تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-02-2016

کُچھ لوہارا ترکھانا

کسی صاحب نے ایک گمنام شاعر بیخود بدایونی (1857-1912ء) کا یہ شعر میسج کیا ہے ؎
دے کے مٹی مجھے غیروں سے کہا خوش ہوکر
خاک میں ملتے ہیں یوں خاک اڑانے والے
شعر ہم بھی کہتے ہیں لیکن جو مثالیں اساتذہ قائم کر گئے ہیں‘ اُن پر رشک ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی زمین میں شہزاد احمد کا یہ لاجواب مطلع بھی دیکھیے ؎
اب نہ وہ شور‘ نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اُڑانے والے
اگرچہ زمین کے علاوہ شعر کا مضمون بھی کم و بیش وہی ہے بلکہ مصرعۂ ثانی تو کچھ زیادہ ہی ملتا جُلتا ہے لیکن اس کے باوجود اسے سرقہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ شہزاد نے اس میں ایک مزید مضمون کا تڑکا لگا کر اسے سراسر اپنی ملکیت میں داخل کر لیا ہے اور شور مچانے اور خاک اُڑانے میں جو ہم معنویت موجود ہے‘ اس سے شعر کو مزید زور دار بنا دیا ہے۔ زمین اس قدر بولتی ہوئی اور جاندار ہے کہ اگر شہزاد احمد نے اس میں غزل نہ کہہ رکھی ہوتی تو میں نے اس پر طبع آزمائی ضرور کرنا تھی۔
شعر کو پُر تاثیر بنانے میں زمین کا ایک اپنا کردار ہے اور اس طرح کی زمینوں میں تو شعر گویا اپنے آپ ہی اُترتے چلے آتے ہیں۔پھر اس کا قافیہ بیحد آسان ہے‘ اور قافیے کی فضیلت یہ ہے کہ 
مضمون اپنے ساتھ قافیہ ہی لاتا ہے‘ بلکہ اکثر اوقات مضامین ایک سے زیادہ بھی ہوتے ہیں جن میں سے شاعر کو صرف انتخاب کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کون سا مضمون باندھنا ہے‘ گویا شعر کہنے سے پہلے خیال نہیں بلکہ یہ کام قافیے کے ذمے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ یہ صورتِ حال خاصی عجیب سی لگتی ہے کیونکہ غزل کے علاوہ اور کسی صنفِ سخن میں ایسا نہیں ہوتا۔
بیشک یہ طریق کار غزل کو ایک میکانیکل سی چیز بنا دیتا ہے جو کسی حد تک مضحکہ خیز بھی کہی جا سکتی ہے لیکن اس ضمن میں کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا کہ یہ اس کی‘ مجبوری کی حد تک‘ ضرورت بھی ہے۔ تاہم‘ اگر آپ قافیے کی مدد لیے بغیر غزل کہہ سکتے ہوں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے‘ لیکن اگر خیال آپ کے پاس موجود بھی ہو تو قافیے کی ضرورت تو آپ کو پھر بھی پڑے گی کہ اس کے بغیر تو شعر بنے گا ہی نہیں۔ پھر‘ قافیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً کئی بجتے اورکھنکھناتے ہوئے قافیے ہیں جن میں ایک اعلان بھی ہوتا ہے مثلاً جو اشعار اوپر درج کیے گئے ہیں وہ اسی ذیل میں آتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے قافیوں کو میں لنگڑے قافیے کہا کرتا ہوں مثلاً دیکھنا‘ کرنا‘ جاتا اور اٹھنا وغیرہ آپ ایک غزل میں باندھ تو سکتے ہیں لیکن وہ اسے بے مزہ کر کے رکھ دیں گے اور غزل کا سارا مقصد ہی فوت ہو جائے گا کیونکہ ایسی غزلوں میں سے کام کا شعر کم کم ہی نکلتا ہے‘ اور نتیجہ محض وقت کے ضیاع ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ چنانچہ شعر کا لازمی حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ قافیے کو شعر کے زیور کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔
غزل میں قافیے کی تکرار بالعموم معیوب خیال کی جاتی ہے اور ایک طرح سے شاعر کے عجز کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ کوئی ڈینگ نہیں مار رہا‘ لیکن میں نے قافیہ کبھی 'ری پیٹ‘ نہیں کیا۔ بلکہ قافیہ اگر مشکل یا تنگ ہو تو میں قافیہ بنا بھی لیا کرتا ہوں کہ جہاں زبان کے ساتھ اتنی پنگے بازی کی ہے تو ایک یہ بھی سہی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ مطلع کے لیے ضروری ہے کہ دونوں قافیے ہم صَوت تو ہوں‘ ہم صورت نہ ہوں ورنہ وہ مطلع نہیں ہو گا۔ مثلاً مطلع میں صلہ اور فاصلہ کے قافیے لائیں گے تو وہ محلِ نظر ہو گا۔ یا مثلاً شاید مومن کا مطلع جو 
کچھ اس طرح سے ہے ؎
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جُھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
میرے نزدیک زیادہ مناسب نہیں ہے کیونکہ دونوں قافیوں میں ''مان‘‘ مشترک ہے۔ ہاں‘ اگر معانی مختلف ہوں تو آپ ایک ہی لفظ بطور قافیہ دونوں مصرعوں میں لا سکتے ہیں۔ مثلاً میری ایک اس طرح کی شرارت کچھ یوں تھی ؎
لگی اچھی بھی ہمیں کارگزاری اپنی
تنگ پُلیا سے جہاں کارگزاری اپنی
خیر‘قافیہ تو قافیہ رہا‘ ردیف سے بھی شعر سج جاتا ہے‘ حتیٰ کہ بعض اوقات شعر میں اس کا کردار قافیے سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے اور یہ غزل کی ایک خصوصیت بن کر رہ جاتی ہے۔ اگرچہ غزل ردیف کے بغیر بھی کہی جا سکتی ہے‘ اس لیے وہ غیر مردّف کہلائے گی لیکن اکثر اوقات ایسی غزل بے مزہ اور پھیکی ہی ہوتی ہے۔ میری ساری شاعری میں شاید ایک آدھ ہی غیر مردّف غزل دستیاب ہو گی کہ مجھے اس سے چڑ بھی ہے۔
بعض دوست ایسا کرتے ہیں کہ فارسی آمیز مصرع یا شعر میں ٹھیٹھ ہندی کے الفاظ بھی لے آتے ہیں جو کہ مستحسن نہیں ہے کیونکہ یہ اچھا نہ لگنے کے ساتھ ساتھ شعر کے لسانی توازن کو بھی متاثر کرتا ہے‘ بلکہ میں تو یہ احتیاط بھی روا رکھتا ہوں کہ مصرعے میں الفاظ کی تکرار کم سے کم ہو‘ یعنی شعر میں اگر کوئی کلیدی لفظ مثلاً خواب ‘چراغ یا دریا وغیرہ آیا ہے تو غزل میں وہ دوبارہ نہ آنے پائے۔ پھر‘کوشش یہ بھی کرنی چاہیے کہ مصرعہ زیادہ سے زیادہ پروز آرڈر یعنی نثری ترتیب میں ہو جس کے بغیر نہ تو اس میں روانی رہتی ہے نہ خوبصورتی۔ اور‘ تھوڑی سی کوشش کرنے سے ہی مصرعہ اگر مکمل نہیں تو خاصی حد تک پروز آرڈر میں لایا جا سکتا ہے۔
اوپر جو باتیں عرض کی گئی ہیں‘ نہ تو انکشافات کا درجہ رکھتی ہیں اور نہ ہی انہیں ہدایت نامے کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ ہر شاعر یہ باتیں خوب اچھی طرح سے جانتا بھی ہے۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ ضروری نہیں کہ ہر بات کا کوئی مقصد بھی ہو۔ میرے تو اکثر شعر بھی ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں بے مقصد اوربے معنی بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ صورتِ حال آپ سے کچھ چُھپی ہوئی بھی نہیں ہے!
چھپتے چھپتے: اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ شعر دلپذیر اور پسندیدہ بھی ہو کیونکہ باقی اور زندہ وہی شعر رہ جاتا ہے جسے نہ صرف دوسروں کو سُنایا جا سکے بلکہ گفتگو اور تحریر میں حوالے کے طور پر یا برمحل ہونے کی صورت میں برتا بھی جا سکے اور اہلِ ذوق میں گردش کرتا رہے اور اس میں ضرب المثل بن جانے کی گنجائش اور امکان بھی موجود ہو۔
آج کا مقطع
اِک آغاز ِ سفر ہے اے ظفر یہ پختہ کاری بھی
ابھی تو میں نے اپنی پختگی کو خام کرنا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved