تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     12-02-2016

بدعنوانی کے خلاف جنگ

پاکستان کو گزشتہ کئی عشروںسے ٹیکس چوری، کالے دھن اور بدعنوانی کے خاتمے کا گمبھیر چیلنج درپیش ہے۔ جن ایجنسیوں ، جیسا کہ ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب اور اینٹی کرپشن کے صوبائی محکمے، کو ان مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ، وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اُنھوںنے ملک کی داخلی سکیورٹی کے لیے خطرے اور معاشی ترقی کے راستے میں رکاوٹ کا باعث بننے والی ان بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کبھی مل کر کوشش کرنے کی زحمت نہیں کی ، اور نہ ہی یہ سیاسی حکومت کی ترجیح دکھائی دیتی ہے۔ 
ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے اور ٹیکس ادا نہ کرنے کی روایت کوئی نئی نہیں، پاکستان اور انڈیا 1947ء سے ان مسائل کے نرغے میں ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں ریاست کو جن بڑے بڑے داخل مسائل کا سامنا ہے ، اُس کی بنیاد یہی بدعنوانی اور کالا دھن ہے۔ 27جنوری 2016ء کو ممبئی ہائی کورٹ کے ناگپور بنچ کے جسٹس اے بی چوہدری نے کریمنل درخواست نمبر 642 /2015 میں انڈین گورنمنٹ کے خلاف سخت الفاظ میں رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ''ملک میں بلاروک ٹوک جاری بدعنوانی کے سیلاب کے سامنے آنکھیں بند کررکھی ہیں‘‘۔فاضل جج صاحب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔۔''یہ دیکھ کر انتہائی صدمہ ہوتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کی رقم کو سرکاری افسران کس بے دردی سے خوردبرد کررہے ہیں‘‘پاکستان کی صورت ِحال اس سے مختلف نہیں، لیکن نہ ہماری عدلیہ ایسا کردار ادا کر رہی ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں کوئی ''جسٹس چوہدری‘‘ دکھائی دیتاہے، اگرچہ گزشتہ دور میں ہم نے عدلیہ کی بے پناہ فعالیت دیکھی لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا گیا۔ ایک دلیرانہ فیصلے میں اے بی چوہدری نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا۔۔۔''گزشتہ چند ایک عشروںسے بدعنوانی روز مرہ کا معمول بن چکی ہے جبکہ ریاست میں فروغ پذیر منفی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ نقصان ٹیکس دہندگان کو ہورہا ہے۔ ‘‘فاضل جج صاحب نے نوٹ کیا کہ ایک پسماندہ ذات کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے 385کروڑ روپے خورد برد کے ذریعے سیاسی رہنمائوں کے منظور ِ نظر افراد کی جیبوں میں چلے گئے۔ 
پاکستان میں بھی ایسی ہی صورت ِحال ہے۔ بیس جنوری 2016ء کو فاضل عدالت نے ریاست بالمقابل انور سیف اﷲ کیس میں کریمنل اپیل نمبر 264 of 2006 پر آرڈر جاری کرتے ہوئے کہا۔۔۔''مندرجہ بالا افسوس ناک صورت ِحال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ کیس محض تقرریوں میں بے ضابطگیوں کا نہیں تھا بلکہ باقاعدہ طریق ِ کار کو جان بوجھ کر پامال کیا گیااور محض اپنے سیاسی مصاحبوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریاستی ادارے میں اتنی ورک فورس بھرتی کرلی گئی جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی اور جو اس کے بجٹ سے بھی زیادہ تھی۔ چنانچہ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے کس طرح یہ نتیجہ نکال لیا کہ اس عمل صرف بے ضابطگی ، نہ کہ جرم، کا ارتکاب دیکھنے میں آیا ہے‘‘۔
ہماری سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے اس کیس نے بہرحال اتنی سخت زبان استعمال نہیں کی جتنی انڈین جسٹس اے بی چوہدری نے کی تھی۔ جسٹس چوہدری نے اپنی رولنگ میں بدعنوانی کو ''ہائیڈرا‘‘(سومنہ رکھنے والا دیومالائی داستانوں کاعفریت)قرار دیا۔ انہوں نے غیر معمولی لہجہ اختیار کرتے ہوئے بھارتی شہریوں سے کہا۔۔۔''وہ اپنی حکومت کودوٹوک الفاظ میں بتائیں کہ بس، بہت ہوچکی، اور اگر ایسی بدعنوانی کا ہاتھ نہ روکا گیا تو وہ ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتے ہوئے عدم تعاون کی تحریک چلانے کا بھی سوچ سکتے ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں بھی فاضل ججوں نے نوٹ کیا کہ ''اس طرح بدعنوانی ، اقربا پروری اور سیاسی وفاداروں کو نوازنے کے لیے سرکاری ملازمتیں من پسند افراد میں بانٹنااپنے اختیارات کا صریحاً ناجائز استعمال ہے۔ہماری زیادہ تر سماجی برائیوں کی وجہ سے یہی بدعنوانی ہے۔ ‘‘
پاکستان کے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والے افراد کو دہرے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف اُن کی رقم سیاسی اور سرکاری افسران کے ہاتھوں خورد بردہورہی ہے تو دوسری طرف حکومت ٹیکس میں چھوٹ دے کر کالا دھن جمع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ ہماری عدلیہ ایسے سخت الفاظ استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتی جیسے بھاری الفاظ جسٹس چوہدری نے استعمال کیے۔۔۔''حکومت اور ارباب ِ اختیار کو پتہ ہونا چاہیے کہ ٹیکس دہندگان یہ دیکھ کر کس اذیت سے گزرتے ہیں کہ اُن کی رقم کس بے دردی سے لوٹی جارہی ہے۔اس صورت میں حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مکمل ناامیدی سے پہلے پہلے بدعنوانی روکنے کے لیے کچھ کرے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی‘‘۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے نیب کی پیش کردہ رپورٹ میں بعض طاقتور سیاسی اور سرکاری افسران کی مجرمانہ سرگرمیوں، جیسا کہ فراڈ، بدعنوانی اور خورد برد کی وجہ سے قومی وسائل کے ضیاع پر ایک لفظ تک ادا نہیں کیا گیا۔ میڈیا پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی کے الزامات عائد ضرور کرتی ہیں ، لیکن ان کا زیادہ تر مقصد سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوتا ہے اور اس مہم کے ذریعے حریف کو دبائو میں لاکر سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ 
اگرچہ اس بات کے کھلے ثبوت موجود ہیں کہ معاشرے کے طاقتور دھڑوں نے سرکاری وسائل کی لوٹ مارا ور بدعنوانی سے بھاری دولت جمع کررکھی ہے لیکن اُنہیں سزا دینے اور اُن کی جائیدادیں ضبط کرنے کی بجائے اُنہیں پہلے 2013ء اور پھر 2016ء میں موجودہ حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ دے دی تاکہ وہ اپنے کالے دھن کو سفید کرلیں۔ درحقیقت ہماری حکومتوں کی طرف سے ایسی سکیمیں سامنے آتی رہتی ہیں تاکہ یہ طبقہ تھوڑی سی رقم ادا کرکے اپنی لوٹ مار کی رقم کو پاک صاف کرلے۔ اس سلسلے کو روکنے کی کسی حکومت، چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی، کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ بدعنوانی اور اس سے اغماض برتنے کی پالیسی نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں،اور یہ وہ ریاست ہے جسے دہشت گردی کے خلاف اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ 
یہ بات متعدد بار کہی جاچکی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے آرڈیننس 111(4) کی موجودگی میں بدعنوانی اور ٹیکس چوری کاخاتمہ ناممکن ہے۔ یہ آرڈیننس اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اگر پاکستان میں معمول کے مطابق ، بینکوں کے ذریعے ، رقم پاکستان لائی جائے تو کوئی ادارہ اس کی بابت سوال نہیں کرے گا۔ اس کے ذریعے کالا دھن جمع کرنے والے اپنے رقم کو سفید کرلیتے ہیں۔ جب تک ٹیکس چوری کے ایسے دروازے بند نہیں ہوتے،نیب، ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن کے جتنے مرضی ادارے بنالیں، کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved