سیاسی عدم استحکام، معاشی گراوٹ، سماجی انتشار اور جنگیں آج معمول بن چکی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کئی دہائیوں سے مختلف جنگوں کی زد میں رہا‘ لیکن اب اس خطے میں بھی خونریزی ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ شام کئی عالمی اور علاقائی قوتوں کی پراکسی جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ سامراج کی جارحیت، بنیاد پرستوں کی وحشت اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت نے اس ملک کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔ اکتوبر 2015ء میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق پونے چار لاکھ افراد ہلاک اور تقریباً 80 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں، بزرگوں اور خواتین کی ہے۔
شام کے مستقبل کے تعین کے لئے نام نہاد امن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی منقطع ہو چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ ہفتوں سے (بالخصوص روس کی براہ راست مداخلت کے بعد) بشارالاسد کی افواج اپنے اتحادیوں کے ہمراہ کئی اہم علاقوں میں خلیجی اور مغربی حمایت یافتہ بنیاد پرست پراکسی گروہوں کو کچلتے ہوئے پیش قدمی کر رہی ہیں۔ یوں طاقت کا توازن بدل رہا ہے اور کسی بھی فریق کے پاس مذاکرات میں سنجیدگی سے شامل ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں مہاجرین اور دہشت گردی کے مزید حملوں کے خوف کے زیر اثر امریکہ اور یورپی یونین اب تنازع کا جلد حل چاہتے ہیں‘ لیکن روس اور بشارالاسد کو اب کوئی جلدی نہیں‘ کیونکہ ان کا پلہ بھاری ہے اور کٹھ پتلی ''معتدل‘‘ جہادی گروہ تیزی سے پسپا ہو رہے ہیں۔ امریکی سامراج کے یہ روایتی ''اتحادی‘‘ اب چاہتے ہیں کہ امریکہ اپنی مداخلت بڑھائے اور ان کے حمایت یافتہ پراکسی گروہوں کو بچائے‘ لیکن امریکہ کے لئے یہ ''اتحادی‘‘ اب اس کے حریفوں سے زیادہ بڑا بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ امریکی سامراج اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اپنا کنٹرول کم و بیش کھو چکا ہے۔ بشارالاسد کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں اسے بری طرح ناکامی ہوئی ہے‘ اور عراق یا افغانستان جیسی انارکی سے بچنے کی واحد امید امریکہ کے لئے یہی ہے کہ بشارالاسد کا اقتدار اب قائم رہے۔ بصورت دیگر شام میں امریکی سامراج اور اس کے ''اتحادیوں‘‘ کے پیدا کردہ پراکسی گروہوں کو قابو کرنے والی کوئی قوت نہیں بچے گی۔
اسی تناظر میں ولادیمیر پیوٹن اور آیت اللہ خامنہ ای کی طرف مغربی میڈیا کا جارحانہ رویہ راتوں رات خاصا ''نرم‘‘ ہو گیا ہے۔ کچھ مہینے پہلے تک بشارالاسد حکومت کے انہدام کے آثار نمایاں ہو رہے تھے لیکن روس کی براہ راست مداخلت نے صورتحال کو یکسر بدل دیا ہے۔ ایسے میں ترکی اور سعودی عرب اپنی ''فیس سیونگ‘‘ کے لئے امریکہ کی مرضی کے خلاف شام میں زیادہ جارحیت سے مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ''اتحادیوں‘‘ کے تعلقات خاصے تنائو کا شکار ہیں۔
شمالی شام میں سرکاری افواج سے برسر پیکار پراکسی گروہ اب کمزور پڑ رہے ہیں اور بشارالاسد کی افواج سست روی سے ہی سہی لیکن پیش رفت کر رہی ہیں۔ تازہ اطلاعات سے معلوم پڑتا ہے کہ اردن اب ان گروہوں کی حمایت ختم کر رہا ہے جس کی وجہ ان پر عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ چھ لاکھ شامی پناہ گزینوں کا بوجھ بھی ہے‘ جو اردن میں داخلی عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ ایسی ڈیل کے امکانات بھی ہیں کہ اردن پراکسی گروہوں کی حمایت ختم کرے گا‘ جس کے بدلے میں بشارالاسد پناہ گزینوں کی واپسی کا راستہ ہموار کریں گے۔
بشارالاسد کی افواج نے داعش کے خلاف بھی کچھ پیش قدمی کی ہے، بالخصوص مشرقی حلب کے نواحی علاقوں میں۔ روس کی بمباری خاصی موثر رہی ہے جس کے ذریعے سرکاری افواج نے اپنی سپلائی لائن اور سٹریٹیجک مقامات پر کنٹرول کو مستحکم کیا ہے۔ سپاہیوں کا مورال بھی بلند ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر کئی محاذوں پر پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ ''باغی‘‘ گروہوں کے حملوں کا جواب بھی ماضی کی نسبت بہ آسانی دیا جا رہا ہے۔ ایک سال پہلے تک صورتحال بالکل مختلف تھی۔
عرب انقلاب کے تسلسل میں شام میں 2011ء میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک مختصر عرصے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر زائل ہو گئی تھی۔ اس وقت سامراجی طاقتوں کے حمایت یافتہ داعش، النصرہ اور اسلامک فرنٹ جیسے جنونی گروہوں کی بربریت کو دیکھ کر شامی عوام کے بڑے حصے کی حمایت ایک بار پھر بشارالاسد کی طرف مائل ہو گئی۔ عوام کی نظر میں تمام تر ریاستی جبر کے باوجود بشارالاسد کی حکومت ان درندہ صفت گروہوں کے وحشیانہ تسلط سے کہیں بہتر تھی۔ 2014ء کے انتخابات اگرچہ بالکل شفاف نہ تھے؛ تاہم عوام کی بڑے پیمانے پر ان میں شمولیت اور بشارالاسد کی بھاری اکثریت سے کامیابی میں رائے عامہ کا اظہار موجود تھا؛ تاہم اس وقت بھی سرکاری افواج کی پوزیشن بہت کمزور تھی۔
خانہ جنگی کے آغاز سے قبل ہی شام کی ریاست میں موجود وسیع کرپشن اور اقربا پروری افواج کے بالائی حصوں کو زنگ آلود کر چکی تھی۔ زیادہ تر فوجی افسران قابلیت کی بجائے سفارش یا اثر و رسوخ کی بنیاد پر تعینات ہوتے تھے۔ ان کی نااہلی خانہ جنگی میں نظر آئی جہاں کئی ممکنہ فتوحات، پسپائی میں بدل گئیں۔ آسمان پر شامی فضائیہ کی مکمل اجارہ داری، دیوہیکل ٹینک فلیٹ اور تکنیکی طور پر کئی گنا بہتر فوج کے باوجود ہلکے ہتھیاروں سے لیس باغی گروہوں کو نہیں کچلا جا سکا۔ کم تنخواہوں اور ہتک آمیز سلوک کی وجہ سے بھگوڑوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور سخت سزائوں سے معاملات بگڑ ہی رہے تھے۔ ایران اور حزب اللہ کے فوجی ماہرین کی شمولیت سے بھی یہ عسکری بحران حل نہیں ہو پا رہا تھا کیونکہ ان افراد کا تجربہ دفاعی جنگیں لڑنے تک محدود تھا اور شام کے حالات بالکل مختلف اورکہیں زیادہ پیچیدہ تھے؛ تاہم روس کی براہ راست فضائی مداخلت اور روسی ماہرین کی تعیناتی سے شامی افواج کی پوزیشن قدرے مستحکم ہوئی ہے۔ انٹیلی جنس کے جدید ذرائع میسر آئے ہیں۔ پاگل پن پر مبنی حملوں کی بجائے بڑے صبر سے اور سوچ سمجھ کر پیش قدمی کی جا رہی ہے جس سے جانی نقصان میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح آبادیوں پر بیرل بم (بارود سے بھرے ڈبے جو ہوائی جہاز سے پھینکے جاتے ہیں) گرانے کی بجائے روسی فضائیہ حکومت مخالف گروہوں کے سپلائی روٹس اور ٹھکانوں کو بڑی مہارت سے نشانہ بنا رہی ہے۔
شام میں امریکی پالیسی کی مکمل ناکامی بالکل عیاں ہے۔ جن گروہوں کو امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف لڑنے کے لئے پیسہ، اسلحہ اور ٹریننگ دی گئی تھی ان میں کوئی بھی لڑنا چاہتا ہے نہ لڑ سکتا ہے، ان جنگجوئوں کی اکثریت داعش کو ہی امریکی اسلحہ بیچ کر فرار ہو گئی یا ان کے ساتھ جا ملی۔ فی الوقت برسر پیکار زیادہ شدت پسند گروہوں کا کلیدی مقصد بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ امریکی سامراج کے سنجیدہ پالیسی ساز موجودہ حالات میں ایسا ہرگز نہیں چاہتے کیونکہ اسد حکومت کے خاتمے کا مطلب ریاست کا مکمل انہدام ہو گا جس کے نتیجے میں امریکیوں کے لئے ایک بار پھر افغانستان اور عراق والی صورتحال پیدا ہو جائے گی؛ تاہم امریکی سامراج کے ہی کچھ دھڑے (بالخصوص سی آئی اے کے کچھ حصے) اب بھی ان جنونی گروہوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ داخلی تضادات امریکی سامراج کے زوال کا ایک اور اظہار ہیں۔
سرمایہ داری کا بحران نہ صرف معاشی، سماجی بلکہ سفارتی اور عسکری طور پر بھی اپنا اظہار کر رہا ہے۔ بشارالاسد کی افواج اگر پورے شام پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر بھی لیتی ہیں تو مختلف گروہوں کی کارروائیاں اور خونریزی لمبے عرصے تک جاری رہے گی۔ علاقائی قوتیں اپنے سامراجی مقاصد کے لئے انہیں شام میں استعمال کرتی رہیں گی۔ جنوبی اور مرکزی شام میں ابھرنے والے نئے جنگی اور قبائلی سردار بھی ایسا ہی کردار ادا کریں گے۔ بشارالاسد کی حکومت کی داخلی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ ہو گا۔ ماضی میں لبنان کی طرح شام بھی کئی سال تک عدم استحکام کا شکار رہے گا۔
مشرق وسطیٰ اور نواحی خطوں میں انقلابی تحریکوں کی پسپائی نے اس خونریزی اور انتشار کی راہ ہموار کی ہے۔ عوام کے مسائل اور ذلتوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایک پوری نسل دربدر ہے اور فوری طور پر بڑے پیمانے کی کسی تحریک کے امکانات نہیں ہیں؛ تاہم شام کی نجات ایک نئے انقلابی ریلے میں ہی مضمر ہے جو ناگزیر طور پر 2011ء کی طرح پورے خطے کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے گا۔