تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     15-02-2016

عورتیں بنیں قاضی

راجستھان کی دو مسلم عورتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ قاضیہ بن گئی ہیں ۔جہاں آرا اور افروز بیگم نام کی ان دو خواتین نے ممبئی کے دارالعلوم نسواں میں دوبرس تربیت لی ۔ان کے جیسی سولہ مسلم خواتین اب قاضیہ ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں ۔ان عورتوں کا کہنا ہے کہ وہ قاضیوں کا کام اچھے ڈھنگ سے کر سکتی ہیں یعنی وہ نکاح ‘طلاق ‘حق مہر وغیرہ تو کرو اہی سکتی ہیں ‘ان کے علاوہ وہ کئی دیگر معاملات میں بھی صحیح یا غلط ہونے کے فیصلے کر سکتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ خواتین اگر قاضی کا کام کریں تو مسلم خواتین کی بڑی مدد ہوگی ۔عورتیں قاضیہ سے کھل کر بات کریں گی جبکہ قاضی (مرد) سے کئی باتیں کہنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ قاضیہ مسلم عورتوں کو انصاف دلانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔
ان سب دلائل کو بعض علمائے کرام اور مفتی صاحبان نے رد کر دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں کہیں بھی عورت کے قاضی ہونے کا ذکر تک نہیں ۔کسی حدیث میں اشارے سے بھی نہیں کہا گیا ہے کہ عدل وانصاف کا کام عورتوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔کچھ عورتیں اپنی مرضی سے قاضیہ کیسے بن سکتی ہیں ؟کسی کو قاضیہ بننا ہوتو یا تو سرکار اسے بنائے گی یا پرسنل لا بورڈ بنائے گا۔ اگر ایسا ہی ہے تو وہ انہیں کیوں نہیں بنا دیتے ؟انہیں کیا اعتراض ہے ؟دنیاکی بڑی سے بڑی عدالتوں میں عورتیں جج بن کر بیٹھتی رہی ہیں اور وکیل کاکردار ادا کرتی رہی ہیں ۔کیا ہماری سپریم کورٹ کی جسٹس فاطمہ کو آپ بھول گئے ؟کوئی ہمیں یہ سمجھائے کہ اگر ایک مسلم عورت جج بن جائے تو اس سے اسلام یا مسلمانوں کا کیا نقصان ہو جائے گا ۔ قاضیِ شہر ہونا تو معمولی بات ہے۔اگر اس سے مسلم قانون کی حکم عدولی ہوتی ہے تو پھر کسی مسلمان عورت کا وزیراعظم یا صدر ہونا تو بالکل کافرانہ حرکت اعلان کی جانی چاہیے۔بے نظیر بھٹو ‘حسینہ واجد اور خالدہ بیگم کو پاکستان اور بنگلہ دیش نے کیوں برداشت کیا ؟رضیہ سلطانہ بھارت کی سلطان کیسے بن گئی؟ حضرت محمد ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ نے انصاف کے کتنے بڑے بڑے فیصلے کیے اور کتنی لڑائیاں بہادری سے لڑیں ؟یہ ٹھیک ہے کہ اب سے پندرہ سوسال پہلے عرب ممالک میں جہالت تھی لیکن پیغمبر صاحب کی بعثت نے وہاں انقلاب برپا کر دیا۔ نبی کریمؐ نے عربوں کو عورت اور مرد کے برابر حقوق کا درس دیا۔ کیا ان تعلیمات کو آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں ۔؟بھارت کے مسلمانوں کو یہ ثابت کر نا چاہیے کہ وہ دنیا کے سب سے عمدہ اور اعلیٰ مسلمان ہیں ؛جہاں تک قوانین کا سوال ہے ‘وہ ملک اور زمانے کے مطابق بنتے اور بدلتے ہیں ۔ان کا اصلی مذہب یا روحانیت سے بہت کم تعلق ہوتا ہے ۔اب اسلام صرف عربوں تک اور چودہ سو سال پہلے تک محدود نہیں رہ گیا۔ اس کے بنیادی احکامات و تعلیمات میں ردوبدل کئے بنا عصری تقاضوں کے مطابق قانون سازی کرنا ہو گا ۔یہ بات سبھی مذاہب پر نافذ ہوتی ہے ۔ 
پہلے مندر ‘اب درگاہ بھی 
ابھی کیرلا کے شبری مالا اورمہاراشٹر کے شنی مندر پر ملک میں بحث چل ہی رہی ہے ‘اب ایک مسلم درگاہ بھی اسی قطار میں آکھڑی ہوئی ہے ۔ممبئی کی مشہور حاجی علی کی درگاہ میں مزار کے آس پاس عورتوں کو جانے نہیں دیا جاتا ۔یہ اصول ان عورتوں پر سختی سے لاگو کیا جاتا ہے ‘ جو ماہواری کے ایام سے گزر رہی ہوتی ہیں ۔یہی قانون مندروں میں بھی لاگو کیا جاتا ہے ۔مجھے اطمینان یہ ہوا کہ کم ازکم اس معاملے میں تو مندر مسجد ایک ہی ہیں ۔دونوں ہی خواتین سے برابر میںفرق رکھتے ہیں ۔
یہ اصول خدا کا بنایا ہوا تو نہیں ہو سکتا ۔عورت اور مرد دونوں ہی اس کی مخلوق ہیں ۔یہ قاعدے انسان کے بنائے ہوئے ہیں‘ مردوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔مردوں سے کوئی پوچھے کہ کیا عورتوں کو خدا کی عبادت کا حق نہیں ہے؟جن لوگوں کو آپ اوتار یا ولی سمجھ کر مانتے ہیں کیا وہ کسی ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوئے ہیں ؟عیسیٰ مسیح اورکرن کو بھی والدہ کی ضرورت رہی ہے ۔بنا ماں کے کون پیدا ہوسکا ہے؟قدرت کے ایسے انمول تحفے کو مندر یا مسجد سے محروم رکھنا مذہبی فعل تو نہیں ہو سکتا ؟اگر حالت حیض و نفاس پراتنا اعتراض ہے تو یہ بتائیے کہ اس حالت سے گزرے بغیر کیا کوئی عورت کسی کو پیدا کر سکتی ہے ۔؟کیا وہ حاملہ ہو سکتی ہے ؟اور پھر یہ بتائیے کہ عورتوں سے اتنا الرجک ہیں تو آپ نے مندروں میں رام کے ساتھ سیتا اور کرشن کے ساتھ رادھا کو کیوں کھڑا کر رکھا ہے ؟کیا یہ دیویاں اس حالت سے نہیں گزریں ؟مسلمانوں کے ایک مسلک کے لوگ قبروں پر جانے اور پھول چڑھانے کو بدعت کہتے ہیں ۔ اگر اُن کی بات مانیں تو قبر پر جانا یا سمادھی پر پھول چڑھانا تو ''ہندواناحرکت ‘‘ہے ۔سعودی عرب میں تو اس پر سخت پابندی ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ مندر اور مساجد کو گرجوں اور گرودواروں کی طرح سب کے لیے کھلا رکھنا چاہیے ۔اگر آپ انہیں خدا کا گھر مانتے ہیں تو ان کے دروازے کیا ہندو اور کیا مسلمان کیا مرد کیا عورت ‘کیا گورے اور کیا کالے ‘کیا امیر کیا غریب سب کے لیے کھلے ہونے چاہئیں ۔
جہاں تک پاکیزگی و طہارت کا سوال ہے ‘عقیدت مند ان کا خیال اپنے آپ رکھتے ہیں ۔مندر ‘مسجد اور درگاہ میں جاتے وقت لوگ نہانے دھونے کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔خواتین پر بھی ہم اعتبار کیوں نہیں کرتے ؟کون عورت چاہے گی کہ وہ مشکل حالات میں کسی بھی کھلے مقام پر جائے؟ 
مودی اور نڈھا تھوڑی ہمت دکھائیں
وزارت صحت نے پہل کی تو بدعنوانی کی ایک روائت ٹوٹی۔ اب سارے ملک میں میڈیکل کی بھرتی کا امتحان ایک جیسا ہوگا۔ ابھی تک چلن یہ ہے کہ الگ الگ صوبوں اور نجی کالجوں نے بھرتی کے اپنے اپنے اصول بنا رکھے تھے۔کہیں کوئی ایک طریقہ کار نہیں تھا۔نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ سینکڑوں ہزاروں طالب علم کئی کالجوں میںدرخواست گزار ہوتے تھے ایک میں نہیں تو کسی دوسرے میں بھرتی ہوجائیں گے ‘اسی جگاڑ میں سبھی لگے رہتے تھے ۔اگر سارے جگاڑ بھی کام نہ آئیں توسب سے بڑا ہتھیارکام کرتا تھا۔یہ بڑا ہتھیار ہے لاکھوں روپیہ کے بنڈل !نجی میڈیکل کالج جب کروڑوں کی رشوت کھالیتے ہیں تو ان کی آنکھ پر اتنی چربی چڑھ جاتی ہے کہ وہ آنکھیں لائق نالائق میں فرق کرنے لائق نہیں رہتیں ۔اس لیے ڈاکٹری جیسے نازک پیشہ میں نیم حکیموں کی بھر مار ہو جاتی ہے۔ جو قابل ڈاکٹر ہوتے ہیں ‘وہ بھی بعد میں بدلا نکالتے ہیں ۔اپنے مریضوں کا علاج تو اچھا کرتے ہیں لیکن انہیں لوٹنے میں ذرا بھی لحاظ نہیں کرتے۔کئی ڈاکٹروں سے میں نے پوچھا کہ آپ کا برتاؤ ڈاکوؤں سے بھی زیادہ بے رحم کیوں ہو جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بھرتی کے وقت ہمارے والدین اپنے زیور‘ زمین ‘جائداد بیچتے ہیں اور برسوں ادھار چکاتے رہتے ہیں ‘کیا آپ کو وہ دکھائی نہیں پڑتا ؟
تو اس لوٹ پاٹ کا سبب ڈاکٹروں کی بھرتی میں چلنے والی دھاندلی پر اب کافی روک لگے گی ۔مودی سرکار کی یہ قابل تعریف شروعات ہے۔ وزیرصحت جے پرکاش نڈھا نے ہمت دکھائی ہے ۔وہ مودی کے دیگر وزرا کے لیے بھی مثال ہے ۔اگر بھرتی کے امتحانات، میڈیکل کی بھرتی اور پڑھائی مادری زبان میں نہیں ہوتی ‘ہندی میں نہیں ہوتی ‘اپنی زبانوں میں نہیں ہوتی تووہ جادو ٹونا ہی بنی رہے گی ۔اگر میڈیکل کی پڑھائی بھارتی زبانوں میں ہونے لگے تو فیل ہونے والے طلباکی تعداد کافی کم ہو جائے گی ۔غریب ‘دیہاتی ‘محروم لوگوں کے بچوں کو ڈاکٹر بننے میں زیادہ سہولت رہے گی وہ خدمت زیادہ کریں گے ۔اپنی زبانوں میں بنیادی تحقیقات بھی کافی آسان ہوگی ۔ادویات سستی مہیا ہوں گی اور لوٹ پاٹ بھی کم ہوگی۔کیا خود نریندر مودی میں ہمت ہے کہ وہ اس معاملے میں پہل کریں ؟
وزیر اعلیٰ شوراج سنگھ چوہان نے بھوپال میں اٹل بہاری واجپائی ہندی یونیورسٹی قائم کی ہے ۔آرایس ایس کے سربراہ آنجہانی سدرشن جی اور میری درخواست پر یہ قائم ہوئی ۔تین چار سال ہوئے ہیں لیکن ابھی تک میڈیکل کی پڑھائی ہندی میں شروع نہیں ہوئی ہے ۔میڈیکل کونسل ہمت نہیں دکھا پا رہی ہے ۔میں مودی اور نڈھا سے کہتا ہوں کہ وہ ذرا ہمت دکھائیں تو سال بھر میں ہی وہ کام ہو سکتا ہے ‘جو گزشتہ سوبرس میں بھی نہیں ہوا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved