاس نہ اختیار ہے نہ پالیسی سازی میںکوئی عمل دخل‘ اور جس اندھے کے ہاتھ میں ''ڈانگ‘‘ دے کر اُسے کانچ کے برتنوں کی چوکیداری ملی ہے‘ وہ ہر بات پر کہتا ہے آئین پر عمل نہ ہو تو آسمان تو نہیں گِرتا۔ غریب غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے گئے‘ آسمان نہیں گِرا۔ قرضے کے بوجھ تلے دب کر پاکستان ''مقروضستان‘‘ بن گیا‘ آسمان نہیں گِرا۔ اسی کا تازہ فتویٰ ہے ''سرکاری وعدے کے مطابق اسی سال مارچ میں مردم شماری کا آغاز نہ ہونے سے آسمان نہیں گِرے گا‘‘۔ پی آئی اے تو حکمرانوں نے اجاڑ کر رکھ دی۔ اب دوسری پی آئی اے بن گئی تو کون سا آسمان گِرے گا۔
غاصب فرنگی کے زمانے برصغیر میں مردم شماری شروع کی گئی۔ پہلی مردم شماری برما سے بنگال تک، اور لاہور سے پیر پنجال تک بلکہ بمبئی سے طُورخم تک 1871ء میں مکمل ہوئی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کے لیے قیامت خیز مسائل تھے‘ لیکن پاکستان بنانے والی قیادت نے محض 4 سال کے مختصر ترین عرصے کے اندر اندر سال 1951ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں مردم شماری مکمل کر ڈالی۔ دوسری مردم شماری 1961ء میں مکمل ہوئی۔ اس طرح مردم شماری قومی روایت اور ضرورت بن کر سامنے آئی۔
1971ء کا سورج قوم کے لیے بدبختی لے کر طلوع ہوا۔ مردم شماری سے پہلے ہی ہندوستان کی بمباری نے مشرقی پاکستان کو ''طفیلی ریاست‘‘ بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا۔ اس کے باوجود 1972ء میں تازہ مردم شماری مکمل کر کے ہر دس سال بعد مردم شماری کی روایت برقرار رکھی گئی‘ جبکہ اگلی مردم شماری1981ء میں مکمل ہو گئی۔ 1991ء میں مسلم لیگ کی ن مردم شماری پر بھاری ہو گئی۔ 1973ء کے آئین کی رو سے مردم شماری ضروری تقاضا ہی نہیں‘ ساتھ ساتھ حکومت کی قانونی ذمہ داری بھی ہے‘ جس کے لیے یہ دو حوالے دیکھنا کافی ہو گا۔
No.1,(Population census 4th schedule part 2 item No 9 of the constitution ,1973.)
ترجمہ: آبادی کی مردم شماری کا چوتھا جدول حصہ 2 اور آئٹم نمبر9 ، 1973ء کے آئین میں درج ہے۔
No2,(General statistics (Reorganization Act 2011,section 31)
ترجمہ: عمومی اعداد و شمار تنظیم نو ایکٹ 2011ء دفعہ نمبر31۔
اس آئینی ضرورت کو لٹکانے کے بعد 1998ء میں حکمرانوں کو قوم کے مرد و زن پر ترس آ ہی گیا۔ ملکی تاریخ میں 1998ء مردم شماری کا آخری سال ثابت ہوا۔ تب سے اب تک اعلان اور وعدے ہوتے رہے۔ ساتھ ساتھ مردم شماری کا آئینی تقاضا نظر انداز ہوتا رہا۔ مردم شماری کا ذمہ دار ادارہ شماریات پاکستان ہے۔
میں بے شمار چیزوں کا گواہ ہوں کہ کس طرح قومی مقاصد کو ''سیاسی چُغہ‘‘ پہنا کر مخصوص گروہ اداروں اور حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ مردم شماری اس کی ایک مسلسل مثال ہے۔ اور 70 سال تک فاٹا کو قومی دھارے سے باہر رکھنا دوسری مثال۔ شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ قومی بجٹ میں مردم شماری کے لیے 14 ارب روپے کی بھاری رقم رکھی گئی‘ جس میں سے کافی رقم ریلیز ہو کر خرچ ہو بھی گئی۔ یہ کس کی جیب یا پیٹ کی راحت بنی معلوم نہیں‘ لیکن وزیر اعظم کے سمدھی صاحب نے مردم شماری ہو جانے کی امید پر جس طرح پانی پھیرا ہے‘ وہی سب سے مشکوک لگتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کبھی کہا‘ آسمان نہیں گِرے گا‘ مزید زور لگانے کے لیے پہاڑ نہیں گِرے گا بھی کہہ ڈالا۔ موصوف کی تاریخ بتاتی ہے جب انہوں نے نواز شریف صاحب کے لیے منی لانڈرنگ کرنے کا تحریری بیان عدالت کے سامنے لکھ کر پیش کیا‘ تب بھی آسمان نہیں گِرا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار صاحب نہ صرف رہا ہوئے بلکہ ان کے وزیر خزانہ بننے کا راستہ بھی کُھل گیا۔ ظاہر ہے ہتھکڑی کھل کر گِر پڑی۔
آج اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا آج 2016ء کے حالات 1971ء سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہیں...؟ تب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ عوامی حکومت میں بیوروکریسی جمہوریت کے تابع اور جمہوری رویہ اپنانے پر مجبور تھی۔ آج قومی خزانے کے مزے اڑانے والا آئین کا مذاق اڑا رہا ہے۔ سب خاموش ہیں، بلکہ تماشائی۔ آرٹیکل 6 بے چارہ پہلے یتیم تھا پھر مسکین ہوا اب لگتا ہے اس کی ماں بھی مر گئی۔
مردم شماری پہاڑ اور آسمان گراتی ہے یا نہیں یہ سوال تو سمدھی صاحب سے پوچھا جائے‘ لیکن احساسِ محرومی نظام گرا سکتی ہے، اور قوم کا مورال بھی۔ مردم شماری کی بنیاد پر اہم ترین آئینی حقوق کی تقسیم ہوتی ہے۔ کسی وفاقی یونٹ کی آبادی نیشنل فنانس کمیشن جاری کرنے کی اولین بنیاد ہے۔ مردم شماری کے بعد ہی صوبوں میں وسائل کی تقسیم کا منصفانہ فارمولا طے ہوتا ہے۔ مردم شماری سے پتا چل سکے گا کتنے لوگ گھروں میں سر کھپاتے ہیں اور کتنے بے گھر عوام جھونپڑوں میں سر چھپا کر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
مزید کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ بتانا زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان سر زمینِ بے آئین نہیں۔ نہ ہی یہ ملک ملوکیت کے فتوے پر چلتا ہے۔ بھوکے ننگے عوام ہوں یا بے آسرا مزدور۔ کسان یا جعلی بادشاہ اور دو نمبر شہزادے، آئین سب پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ میری خواہش یا دلیل نہیں آئین کے آرٹیکل نمبر4 کا منشا یہی ہے۔ یہ وہ والا منشا نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں‘ بلکہ اس کو آئین کی رِٹ کہا جا سکتا ہے کہ سارے لوگ پاکستان میں قانون کے تابع ہوں اور قانونی سلوک کے حقدار بھی۔ اس سے آگے بڑھ کر آئین کا آرٹیکل نمبر4 یہ بھی کہتا ہے کہ جو بھی شخص پاکستان میں موجود ہو وہ قانون کے ماتحت بھی رہے اور قانونی سلوک کا حقدار بھی۔
گِری پڑی جمہوریت، گِھسا پِٹا نظام، مجبور غریب عوام، سسکتی ہوئی معیشت اور برباد مزدور اور کسان منہ آسمان کی طرف اٹھا کر انتظار میں کھڑے ہیں کہ آسمان کب گِرے گا...؟
ایک میں ہوں اور مِرے احوال پر یلغار ہے
انقلاباتِ زمانہ کی، عجب رفتار ہے
اب رذیلوں کی جبینیں بھی شِکن آلود ہیں
ملتِ بیضا کا ہر غدار اب سردار ہے
بے سر و پا ہے خطیبِ شہر کا رنگِ کلام
چند بے عنوان باتوں پر اِسے اصرار ہے