ایک بار پھر 14 فروری آگئی۔ اب کے ماحول خاصا سرد ہے۔ ایسے میں مغرب کے دلدادہ ماحول کو کسی حد تک گرم جوشی سے ہمکنار کرنے پر بضد ہیں۔ سینٹ ویلنٹائن کے ''مرید‘‘ آج کے دن کو محبت کی یادگار اور محبت کے جذبے کو تازہ دم کرنے کے سنہرے موقع کی حیثیت سے مناتے ہیں۔ یہ دنیا محبت کے دم سے قائم ہے‘ اور محبت کو دنیا تک کیا محدود رکھیں، سچ تو یہ ہے کہ ہم جس کا حصہ ہیں وہ پوری کی پوری کائنات محبت کے بل پر آباد ہے۔ علامہ نے خوب کیا ہے: ع
جذب باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
محبت کیا ہے؟ ہم آہنگی اور تال میل۔ ہم آہنگی پائی نہ جاتی ہو اور تال میل دکھائی نہ دیتا ہو تو کائنات کا کوئی بھی نظارہ بارونق نہ ہو، رنگین و طرح دار نہ ہو۔ ہم آہنگی نہ ہو تو کوئی گا نہ سکے، لکھ نہ سکے، تِھرک نہ سکے، اپنے تصور کو رنگوں کی مدد سے تصویر کی شکل نہ دے سکے۔ مختصر یہ کہ زندگی پنپ نہ سکے۔ ہم آہنگی نہ ہو تو سنگیت دم توڑ دے۔ سُر کیا ہیں؟ یکساں اثرات کی حامل کیفیت بیان کرنے والی آوازیں۔ شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں مرحوم کہا کہتے تھے کہ سُروں کے بھی جوڑے ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ اگر گویّے کو معلوم ہو کہ کِس سُر کا محبوب سُر کون سا ہے تو وہ سُننے والے کی جان لے لے! یہ محبوب سُر ہی تو ہوتے ہیں جو حیوانات پر بھی اپنا سِحر طاری کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں!
اور محض سنگیت پر کیا منحصر ہے، اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ ہم آہنگی کے بغیر نہیں جی پاتا یا ڈھنگ سے نہیں جی پاتا۔ انسان ہو یا حیوانات، نباتات ہوں یا جمادات... سبھی کی سرشت میں ہم آہنگی یوں رچائی گئی ہے کہ اِس کے بغیر ہر جاندار کی، ہر شے کی کائنات ادھوری رہتی ہے۔
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ باہمی ربط کو کس قدر محدود تصورات کی زنجیروں سے جکڑ دیا گیا ہے۔ لوگ ہر چیز کو ایک خاص موقع پر اپنانے اور گلے لگانے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ مغربی تہذیب نے ہر جذبے اور تعلق کا ایک خاص وقت مقرر کیا اور پھر ہم نے بھی مغربی معاشروں کی تقلید کرتے ہوئے معاملات کو چند مواقع تک محدود کردیا۔ محبت بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔
ایک زمانے سے پُرانی دنیا اور اُس کی اقدار کو خیرباد کہنے میں مغربی معاشرے ایسے مست و بے خود ہیں کہ اب اُنہیں خیال تک نہیں آتا کہ جن سُتونوں کے سہارے معاشرے کھڑے رہا کرتے ہیں جدت پسندی نے اُن سُتونوں ہی کو گرادیا ہے۔ ماں کی محبت یا ماں سے محبت کیا کسی تہوار کی محتاج ہوا کرتی ہے؟ باپ کی شفقت بھی کیا کسی خاص دن کے حوالے کی جاسکتی ہے؟ ہر معاملے میں نئی اقدار کو فروغ دینے کے جُنون نے مغربی معاشروں میں ماں اور باپ سے محبت کو بھی ایک خاص دن تک محدود کردیا ہے۔ مدر ڈے اور فادر ڈے منانے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ ماں باپ جیسی ہستیاں کیا سال میں صرف دو دن کے لیے توجہ کی مستحق قرار دی جانی چاہئیں؟ ماں اور باپ تو ہمارے وجود کا حصہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ ہمارے وجود میں قیام کرتے ہوں اُنہیں سال میں ایک دن پھول اور کیک پیش کرنا اپنے ہی جذبات کو تماشا بنانے کے سِِوا بھلا کیا ہے!
جو معاملہ ماں باپ کا ہے وہی محبت کا بھی تو ہے۔ محبت کیا کوئی ایسا جذبہ ہے جسے سال میں ایک آدھ مرتبہ شدت سے محسوس کیا جائے اور اس کے بعد اپنی زندگی کے تن پر ایک بار پھر اپنی اپنی مصروفیات کو کمبل کی طرح تان لیا جائے؟َ آپ سوچیں گے یہ تو نِری حماقت ہے، اور کچھ نہیں۔ آپ کی سوچ بالکل درست ہے۔ اس بات کو آپ اپنے حافظے کا ''اٹوٹ انگ‘‘ بنا لیجیے کہ ہم دن منانے کے عہد میں جی رہے ہیں۔ اب ہر معاملے کا ایک دن مختص کر دیا گیا ہے۔ مدر ڈے اور فادر ڈے کی طرح اب ویمینز ڈے بھی ہے۔ اِس دنیا کے ہر مرد کی زندگی میں خاتون، بلکہ خواتین ہوتی ہی ہیں مگر پھر بھی ایک دن مختص کیا گیا ہے جو حیرت انگیز ہے۔ ایک دن خواتین کو یاد رکھیے، اُن کے حقوق کی بات کیجیے، تحفہ یا تحائف دیجیے اور اِس دنیا کو رنگین تر اور مزید بارونق بنانے میں اُن کے کردار کا اعتراف کیجیے۔ ٹھیک ہے، تو کیا باقی 364 دن ہم خواتین کو نظر انداز کردیں؟
جب ماں باپ یا اپنی زندگی میں موجود اور فعال خواتین کے حوالے سے ہمارے جذبات کسی ایک دن کے دائرے میں مقید نہیں رکھے جا سکتے تو پھر محبت کو ایک خاص دن کے پنجرے میں قید کرنے کی پُشت پر کون سی منطق کام کر رہی ہے؟ کیا محبت ایسا جذبہ ہے جس کا اظہار ایک خاص دن کیا جائے اور اُس کے بعد اپنے احساسات اور جذبات کو غفلت اور لاتعلقی کے غلاف میں لپیٹ کر بالائے طاق رکھ دیا جائے؟ محبت کا ایک دن؟ ہو سکتا ہے کہ بہت سوں کے نزدیک یہ بھی بہت زیادہ ہو کیونکہ سارا معاملہ دیکھنے اور برتنے کا ہے۔ حبابؔ ترمذی کہتے ہیں ؎
محبت کا بس اِک لمحہ ہے کافی
ہزاروں سال جینے کی ہوس کیا؟
محبت کے بغیر جینا پڑے تو ہزاروں سال کی زندگی بھی کچھ نہیں۔ اور اگر محبت سے مُزیّن ہو تو ایک لمحہ بھی پوری صدی کو مات دے ڈالے! یہاں معاملہ ہزاروں سال جینے کی ہوس ہی کا ہے۔ لوگ ادھورے من کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر اپنے ادھورے پن سے اچھی خاصی جامعیت کشید کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہی سوچیے کہ ببول کی ٹہنی پر گلاب کی کلی کیسے اُگ اور کِھل سکتی ہے؟ آگ کے بطن سے پانی کیسے ہویدا ہوسکتا ہے؟
سلیم احمد مرحوم نے کہا تھا کہ عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔ محبت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ محبت کب ادھورے آدمی کو برداشت یا ہضم کرتی ہے؟ یہ کوئی ملازمت کا معاملہ تھوڑی ہے کہ اِتنے بجے سے اِتنے بجے تک محبت کا اظہار کیا اور اُس کے بعد دوبارہ نفرت کے کاروبار میں غرق ہو لیے! محبت کوئی ایک دِن کا سَودا نہیں، چند لمحوں کا جُنوں نہیں کہ طاری ہو اور آپ کو لُڑھکا کر اپنی راہ لے۔ جس محبت پر زندگی کی اساس ہوا کرتی تھی اُسے بھی یاروں نے تماشے میں تبدیل کردیا ہے، خالص کاروباری آئٹم بنا ڈالا ہے۔ محبت بارہ مہینوں کا معاملہ ہے مگر اِس کے لیے ایک دن مختص کرکے پندرہ بیس دن تک تیاری کا غلغلہ برپا کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اب سینٹ ویلنٹائن ڈے کا منایا جانا جذبات کے اظہار سے زیادہ بزنس ایونٹ ہے یعنی ہزاروں ارب روپے گردش کرتے ہیں!
جنہیں محبت کے نام پر کاروبار کرنا ہے وہ شوق سے منافع بٹوریں، ہمیں تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ محبت کسی ایک دن کا معاملہ نہیں، سال بھر کی حقیقی مصروفیت ہے۔ اچھا ہے کہ آپ اِس مصروفیت کو اپنالیں تاکہ نفرت، لاتعلقی، روکھے پن اور بے حِسی جیسی وقت ضائع کرنے والی کوئی بلا آپ تک نہ آ سکے! انسان کو محبت میں اِس قدر غرق ہو رہنا چاہیے کہ یہ بات کہنے میں کوئی تامّل محسوس نہ ہو کہ ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا!
زندگی کو احسن طریقے سے بسر کرنے کے لیے محبت کرنا ہی کافی ہے۔ جس نے محبت کرنا سیکھ لیا ہو اُسے کسی اور ہنر یا مہارت کی ضرورت محسوس ہی کیوں ہو!