تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-02-2016

سٹی چیف پولیس افسر کی حدود

دھول اور مٹی سے اٹی پریشان حال بڑھیا نے سلطان محمود غزنوی کے دربار میں فریاد کی کہ اس کے جوان بیٹوں کو ڈاکوئوں نے قتل کر دیا ہے سلطان محمود غزنوی نے اس سے پوچھا کہ وہ کس جگہ کی رہنے والی ہے اور اس کے بیٹوں کے قتل کا یہ واقعہ کہاں اور کب پیش آیا ہے۔ بڑھیانے دھول سے اٹے سفید بالوں پر چادر درست کرتے ہوئے جب متعلقہ جگہ کا نام اور مقام بتایا تو سلطان نے کہا اے بزرگ عورت! یہ تو بہت ہی دور دراز اور مشکل جگہ ہے اس علاقے میں تو قاتلوں کی تلاش اور ان کی گرفتاری مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔بوڑھی عورت نے بھرے دربار میں دائیں بائیں بیٹھے وزرا امرا اور فوج کے سپہ سالاروں کی چمکتی دمکتی وردیوں کی طرف دیکھنے کے بعد سلطان سے کہا اگر تمہیں اور تمہاری سپاہ کو ان دوردراز علاقوں سے ڈاکوئوں اور قاتلوں کی سرکوبی میں دشواریوں کا سامنا ہے تو تم نے اپنی سلطنت کی حدود وہاں تک کیوں پھیلا رکھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی حدود میں امن و امان قائم نہیں رکھ سکتے، رعایا کی جان و مال کی حفا ظت کیلئے تم دشوار گزار اور دوردراز جگہوں پر نہیں جا سکتے تو بہتر یہی ہے کہ اپنی سلطنت کی حدیں وہیں تک رکھو جہاں تمہارے او ر تمہاری سپاہ کے قدم آسانی سے پہنچ جایا کریں۔۔۔۔بوڑھی عورت نے قالین پر رکھی پوٹلی سمیٹتے ہوئے سلطان محمود غزنوی سے کہا،ایک بات یاد رکھنا اگر زمینی مسافت کی دوری اور دشوار گزار راستوں کی مشکلات پرتم نے اپنی ذمہ داریوں سے اسی طرح غفلت برتنا شروع کر دی تو جلد وہ وقت بھی آ جائے گا جب تمہیں اپنے ہاتھ تاج شاہی اور اس کے اندر لگے ہیرے اور جواہرات کی حفاظت کیلئے اٹھانے مشکل ہو جائیں گے اگر تمہاری حکومت کی پولیس اور فوج وہاں تک پہنچنے سے گریزاںہے تو بہتر ہے کہ وہ علا قہ اپنی سلطنت کی حدود سے نکال دو تاکہ کوئی ایسا شخص وہاں کا حاکم بن جائے جس کی فوج اور پولیس کیلئے یہ علا قہ دشوار گزار اور دور دراز نہ ہو جہاں اس کے قانون اور حکومت کی مکمل عملداری ہو جہاں اسے ڈاکوئوں، لٹیروں اور قاتلوں کی سرکوبی کیلئے کسی قسم کی دشواری نہ ہو اور جو وہاں کی رعایا کو بڑی آسانی سے انصاف اور امن فراہم کر سکے۔
بڑھیا نے پوٹلی سر پر رکھتے ہوئے سلطان محمود غزنوی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔۔۔۔کیا تمہاری فوج اور گھوڑے مجھ جیسی بڑھیا سے بھی کمزور ہو چکے ہیں یا تمہیں یا تمہاری سپاہ میں سے کسی ایک کو بھی اپنی سلطنت سے وہ محبت نہیں رہی جو مجھے اپنے مقتول بیٹوں سے ہے۔ کس قدر افسوس ہے کہ اپنے بیٹوں کیلئے انصاف لینے کیلئے بوڑھی اور نادار عورت اس دشوار اور دور دراز علا قے سے پیدل سفر کرتے ہوئے غزنی میں سلطان کے دربار تک پہنچ جاتی ہے لیکن لاکھوں کی فوج، گھوڑوں ، خوراک اور اسلحہ سے لیس سلطان اپنی سلطنت کے اس حصے تک پہنچنے سے قاصر ہے جہاں ظلم اور نا انصافی کا دور دورہ ہے جہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں؟۔۔۔بڑھیا کی تیز آواز اور سلطان کی طرف اٹھے ہوئے ہاتھوں سے شاہی دربار میں سنا ٹا چھا گیا۔ سلطان محمود غزنوی اپنی جگہ جامد اور ساکت بیٹھا بڑھیا کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ دربار شاہی کے اہل کاروں کے ہاتھ اپنی تلواروں کے دستوں پر مضبوطی سے جم گئے کہ ابھی بڑھیا کی بے ادبی اور تاج شاہی کی گستاخی پر اس کی سر کوبی کا حکم ملا کہ ملا۔
سلطان محمود غزنوی ایک جھٹکے سے تخت شاہی سے اٹھا اوربیش قیمت دستے سے اپنی تلوار نکالتے ہوئے اور اپنی فوج کے سپہ سالار اعلیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے گرجدار آواز میں بولا اس بوڑھی عورت کے بیٹوں کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے فوجی دستے متعلقہ علا قے میں ابھی اور اسی وقت بھیج دیئے جائیں اور ان قاتلوں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ تاج غزنی کی حدود کے ہر اس علا قے میں جہاں فوج متعین نہیں ہے ایک مستقل فوجی چوکی قائم کر دی جائے !!
جوہر ٹائون کے مختلف گھروں میں کام کرنے والی '' ماسیاں‘‘ جن کے بارے میں اکثر رائے اچھی نہیں ہوتی لیکن کہتے ہیں کہ کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں تو یہ قصور کے دور دراز دیہات سے آئے ہوئے تین خاندان گزشتہ تین چار سالوں سے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے تھے یہ خواتین اپنی ایمانداری محنت اور لگن کی وجہ سے سوسائٹی میں قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں اور لوگ ان کا 
خیال بھی رکھتے تھے۔ یہ گھرانے ایکسپو سنٹر کے سامنے واقع کچی آبادی میں ایک ایک کمرے پر مشتمل کرائے کے گھروں میں رہ رہے تھے۔ حیرانی ہے کہ چھوٹے سے ایک کمرے میں آٹھ دس لوگ کیسے رہ لیتے ہیں۔ ان چار سالوں میں انہوں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر قسطوں پر ایک واشنگ مشین اور ٹی وی بھی لے لیا ۔ لیکن مکان کے مالک کی جانب سے آئے دن بڑھائے جانے والے کرایوں سے یہ لوگ پریشان ہو چکے تھے جس پر ایک دن تنگ آ کر انہوں نے رسول پور سے امیر چوک ستو کتلہ میں اس سے کم ایک ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ابھی انہیں وہاں شفٹ ہوئے تین دن ہی ہوئے تھے کہ چار اور پانچ فروری کی درمیانی رات دو بجے کے قریب چار ڈاکو جنہوں نے اپنے چہرے نقاب میں چھپائے ہوئے تھے ان کے کمروں میں گھس گئے ڈاکوئوں نے پستول ان کے بچوں کے سروں پر رکھ کر کمروں میں پڑا ہو ا سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔سامان کیا تھا واشنگ مشین، ایک ٹی وی، آٹے کی مٹیاں، گیس کے چولہے کمروں میں پڑے ہوئے لوہے کے ٹرنک جن میں اپنے اور بچوں کے نئے اور پرانے کپڑے شامل تھے، چونکہ مہینے کی چار تاریخ تھی اس لئے جن جن گھروں میں یہ کام کیا کرتی ہیں ان سے ملنے والی ما ہانہ تنخواہیں اور شوگر کے ایک مریض باپ کی اپنی بچیوں کی شادی کیلئے ایک ٹرنک میں دو سال سے جمع کئے ہوئے کوئی تیس ہزار کے قریب روپے ۔یہ تین گھرانے جن 
کے گھر کی ایک ایک شے لوٹ لی گئی ہے پولیس کے پاس جانے سے ابھی تک نہ جانے کیوں ڈر رہے ہیں لیکن یہ بھی تو ممکن نہیں کہ ساری رات فائروں اور چیخوں کی گونجنے کی داستان ان تک نہ پہنچی ہو؟۔ سنا ہے کہ انسپکٹرجاوید صدیق کی شہرت بہت ہی اچھی ہے ہو سکتا ہے کہ ان کی ایک گھنٹے کی کوشش سے مجرم اپنے انجام کو پہنچ جائیں؟۔ پولیس کی نظر سے دیکھیں تو ظاہر ہے کہ یہ سب سامان یہ چار ڈاکو اپنے کندھوں پر لاد کر تو نہیں لے گئے ہوں گے اس کیلئے ان کے پاس کوئی سواری ہو گی کوئی پک اپ یا گدھا گاڑی اور تانگہ ریڑھا وغیرہ ہو گا اگر ایسا نہیں تو یہ کسی قریبی علاقے سے ہوسکتے ہیں؟۔ ان مسلح ڈاکوئوں کی ذہنی سطح اور ماحول جاننے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ان بے چاروں کی آٹے والی مٹیاں بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پڑھتے ہوئے آپ سوچنا شروع کر دیں کہ ملک کو اس وقت امن و امان اور دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے اور یہ شخص چند ہزار روپے اور لوہے کے پرانے ٹرنکوں اور تیس چالیس کلو آٹے کی داستانیں لے کر بیٹھ گیا ہے۔۔دو سال لوگوں کے گھروں کے فرش اور باتھ روم اور جھوٹے برتن صاف کرنے کے عوض جمع کی ہوئی پونجی ایک دن آنکھوں کے سامنے لٹ جائے اور آٹھ بچوں سمیت چودہ انسانوں کے پاس ایک پھوٹی کوڑی اور پکانے کیلئے مٹھی بھر آٹا بھی نہ رہے۔۔۔مجھے خدا نے جس قدر توفیق دی ان کی مدد کر رہا ہوں لیکن نیک دل ڈاکٹر حیدر اشرف کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کا دروازہ بھی کھٹکھٹا رہا ہوں کیونکہ امیر چوک اور ستوکتلہ رائے ونڈ سے زیادہ دور نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved