تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     14-02-2016

چھوڑ کر جانے والے

اپنے بزرگ دوست (مولانا) اسحاق بھٹی صاحب پر قلم اٹھانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ''عزیزم‘‘ ڈاکٹر احسن اختر ناز کے انتقال کی خبر نے (مزید) اُداس کر دیا۔ بھٹی صاحب اِس دُنیا سے رخصت ہوئے تو مَیں کراچی میں تھا۔ جنازے کو کندھا دینے کی سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ انہوں نے ماشااللہ 92 سال اس دُنیائے رنگ و بو میںگزارے اور اس کی خوشبوئوں میں بہت سا اضافہ کر کے رخصت ہوئے۔ ان سے آخری ملاقات ''پیغام‘‘ ٹی وی کے ایک پروگرام کے موقع پر ہوئی تھی، جو تحریک پاکستان کے حوالے سے تھا۔ ثقلِ سماعت کا شکار تھے، لیکن میزبان ڈاکٹر حماد لکھوی کچھ نہ کچھ ان کے کانوںمیں انڈیل دیتے تھے۔ مذاکرہ ختم ہوا تو عزیزم عبدالباسط نے اپنے رفقا کے ساتھ ہم تینوں کو کھڑا کر کے جامد تصویر بھی بنا ڈالی۔ بھٹی صاحب کا حافظہ ابھی تک بلا کا تھا۔ برسوں پرانے واقعات کی ایک ایک تفصیل ذہن میں محفوظ تھی، زبان کھولتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ماضی ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے اور وہ اس کی عکاسی کرتے جا رہے ہیں۔
پنجاب کے قلب میں واقع ریاست فرید کوٹ میں پیدا ہوئے اور وہیں لڑکپن گزارا، جیدّ علماء کی صحبت ان کو میسر رہی اور اس سے انہوں نے خوب فیض اٹھایا۔ چند برس سکول میں بھی گزارے، لیکن فیض اپنے ان استادوں سے براہِ راست حاصل کیا، جن میں سے ہر ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کا نام نامی ان میں نمایاں تر تھا۔1933ء سے 1940ء تک سات سال ان کے ساتھ رہے، قرآن مجید کے علاوہ بلوغ المرام سے صحیح بخاری تک صحاح سِتہّ کی نصابی کتابوں کی تکمیل ان سے کی۔ صرف و نحو، عربی ادبیات، منطق، اصولِ فقہ اور تفاسیر قرآن میں سے بیضاوی، تفسیر جلالین اور جامع البیان بھی ان سے پڑھیں۔ گویا مکمل مولوی بن گئے، آج کل کی زبان میں علامہ کہہ لیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ 1940ء میں مولانا عطاء اللہ حنیف نے انہیں علامہ حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمت میں گوجرانوالہ بھیج دیا، جن سے حدیث و تفسیر کی بعض کتب دوبارہ پڑھیں، اسے سونے پر سہاگہ کہا جا سکتا ہے۔ فیروزپور میں مولانا ثناء اللہ ہوشیار پوری مرحوم سے بھی بعض درسی کتابیں پڑھنے پہنچے اور پھر یہ کہ عمر بھر پڑھتے (اور لکھتے) چلے گئے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ کی لائبریری میں چودہ ہزار کتب موجود تھیں، انہیں وہ گھول کر پی گئے:
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
عملی زندگی میں قدم یوں رکھا کہ ایک عزیز نے انہیں ہیڈ سلیمانکی کے اکائونٹس آفس میں سٹور کیپر مقرر کر دیا کہ کام کے ساتھ ساتھ آرام بھی کرتے جائو، یعنی مطالعے میں وقت صرف کرو۔ بعد میں لاہور پہنچے تو صحافت کی وادی میں قدم رکھا، لیکن ''لہو و لعب‘‘ میں نہیں پڑے، دینی ہفت روزے اور ماہنامے ہی ان کی دسترس میں رہے۔ ابتداً سیاست میں قدم رکھا تھا، لیکن انگریزی محاورے کے مطابق یہ ان کی چائے کا پیالہ نہیں تھا۔ اب لوگوں کو کم ہی معلوم ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کا ایک حصہ برطانیہ کی براہِ راست حکمرانی میں تھا، تو دوسرا بڑا حصہ داخلی طور پر خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ان ریاستوں پر نواب اور راجے حکومت کرتے تھے۔ دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کے علاوہ دیگر امور میں یہ حضرات و خواتین خود مختار تھے اور کسی کے سامنے خود کو جواب دہ نہیں سمجھتے تھے۔ برطانوی ہند کا وائسرائے ان کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا تھا اور عوام نام کی شے تو اس کا تصور ہی نہیں کر سکتی تھی۔ برطانوی ہند میں آزادی اور حقوق کی لہر اُٹھی، تو ان ریاستوں میں بھی اس کا چرچا ہوا۔ پنجاب میں آٹھ ریاستیں تھیں، پٹیالہ، نابھہ، کپور تھلہ، فرید کوٹ، جنید، ملیر کوٹلہ، کلیلہ اور نادر گڑھ۔ ان میں پرجا منڈل (پیپلز پارٹی) قائم ہو گئی۔ فرید کوٹ منڈل کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے، جنرل سیکرٹری نوجوان اسحق بھٹی کو بنا دیا گیا۔ بھٹی اس دوران قید ہوئے اور شہرت حاصل کر لی، لیکن سیاست میں زیادہ دیر چلے نہیں، یہ اور بات کہ ان کے اپنے بقول چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں، اس لیے سیاست سے دلچسپی بہرحال برقرار رہی۔ اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر داد دینے یا اکھاڑے میں اترنے والوں کو دائو پیچ سکھانے میں انہیں تامل نہیں تھا۔ بھٹی صاحب کا شاید یہی چسکہ انہیں کوچہ ٔ صحافت میں لایا، لیکن ان کے اندر موجود جستجو اور تحقیق کے مادے نے انہیں اس کی نذر نہ ہونے دیا۔ دقیق موضوعات کے ساتھ ساتھ مختلف شخصیات پر بھی قلم اٹھایا اور ان کے روز و شب کی گویا فلم بنا ڈالی۔ اپنی سوانح حیات لکھی اور ایک پوری صدی کے رہن سہن، رسوم و رواج اور حکایات و معاملات کو محفوظ کر دیا۔
بھٹی صاحب سادہ مزاج تھے، تکبر اور نخوت تو انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔ اپنے عقائد میں کٹر تھے، لیکن زاہد خشک نہیں تھے۔ کسی سے نفرت کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ان کے حلقہ ٔ احباب میں غیر مسلم بھی شامل رہے، گیانی ذیل سنگھ کی دوستی پر تو ان کو ناز تھا۔ گیانی صاحب صدر بنے تو انہوں نے اپنے لڑکپن کے دوست کو بھلایا نہیں... وہ ہماری تاریخ اور سیاست کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ اپنی بات نرمی سے کہتے اور دِل میں نقب لگا لیتے۔ ان سے ایک بار ملنے والا دوسری بار ملنے کی خواہش لئے، ان سے جدا ہوتا۔ ان جیسا دوسرا، ان کی زندگی میں نہیں مل پایا، تو اب کہاں تلاش کیا جائے گا؟ اور کیونکر ملے گا؟
اب آئیے احسن اختر ناز کی طرف، وہ پچپن چھپن سال کے ہوں گے، مجھ سے کئی سال چھوٹے، اس لیے انہیں عزیزم بھی کہا جا سکتا ہے۔ لاہور شہر ہی میں پروان چڑھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھے تو اس کے مجلے ''ہم قدم‘‘ کے مدیر تھے۔ فارغ التحصیل ہوئے، کچھ عرصہ اخبار میں کام کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی کے افسر تعلقات عامہ بنا ڈالے گئے۔ یہیں سے اگلی سیڑھی چڑھے اور شعبۂ ابلاغیات میں استاد مقرر ہوئے۔ مزاج دھیما اور مستقل تھا۔ تحقیق کی وادی میں نکلے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر لوٹے۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ شعبہ ابلاغیات کو انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز بنوانے میں کامیاب ہوئے تو ان کے دست راست تھے۔ جناب شیخ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈائریکٹر بن گئے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے رہے۔ کتابیں لکھیں، مقالے تحریر کئے، سیمینارز میں گئے بھی اور ان کا انعقاد بھی کرایا، لیکن طبیعت کا صحافیانہ پن موجود رہا۔ ذیابیطس نے انہیں تاک لیا، لیکن وہ پرہیز کے آدمی نہیں تھے۔ بیماری بڑھتی گئی، یونیورسٹی کے شعبہ ٔ ابلاغیات کا نام تو بدلا، لیکن کام یوں نہیں بدلا کہ اس کے اساتذہ میں جوڑ توڑ جاری رہتا ہے۔ کم ہیں کہ جو اس سے دامن بچا پائے ہیں۔ احسن اختر ناز کے صحافیانہ اطوار نے ان کو بھی بھگو ڈالا۔ ذہنی دبائو نے بیماری کی شدت میں اضافہ کیا اور گنگرین ایک ٹانگ کو لے بیٹھی۔ اس کے بعد بھی امراض کے اسباب موجود رہے تو معاملات بے قابو ہو گئے۔ دِل اور گردے متاثر ہوئے، یہاں تک کہ ہسپتال ہی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے جنازے میں تو یوں لگا کہ جیسے پورا شہر امڈ آیا ہے۔ ان کے شاگرد سینکڑوں کیا ہزاروں میں ہوں گے، ان کے دوستوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ سب ان کو یاد کرتے اور ان کی مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھائے رہے۔آنکھیں بھیگ رہی تھیں اور ان کا چہرہ نظروں کے سامنے تھا:ہائے او موت، تجھے موت ہی آئی ہوتی۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved