تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     15-02-2016

لَٹھ

عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب تو جانتے ہی ہیں، میں عوام الناس کو بھی اپنے بارے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھ میں نیکی پھیلانے اور برائی ختم کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم دینے سے ایک اضافی فائدہ یہ ہوا ہے کہ میرا لہجہ مستقل طور پر تحکمانہ ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس میں شک ہی کیا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ پارسا ہوں۔ معاشرے کی اصلاح کی بھاری ذمہ داری میرے مضبوط کاندھوں پر ہے، جسے میں احسن طریقے سے انجام دے رہا ہوں۔ برائی کو میں عام طور پر ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ برائی کو ہاتھ سے یعنی طاقت سے روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ان سے نمٹنا میں بخوبی جانتا ہوں۔ ہاں! کبھی کبھی اگر برائی کو زبان سے روکنا پڑے تو پورا محلہ جانتا ہے کہ میری زبان بھی ہاتھ سے کچھ کم نہیں! تیر، تفنگ، بھالا، تیزاب، کلہاڑی، چھری، سب میری زبان کے آگے ہیچ ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے، محلے کی مسجد میں ایک لڑکا نیکر پہنے نماز پڑھ رہا تھا۔ اگرچہ نیکر اس کی گھنٹوں سے نیچے تھی مگر اس نابکار نے سر پرٹوپی بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ میں نے مصلحتاً اِس برائی کو روکتے وقت ہاتھ کنٹرول میں رکھے مگر زبان سے اس کے وہ لتے لیے، وہ لتے لیے کہ اس کے بعد وہ مسجد میں نظر نہیں آیا۔
گزشتہ چند دنوں سے میں ایک پریشانی میں مبتلا تھا۔ اِدھر اُدھر، معاشرے کا جائزہ لیا، تو سچ پوچھیے، ہر طرف نیکیوں کا سیلِ رواں تھا، برائی ڈھونڈنے نکلا تو کوئی نظر ہی نہ آئی۔ اِس جستجو میں بازار جا نکلا۔ الحمد للہ! بہشت کا سماں تھا۔ تاجر برادری میں انقلاب آ چکا تھا۔ ماپ تول میں کمی تو کیا ہوتی، گاہکوں کو کچھ زیادہ ہی دے رہے تھے۔ شے بیچتے وقت دکاندار شے کا نقص بتا رہے تھے۔ ایک اور معجزہ دیکھا کہ تجاوزات کا خاتمہ بالخیر ہو چکا تھا اور فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے جگہ خالی تھی۔ انکم ٹیکس والے ملے تو حیران کہ کوئی تاجر، کوئی صنعت کار، کوئی درآمد یا برآمد کنندہ، ایک پائی نہیں چھپا رہا تھا۔ محصولات سے حاصل شدہ رقم دس گنا زیادہ ہو چکی تھی۔
دفتروں کا چکر لگایا۔ خوشی کے مارے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ ہر سیٹ پر اہلکار موجود، کام میں مصروف تھا۔ افسروں نے چائے پینے پلانے کا سلسلہ یکسر موقوف کر کے، پوری توجہ سائلوں کو ملنے اور انہیں مطمئن کرنے پر لگائی ہوئی تھی! بیوائوں کو پینشن گھر بیٹھے مل رہی تھی۔ ہر سرکاری دفتر سے سائل کی درخواست دو دن میں نمٹائی جا رہی تھی۔ وزیر اعظم صاحب نے تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر ریٹائرڈ نوکر شاہی کو دوبارہ ملازمتیں دینے کا سلسلہ بند کر دیا تھا۔ اب اہم وزارتوں میں اپنی برادری اور اپنے شہر کے علاوہ بھی، خالص میرٹ پر تعیناتیاں ہو رہی تھیں۔ 
سرکاری سکولوں کا معائنہ کرنے نکلا۔ حالت ہی بدلی نظر آئی۔ دور افتادہ بستیوں میں بھی سکولوں کی عمارتیں خوبصورت! کلاس روموں میں باعزت فرنیچر، اساتذہ کی اسامیاں پوری! پینے کے پانی کا زبردست انتظام، دل خوش ہو گیا۔
پھر میں نے معاشرے کا ایک عمومی جائزہ لیا۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے مواقع ہی ختم ہو چکے تھے۔ ہر طرف نیکیاں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ منکرات کا یعنی برائیوں کا نشان تک نہ تھا۔ سو فیصد والدین جائداد میں سے بیٹیوں کو پورا پورا شرعی حصہ دے رہے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ بیٹی کی پیدائش پر اچھے بھلے تعلیم یافتہ مرد ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ اب یہ جاہلی تصورات مٹ چکے تھے۔ جہیز کی لعنت ختم ہو چکی تھی۔ صلہ رحمی کا دور دورہ تھا۔ ہر شخص اپنے رشتہ داروں کے حقوق خندہ پیشانی سے ادا کر رہا تھا۔ لین دین میں مکمل شفافیت تھی! شادیوں کا اسراف ختم ہو چکا تھا۔ مردوں نے بیویوں پر ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا تھا۔ خواتین شوہروں کی دلداری میں یوں مگن تھیں کہ گھر جنت کے نمونے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بازاروں میں ہر شے خالص تھی۔ ملاوٹ کا نام و نشان نہ رہا تھا۔ کوئی شخص جعلی دوائیں بنانے کا یا خوراک میں ملاوٹ کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ مسجدیں بھری ہوئی تھیں۔ ہر فرد قرآن کی آیات کا مفہوم سمجھتا تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ 
ڈاکے، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ امن و امان مثالی تھا۔ یوں سمجھیے کہ ایک عورت خالص سونے کے زیورات سے لدی پھندی اگر کراچی سے چلتی اور پیدل، تن تنہا، سارا ملک عبور کر کے شمال میں چینی سرحد تک پہنچ جاتی تو کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا روادار نہ تھا۔
یہ صورتِ حال جہاں اطمینان بخش تھی، وہاں میرے لیے پریشان کن بھی تھی۔ میں نے ہر حال میں، ہر صورت میں نیکی کا حکم دینا تھا اور برائی کو روکنا تھا۔ معاشرہ پوری طرح سنور چکا تھا۔ کوئی برائی دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ تو میں کیا کروں؟ اسی شش و پنج میں ایک دن چارپائی پر نیم دراز پڑا تھا۔ اچانک روشنی کا ایک کوندا سا ذہن میں لپکا۔ بند راستے کھلنے لگے۔ کیا ہوا اگر معاشرے سے ساری برائیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ فروری کا مہینہ ہے۔ ایک برائی پھیلنے کے آثار تھے۔ خوشی سے نہال ہو گیا۔ دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ ویلنٹائن ڈے! جی ہاں! ویلنٹائن ڈے! یہ واحد خرابی تھی جو اس وقت معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ ایک ناقابلِ بیان طاقت مجھ میں آ گئی۔ میں اٹھا اور کمر میں نے اِس برائی کو ختم کرنے کے لیے کس لی!
کچھ دوستوں کا نکتۂ نظر مختلف تھا۔ انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اول، یہ فیشن آبادی کے ایک قلیل حصے میں رائج ہے، وہ بھی زیادہ تر تین چار بڑے بڑے شہروں میں۔ اگر اس کے خلاف مہم چلائی گئی تو یہ ختم ہونے کے بجائے زیادہ پھیلے گی۔ جنہیں اس کا کچھ نہیں معلوم، وہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے۔ فرض کیجیے، دس نوجوان اس سے واقفیت حاصل کرتے ہیں تو ان میں چار پانچ اس کے حق میں ہو جائیں گے۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے درخوارِ اعتناہی نہ سمجھا جائے۔ دوم، ایک اوسط نوجوان، اِس ملک میں گرل فرینڈ کے تصور سے ناآشنا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں، کھاتے پیتے گھروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں میں بھی، نوجوان لڑکے لڑکیاں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے رواج سے کوسوں دور ہیں۔ یہ کلچر چند ہی گھرانوں میں در آیا ہے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کی کل تعداد کا اس تعداد سے موازنہ کریں جو سکولوں کالجوں کے اردگرد منڈلاتی ہے۔ حقیر تعداد! بہت ہی حقیر تعداد! سوم، غالب تعداد ان نوجوان عورتوں اور مردوں کی ہے جو اپنے شوہروں، بیویوں، یا زیادہ سے زیادہ منگیتروں کو ویلنٹائن ڈے پر تحفے تحائف دیتے ہیں یا دیتی ہیں۔ مگر میں نے ان کے سارے دلائل رد کیے ہیں۔ لٹھ لے کر گھر سے نکلا اور کشتوں کے پشتے لگا دیے۔
میرا اگلا ہدف بسنت ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ مقامی ثقافت ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں! اور ہمارا مذہب مقامی ثقافت، لباس، خوراک اور دوسرے ثقافتی مظاہر سے منع نہیں کرتا۔ ہاں مقامی ثقافت کے جن حوالوں میں کفر وشرک کی آمیزش ہو، ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور پتنگ بازی کے دوران انسانی جانوں کی مکمل حفاظت کا بندوبست ہونا چاہیے۔
مگر میں ان دلیلوں کو خاطر ہی میں نہیں لائوں گا۔ دیکھتے جائیے، بسنت کا مقابلہ میں مذہبی جذبات کو مشتعل کر کے کروں گا اور یوں کروں گا کہ مزا آ جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved