جنرل پرویز مشرف کے دور میں راؤسکندر اقبال مرحوم پیپلزپارٹی سے پیٹریاٹ بن کر نکلے تو اس کے صلے میں انہیں وزارت ِدفاع سے نوازا گیا۔ اس زمانے میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن وزارتِ دفاع کا ایک ذیلی محکمہ تھی‘ اس لیے یہ بھی وزیرموصوف کی ماتحتی میں آگئی۔ جنرل پرویز مشرف چونکہ خود سپاہ سالار ی کے ساتھ ساتھ ملک کی صدارت بھی فرما رہے تھے اس لیے دفاعی معاملات میں راؤ صاحب کا حکم صرف پی آئی اے تک ہی چلتا تھا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنے سابقہ تعلق کی بنیاد پرپی آئی اے میں پیپلزپارٹی کی ذیلی تنظیم پیپلزیونٹی کی سرپرستی شروع فرما دی اور جب یونین الیکشن سے پابندی ہٹی تو وزیر صاحب کی مہربانی سے یونٹی نے باآسانی الیکشن جیت کر دندنانا شروع کردیا۔ نومنتخب عہدیداروں کا انتظامیہ سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ایک ایسے فنانس منیجرکا تبادلہ کردیا جائے جو ان کی مرضی کے مطابق ان کے بِل منظور نہیں کرتا۔ تبادلے کا یہ معاملہ اس وقت کے چیف فنانشل افسر کے پاس پہنچا تو اس نے یونین کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ اس پر پیپلزپارٹی کے جیالوں کا روایتی جذبہ بھڑک اٹھا اور انہوں نے چیف فنانشل افسر ، جوایئر لائن کے حسابات کا سینئر ترین افسر ہوتا ہے، کو گریبان سے پکڑا اور مارتے ہوئے اس کے دفتر سے باہر نکال دیا۔ انتظامیہ نے وزیردفاع سے اس حرکت کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی تو انہوں نے اپنے خصوصی اختیارات سے کام لیتے ہوئے چیف فنانشل افسر کو ہی ذمہ دار قرار دے کر اسے کھڈے لائن لگا دیا۔
مشرف کا عہداقتدار تمام ہوا توآصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت آگئی اور احمد مختار وزیردفاع ہوئے۔ احمد مختار کا بھی دفاع سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا آج کے وزیردفاع خواجہ آصف کا ہے، لیکن پی آئی اے بہرحال انہی کی جولان گاہ رہی۔ وزارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے قومی ایئرلائن کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ان کے ایک دوست کی دوست ایئرہوسٹس کو ٹورنٹو (کینیڈا) آفس میں بطور مارکیٹنگ مینیجر بھیج دیا جائے۔ انتظامیہ نے مذکورہ خاتون کی تعلیمی قابلیت اور ناتجربہ کاری کا حوالہ دیا تو وزیرصاحب برہم ہوگئے اور فرمایا ''اسے ہر حال میں ٹورنٹو جانا ہے‘‘۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور یہ خاتون ٹورنٹو پہنچ گئیں۔ وہاں جاکر انہوں نے پی آئی اے کا کام کرنے کی بجائے ایک ہوٹل کھولا اور دن رات اس کی تعمیر و ترقی میں جت گئیں۔ جب پی آئی اے نے ان کی غیر حاضریوں اوربری کارکردگی کی بنیاد پر انہیں نوکری سے نکالنا چاہا تو وزارت کی بجائے عدالت ان کی مدد کو آگئی جہاں سے ان کو سٹے آرڈر مل گیا اور وہ قومی ایئرر لائن کی تنخواہ پر اپنا ہوٹل چلاتی رہیں۔
یہ تو ماضی کے واقعات ہیں اور جیالوں سے متعلق ہیں‘ اب ذرا مسلم لیگ ن کا احوال بھی سن لیں۔ سینیٹر مشاہداللہ خان کے برادران کی ترقیوں اور تعیناتیوں کے بارے میں تو آپ کو معلوم ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی جان لیجیے کہ ہماری پیاری حکومت اتنی مردم شناس ہے کہ اس نے پی آئی اے کی سربراہی کے لیے ملک میں ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالا جس کا ایک قریبی عزیز جہاز بنانے والی کمپنی ایئر بس میں کام کرتا ہے۔ جہازوں کی خریدو فروخت کتنا حساس معاملہ ہے‘ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ امریکی صدر اور یورپ کے حکمران اپنے اپنے ملکوں میں بنے جہاز بیچنے کے لیے خود میدان میں اتر آتے ہیں اورجہازخریدنے والے ملکوں کوکئی دیگر مفادات بھی پیش کرتے ہیں۔قومی ائیر لائن کے لیے جہازوں کے انتخاب اور خریداری میں ملکی مفادات کی بجائے ایک شخص کے فائدے کو کیوں مدنظر رکھا گیا‘ اس کا جواب ابھی تک گڈ گورننس نہیں دے پائی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی آئی اے مکمل بربادی کی طرف گامزن ہے لیکن اس کی بربادی میں اس کے ملازمین سے زیادہ سیاستدانوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس ادارے کو قومی مفادات کی بجائے اپنے مفادات کے تابع رکھ کر چلانے کی کوشش کی۔ ان بداعمالیوں کا نتیجہ ہی تو ہے کہ پی آئی اے کے پاس موجود اثاثوں کی مالیت ایک سوستاسی ارب ہے اور اس پر قرضے تین سو اکتالیس ارب روپے کے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں اس ادارے کی نجکاری ممکن نہیں ہو سکتی، اس لیے حکومت کو ان قرضوں کا بڑا حصہ اپنے کھاتے میں ڈالنا ہو گا۔ مصیبت یہ ہے کہ قرضے ختم ہونے کے باوجود بھی پی آئی اے فوری طور پر منافعے میں نہیں آ پائے گی بلکہ اسے منافعے میں رکھنے کے لیے حکومت کو اس کی مسلسل مدد کرنا ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی پالیسی کے تحت ملتان، بہاولپور، ژوب، گوادر، اورماڑا، گلگت، سکردو، ڈیرہ اسماعیل خان، رحیم یار خان، نوابشاہ اور لاڑکانہ جیسے شہروں تک یہ ادارہ اپنی لاگت سے کم پر ٹکٹ بیچ کر جہاز اڑارہا ہے۔ یہ بات چھوٹے شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ لاہور اسلام آباد رُوٹ پر اڑنے والے جہاز بھی نقصان میں ہی چلتے ہیں لیکن حکمرانوں کا رُوٹ ہونے کی وجہ سے اسے بھی کوئی بند کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ اگر قرضے اپنے ذمے لے کراور غیر منافع بخش روٹس پر پروازوں پر سبسڈی دے کر ہی اس ادارے کو نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں ہوگا کہ حکومت پی آئی اے ملازمین کے ساتھ بیٹھ کر اس کی بہتری کا کوئی راستہ تلاش کرلے؟
قومی ایئر لائن میں بہتری کا ایک منصوبہ اس ادارے کے ملازمین نے 2010ء میںحکومتِ وقت کو پیش کیا تھا۔ اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ حکومت اس ادارے پر قرضوں کے سود کی ادائیگی کچھ عرصے کے لیے اپنے ذمے لے ، اس ادارے کی گراؤنڈ سروسز، کچن اور انجینئرنگ کے شعبوں کو اس سے الگ کردے ،ادارے کی انتظامیہ اس کے اندر سے لے کر آئے اور سیاستدانوں کی مداخلت ختم کردے۔حکومت کی طرف سے بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے میں فی جہاز ملازمین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ بے سروپا دلیل ہے۔ اس دلیل کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ائیرلائنز کی تنخواہ عام طور پر اس کی آمدنی کا بائیس فیصد ہوتی ہے جبکہ قومی ایئر لائن میں ملازمین کی تنخواہیں اس کی آمدنی کا سترہ فیصد ہیں۔اگرجہاز وں کی تعداد بڑھا دی جائے تو یہ تناسب کم ہوکر عالمی معیار کے مطابق آجائے گا۔ ملازمین کم کرنا کسی کی ضد نہیں ہے اور اس کی واقعی ضرورت ہے تو بھی ملازمین کو نکالنے کی بجائے ان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جاسکتا ہے ۔
ان تجاویز پر اس وقت عمل کر لیا جاتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے لیکن اب بھی کچھ نہیں بگڑا، اگر حکومت اس ادارے کی ملازمین کی بات سن کر انہیں اصلاحِ احوال کا موقع دے تو یہ اس کی شکست نہیں بلکہ بڑا پن ہو گا۔ بلا شبہ حکومتوں کو کاروبار ی ادارے چلانے سے گریز کرنا چاہیے اور بے شک نجکاری معاشی ترقی کے لیے درست سمت میں ایک قدم ہے لیکن کوئی بھی حکومت ہر ادارہ نجی شعبے کے حوالے نہیں کرسکتی۔ کچھ ایسے شعبے بھی ہوتے ہیں جن میں نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر حکومتوں کا موجودرہنا ہی عوام کے اطمینان کا باعث ہوتا ہے، تجارتی ہوابازی ایسا ہی ایک شعبہ ہے۔