بڑے کی ہر بات بڑی ہوتی ہے۔ یہ بات ہم نے بس روانی میں نہیں لکھ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ کسی کو عظمت دیتا ہے تو اُس کی چھوٹی باتیں بھی بڑی ہوجاتی ہیں اور غلطی بھی مزا دیتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ تو کسی اُستاد گویّے کو سُن کر دیکھیے۔ اگر وہ کہیں زور نہ لگا پائیں اور گانے میں کسر رہ جائے تو وہ کسر بھی بُری نہیں لگتی۔ اور وہی غلطی، خامی یا کوتاہی کسی عام سے گلوکار میں دکھائی دے تو سوہانِ روح محسوس ہوتی ہے!
ہم کمالات کے دور میں جی رہے ہیں۔ صدیوں پہلے اِس دنیا میں جس جادو کا بہت غلغلہ تھا وہ اب قدم قدم پر ہے، ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ تقریباً ہر شعبے کے بے مثل کمالات ہماری زندگی میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ ہر شعبے میں علم و فن کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ باصلاحیت افراد شبانہ روز محنت کے ذریعے دیکھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتے رہتے ہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینے کا زمانہ چلا گیا۔ اب تو لوگ ایک ہی ٹکٹ میں پوری دنیا سے لذت کشید کرنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ سیل فون ہی کو لیجیے۔ ایک ہی فون میں اتنی خصوصیات ہیں کہ گنتے چلے جائیے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے کمالات اُن کی جیب میں پڑے ہوئے سیل فون میں ہوں۔ اور ماہرین بھی جدت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی نیا سیٹ پندرہ بیس دن میں گزرے ہوئے زمانے کا (obsolete) دکھائی دینے لگتا ہے!
دنیا کس طرف جارہی ہے اور ہم کدھر کا رخ کیے ہوئے ہیں، کچھ واضح نہیں ہوتا۔ سیانے کہتے ہیں کہ دنیا چاہے کسی بھی طرف جارہی ہو، ہم کہیں نہیں جارہے یعنی جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے ہیں۔ سب ہمارے آس پاس سے گزر رہے ہیں اور ہم اِسی کو سفر سمجھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ دوسروں کی متعارف کرائی ہوئی اشیاء و خدمات سے مستفید ہو لینے ہی کو ہم زندگی کا مقصد گردانتے ہوئے اطمینان کی چادر تان کر محوِ خواب رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ سوچ کر فخر سا محسوس ہوتا ہے کہ جدت طرازی کا یہ بازار ہمارے ہی دم تو گرم ہے۔ اگر ہم (صارفین) نہ ہوں تو کوئی کچھ کیوں بنائے اور مارکیٹ میں پھینکے! اِسے کہتے ہیں اپنے بے مصرف ہونے سے بھی افادیت کا پہلو نکالنا!
ہم ذکر کر رہے ہیں بڑوں کی ہر بات بڑی ہونے کا۔ نیت صاف اور ہاتھ ہنر مند ہوں تو انسان ناکارہ چیز کو بھی انتہائی کارآمد بنالیتا ہے۔ چین سے خبر آئی ہے کہ ایک کسان نے بُھوسے کی مدد سے مجسمے بناکر اپنے کھیت کو پارک میں تبدیل کرلیا۔ لوگ آتے ہیں اور بُھوسے کی مدد سے بنائے ہوئے اُس کے شاہکار دیکھ کر داد دیئے بغیر نہیں رہتے۔ چینی کسان نے اپنے چاولوں کے کھیت میں بُھوسے کی مدد سے ریچھ، گھوڑا، ٹینک اور دوسرے بہت سی چیزیں بنائی ہیں۔ بچوں کو یہ سب بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ دن بھر اِس کھیت میں کھیلتے رہتے ہیں۔ اگلی فصل کی بُوائی کا وقت آنے تک یہ ''تھیم پارک‘‘ برقرار رہے گا۔
دیکھا آپ نے؟ جب کبھی کوئی قوم عمل کی طرف مائل ہوتی ہے تو بُھوسے کی مدد سے بھی شاہکار تیار کرنے لگتی ہے۔ جو بُھوسا مویشیوں کی خوراک بن کر فضلے میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کی مدد سے مجسمے بناکر چینی کسان نے ثابت کردیا کہ انسان چاہے تو مٹی کے ڈھیر کو بھی سونے میں تبدیل کرلے۔
ہم نے اپنے انفرادی ''کمالات‘‘ پر کبھی غور نہیں کیا مگر اہلِ جہاں سے سُنا ہے کہ پاکستانی بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں یدِ طُولٰی رکھتے ہیں یعنی ہمارا مقام بھی کوئی گیا گزرا ہے۔ جب ہم کچھ بنانے پر آتے ہیں تو ایک زمانے کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ہمیں بھی اب تک کسی بلند مقام پر تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ فضول باتیں سوچ کر دل چھوٹا نہ کریں۔ ہم اب بھی خاصے بلند مقام پر ہیں۔ جی ہاں، بیشتر معاملات میں ہم بحران کی سُولی ہی پر تو لٹکے ہوئے ہیں! اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سُولی زمین پر نہیں ہوتی۔
ٹیکنالوجیز کے حوالے سے ہمارے ذہن بھی چلتے ہیں اور خوب چلتے ہیں مگر معاملہ برعکس یعنی دوسری طرف سے ہے۔ اہلِ جہاں ہمیں ''ریورس ٹیکنالوجی‘‘ کے ماہرین میں شمار کرتے ہیں! ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے ہر معاملے میں ریورس گیئر لگایا ہوا ہے۔ ہر اچھے معاملے نے ہمارے ہاتھوں بگڑنے کی قسم کھا رکھی ہے! ''ریورس ٹیکنالوجی‘‘ کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی نئی چیز مارکیٹ میں آتی ہے تو ہم اُس کی بہترین نقل تیار کرلیتے ہیں اور کبھی کبھی تو نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تیار کی جانے والی بہت سی اشیاء کا توڑ ہمارے ہاں یُوں تیار کیا جاتا ہے کہ پھر لوگ اصل کو ایک طرف ہٹاکر دو، تین یا چار نمبر کی اشیاء پر گزارا کرنے لگتے ہیں! قیمت کا فرق انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
چین اب خیر سے ترقی یافتہ ہے مگر اُس نے بھی بے مثال اور قابلِ رشک ترقی کے حصول کے لیے وہی راستہ اختیار کیا تھا جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے یعنی نقل سے اصل کی طرف گیا ہے۔ چین کے باکمال افراد نے آج ایک دُنیا کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بہت سوں کی بالا دستی معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ بھرپور ترقی، خوش حالی اور استحکام سے ہمکنار ہوچکنے کے بعد بھی چین نے اپنے گزرے ہوئے زمانے کو بُھلایا نہیں۔ آج بھی مارکیٹ میں کسی بھی بڑی (یعنی معیاری اور مہنگی) چیز کا چینی نعم البدل موجود ہے! دو نمبر یا تین نمبر اشیاء تیار کرنے میں چین اب بھی بہت نمایاں ہے۔
ہم بھی یہی کر رہے ہیں۔ چین میں اگر کوئی کسان بُھوسے کی مدد سے چند چیزیں یا ماڈلز تیار کرکے اپنے فن کا لوہا منواسکتا ہے تو ہم میں بھی ایسے کاری گر پائے جاتے ہیں جو مِٹّی کو ایسا کردیں کہ سونا دکھائی دے اور سونے کی رنگت وہ کردیں کہ لوگ مِٹّی سمجھ کر پھینک دیں! اب یہی دیکھیے کہ اچھے خاصے منافع کماتے سرکاری ادارے کو خسارے کے دریا میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کرنے کا فن ہمارے ہاں جادو کا سا درجہ پاچکا ہے یعنی سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اور اِس سے بڑا فن یہ ہے کہ رات دن صرف خسارہ کمانے والے ادارے بھی قائم و دائم ہیں اور اُن کی نفری بھی بڑھتی جارہی ہے!
چینی کسان نے اگر بُھوسے سے ''تھیم پارک‘‘ بنایا ہے تو کیا جائے حیرت ہے کہ ہمارے ہاں بھی یاروں نے پرچون کی دکان پر بے توقیری سے دوچار بُھوسی (اسپغول) کو ہزار بارہ سو روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہونے والی جنس میں تبدیل کردیا ہے! اور اِس کمال کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ کروڑوں کی سرکاری زمین چند ٹکوں میں ٹھکانے لگادی جاتی ہے اور چند ٹکوں کی زمین کو کسی سرکاری ادارے کے لیے خرید کر اس کی قیمت کروڑوں میں ظاہر کی جاتی ہے!
ہمارے ''کمالات‘‘ کی فہرست بھی مختصر نہیں مگر کوئی ہمیں وہ مقام نہیں دیتا جو دیا جانا چاہیے۔ چین چونکہ بڑا، ترقی یافتہ ملک ہے اس لیے ''بڑے کی ہر بات بڑی‘‘ کے مصداق اُس کا کوئی کسان بُھوسے سے کچھ بنائے تو شاہکار قرار پائے اور ہم کسی چیز میں سونا اور چاندی بھی جڑ دیں تو کوئی متوجہ نہ ہو!
چینی کسان کی کاری گری سے بات چلی اور دو یا تین نمبر اشیاء سے ہوتی ہوئی یہاں تک آپہنچی۔ دنیا کی نقالی کرتے کرتے چینی بھی ترقی کرگئے تو ہمیں ترقی کے حوالے سے پُرامید رہنا چاہیے کہ ''نقل بمطابق اصل‘‘ کے شعبے میں تو ہم بھی کسی سے کم نہیں، بلکہ بہت سے سوں سے اچھے خاصے آگے ہی ہیں! اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اِتنے ''بڑے‘‘ کب ہوتے ہیں کہ ''بڑے کی ہر بات بڑی‘‘ والی مثل یا روایت ہم پر بھی صادق آئے! چین چھوٹے کام کرتے کرتے بڑا ہوا ہے تو اُس کی سنگت، بلکہ دوستی کو ہم پر بی بھرپور اثر انداز ہوتے ہوئے ایسے نتائج مرتب کرنے چاہئیں کہ ہماری چھوٹی باتیں بھی بڑی دکھائی دیں اور ہم بھی ریورس ٹیکنالوجی کے دور سے نکل کر فارورڈ گیئر کے عہد میں داخل ہوں!