تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     13-02-2016

کھائو‘ پیو‘ مزے اڑائو!

ایک ایسے زمانے میں جب روایتی فوڈ سٹور اپنی الماریوں میں ایک فیصد دودھ‘ کولیسٹرول سے پاک ''گلوٹن فری‘‘ اور ''نان جی ایم او‘‘ کا اضافہ کر رہے ہیں اور آرگینک (اصل) کے نعرے کے ساتھ نئے سٹور کھل رہے ہیں‘ وفاقی حکومت نے شہریوں کے نام ''کیا کھائو‘ کیا نہ کھائو‘‘ کی ایک نئی فہرست جاری کر دی ہے‘ جس میں ان کو تلقین کی گئی ہے کہ غذائی کولیسٹرول میں کمی بیشی کی پروا نہ کریں‘ ایک دن میں کافی کے پانچ پیالے ڈکار جائیں‘ اور ناشتہ کرنے میں فروگزاشت پر فکرمند نہ ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ وفاق‘ اس معاملے میں انٹرنیٹ سے کاروباری مقابلے میں ہے‘ کیونکہ کمپیوٹر بتاتا ہے کہ اگر آپ کو اپنا بلڈ پریشر ''نارمل‘‘ رکھنا ہے تو اناج اور شکر کو اپنی خوراک سے خارج کر دیں۔ حکومت نے ''نارمل‘‘ کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ وہ سن ساٹھ کے عشرے سے اپنے لوگوں کو غذا کے معاملے میں بھی مشورے دینے کی پابند ہے۔ اس کے ماہرین سارا سال بیٹھے رہتے ہیں اور قانون ساز ادارے کے حکم پر ہر پانچ سال بعد ایک رپورٹ دیتے ہیں جسے حکومت اپنے منتخب کرنے والوں کی خدمت میں پیش کر دیتی ہے۔ یہ رپورٹ ہر انسان کو متاثر کرتی ہے‘ پاکستانیوں کو بھی جن میں سے آدھے متوازن غذا سے محروم ہیں یا اس کے لئے تردد نہیں کرتے۔
نئے راہنما اصولوں میں کولیسٹرول سے بھرپور غذائوں کو انسان کی عمر کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے‘ ان کا استعمال محدود کرنے کو سفارشات سے نکال دیا گیا ہے اور کافی کے تین تا پانچ پیالے فی دن‘ صحت بخش غذائوں میں داخل کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان میں ایک دن میں پانچ کپ چائے پی جاتی ہے اور بیشتر دفتروں میں ایک چپڑاسی چائے بنانے پر مامور ہوتا ہے‘ جو دودھ اور چینی سے پْر اس گرم مشروب سے مہمانوں کی تواضع کرتا ہے۔ دونوں میں کیفین پائی جاتی ہے۔ کل تک ایک دو کپ سے زیادہ پینا مضر صحت سمجھ جاتا تھا‘ اب نہیں۔ اگر امریکی غذائی اصولوں پر چلا جائے تو پاکستان میں دودھ اور چینی کی کھپت کم ہو سکے گی‘ اور بنیادی خوردنی چیزوں کے دام نیچے آ سکتے ہیں۔ وٹامن ڈی سے بھرپور ہول ملک اب کم لوگ استعمال کرتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ انڈا کھانے سے پرہیز کرتے تھے اور انڈے کی سفیدی کھانا مفید خیال کرتے تھے۔ اب نہیں۔ محکمہ خوراک کی سفارشات میں یہ پرہیز توڑ دی گئی ہے۔ انڈے کو کولیسٹرول کی وجہ سے رد کیا جاتا تھا۔ انسان تین سو ملی گرام کولیسٹرول لے سکتا ہے‘ جبکہ انڈے میں تقریباً دو سو ملی گرام کولیسٹرول ہو سکتا ہے۔ اکثر گروسری سٹور انڈے کی سفیدی فروخت کرتے ہیں۔ اب تک حد سے زیادہ نمک کا استعمال ممنوع تھا‘ اب ہر عمر کے لوگ دو ہزار تین سو ملی گرام تک نمک کھا سکتے ہیں۔ نمک دانی سے کھانے پر نمک یا سوڈیم چھڑکنا اب بھی منع ہے۔ آپ چائے کے ایک چمچے کے برابر نمک لے سکتے ہیں۔ پہلے یہ مقدار پچاس سال سے زیادہ عمر یا بیمار لوگوں کے لئے پندرہ سو ملی گرام تھی۔
یہ سفارشات بالواسطہ چینی کا استعمال کم کرتی ہیں۔ روزانہ حراروں (پروٹین) کے دس فیصد کے برابر ڈبہ بند اور دوسری غذائوں میں شکر بڑھائی جا سکتی ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔ نئے راہنما اصولوں میں شہریوں کو تلقین کی گئی ہے کہ دودھ دہی کی صنعت میں وہ لو فیٹ (بالائی نکالے ہوئے) اور سکمڈ ملک (لسی) کے استعمال پر کاربند رہیں۔ ہر چند یہ مصنوعات‘ رواجی دودھ سے کچھ گراں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ بھی دودھ دہی کا استعمال کم رکھنے کی ایک ترکیب ہے۔ اسی طرح شراب کا استعمال کم کیا گیا ہے۔ صحت کے نئے اصولوں کی رو شنی میں امریکہ میں عورتیں الکوحل کا صرف ایک اور مرد دو گلاس لے سکتے ہیں۔ گوشت کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔ کل تک بیف اور بکرے کا گوشت (ریڈ میٹ) بڑی عمر کے لو گوں کے لئے زہر قاتل سمجھے جاتے تھے۔ اب صرف اتنی تلقین کی گئی ہے کہ گوشت کو ملا جلا کر کھائیے مگر جب سٹور سے لینے جائیں تو چربی اور سیچوریٹڈ فیٹ سے احتراز کریں۔ یہ بھی چربی کی ایک قسم ہے جو جانور کی اصل سے حاصل ہوتی ہے اور سارے گوشت پر حاوی رہتی ہے۔ سیچوریٹڈ اور ٹرانس فیٹ جو چربی کی ان اقسام سے مالا مال ہیں دودھ‘ مکھن اور اس گوشت میں پائی جاتی ہیں جن پر لین (کم چربیلا) ہونے کا قانونی لیبل نہیں ہوتا‘ یا استوائی تیلوں مثلاً ناریل یا پام آئیل میں۔
پھل اور سبزیوں کے بارے وہی حکم ہے جو پہلے تھا مگر ان کے بارے میں یہ یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ سبزی ہر رنگ کی ہونی چاہیے اور یہ کہ پھل ڈبہ بند نہ ہو۔ مٹر سمیت پھلیوں کے بارے میں بھی یہی ہدایت ہے۔ کھانے میں جو اناج استعمال کیا جائے اس میں کم سے کم آدھا ہول ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر آپ گندم یا چاول کھانے کے عادی ہیں تو ان میں پچاس فیصد ثابت ہونا چاہیے۔ پروٹین میں مچھلی اور جھینگے وغیرہ کم چربیلی مرغی اور انڈے‘ نٹ اور بیج کھائے جائیں۔ کھانا پکانے میں جمے ہوئے تیلوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ پودوں پر مبنی تیلوں یعنی کینولا‘ کارن (مکئی)‘ اولیو (زیتون)‘ مونگ پھلی‘ سورج مکھی اور سویابین کے تیل بروئے کار لائے جائیں۔
ان ہدایات کو قانون کا درجہ حاصل نہیں مگر لاکھوں بچوں کے لئے سکول لنچ کی تشکیل اور حفظان صحت کی مہمات میں وہ بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور ان کا مقصد دل کے عوارض‘ ذیابیطس اور سرطان سے اموات کی شرح کم کرنا ہے۔ اگر کوئی قانون ساز چاہے تو ان میں سے کسی سفارش کو قانون سازی کی بنیاد بھی بنا سکتا ہے۔ ایک سرکاری ترجمان نے شہریوں کو تلقین کی کہ زیادہ پھل‘ سبزیاں اور ثابت اناج کھائیے‘ کم چربی‘ نمک‘ مٹھائیاں اور سوڈا واٹر استعمال کیجیے۔ قانون ساز عام طور پر لابیوں کے زیر اثر رہتے ہیں اور گوشت اور دودھ کی لابیاں مضبوط ہیں‘ اس لئے سیچوریٹڈ فیٹ کے بارے میں حکومت کی رائے سیاست کی نذر ہو جاتی ہے۔ پھر امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن اور اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائی ٹیشن میں کچھ سائنسی اختلاف بھی ہے۔ ایسوسی ایشن کا خیال ہے کہ گوشت اور دودھ کا زیادہ استعمال ''بیڈ کولیسٹرول‘‘ کا سبب بنتا ہے جس سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دوسری جانب اکیڈمی کہتی ہے کہ حکومت سیچوریٹڈ فیٹ کے امکانی خطرات پر زور دینا بند کرے اور اس اندیشے پر زیادہ زور دے کہ لوگ گوشت اور دودھ کی مصنوعات چھوڑ کر کاربوہائیڈریٹ (اناج اور آلو وغیرہ) کا استعمال زیادہ کر دیں گے‘ جو برابر کا خطرناک ہو گا۔ حکومت جی ایم او یعنی جینیاتی طریقے سے تبدیل شدہ خوردنی اشیا کے معاملے میں خاموش ہے‘ شاید اس لئے کہ بنیادی مقصد چیزوں کی شیلف لائف بڑھانا ہے۔ اب سیب ریفریجریٹر کے باہر بھی دو ہفتوں تک رہ سکتا جبکہ ناشپاتی دو دن میں گلنے سڑنے لگتی ہے۔ یہ سائنس کا کمال ہے جسے بیشتر سائنسدان تسلیم کرتے ہیں۔ سرکاری رپورٹ‘ دودھ‘ پھلوں اور سبزیوں کے پیکٹ پر مینوفیکچرر کی جانب سے آرگینک کا رضاکارانہ لیبل لگنے پر بھی چپ ہے‘ جو بیرونی امداد یا کیمیکل کے استعمال کے بغیر پیداوار لینے کی طرف اشارہ ہے۔ ایک مبصر نے رپورٹ میں موٹاپے کا ذکر نہ آنے پر نکتہ چینی کی ہے جبکہ اس موذی مرض کا تعلق براہ راست کھانے پینے کی اشیا سے ہے۔ کھانے والے‘ سبزی خور‘ ماحولیات کے ماہر اور جانوروں کے حقوق کے پاسدار اس پنج سالہ رپورٹ پر تبصرے کریں گے تو اختلافات اور زیادہ اجاگر ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved