تیز رفتار ترقی:تین سال میں
پاکستان بدل گیا:نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''تین سالہ ترقی سے پاکستان بدل گیا ہے‘‘ جو غریبوں اور امیروں کی حالت سے ہی ظاہر ہے اور بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غریب مزید کتنے غریب ہو گئے ہیں اور امیر کتنے مزید امیر ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف اور اللہ میاں کی مہربانی سے خزانہ زرِمبادلہ سے بھر گیا ہے بلکہ اب تو بھر کر چھلکنے بھی لگا ہے۔ برآمدات کم سے کم ہو چکی ہیں تا کہ عوام ملکی اشیاء سے ہی بھرپور طور پر لطف اندوز ہوں۔ گیس اور بجلی کی عدم فراہمی سے فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں بلکہ ان کے مالکان انہیں دوسرے ملکوں میں شفٹ کر رہے ہیں۔ کسانوں کو اللہ میاں کے سپرد کر دیا گیا ہے کیونکہ وہی بہترین رزق فراہم کرنے والا ہے۔ پارلیمنٹ اور کابینہ بے معنی ہو چکی ہیں،پھر بھی ملک کو جمہوریت کے اصولوں پر چلایا جا رہا ہے جسے بعض شرپسند بادشاہت کا نام دیتے ہیں۔ کرپشن ملک میں نام کو بھی موجود نہیں ہے جس کی اطلاع شہباز صاحب اکثر اوقات دیتے رہتے ہیں جس سے صدر مملکت اور چیف جسٹس صاحب کی غلط فہمی رفع ہو چکی ہے اور برف میں لگ گئے ہیں۔ جملہ رشتے دار مختلف عہدوں پر ملک کی خدمت میں مگن ہیں اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ آئندہ ملک اور قوم کی خدمت کے لیے اگلی نسل کو تیار کیا جا رہا ہے تا کہ خدمت
اور تواضع میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو وہ بھی پوری ہو جائے۔ پولیس خداترس ہو چکی ہے اور زیادہ وقت عبادت میں مصروف رہتی ہے۔ روپے پیسے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی لیکن حاجت مند عوام زبردستی جیب میں ہی ڈال دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''آج کا پاکستان کل کے پاکستان سے کہیں بہتر ہے‘‘ کیونکہ مجھے ایسا ہی نظر آتا ہے اور چوہدری نثار کے علاوہ دیگر وزرائے کرام بھی یہی کہتے ہیں بلکہ میں خود زندہ مثال سب کے سامنے ہوں کہ ہاضمہ پہلے سے کافی بہتر ہے اور بھوک بھی خوب لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وعدوں کی تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں‘‘ اور انشاء اللہ اسی طرح بڑھتے رہیں گے تاہم وہ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ دور ہوتے جا رہے ہیں لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، ہمارا کام صرف ان کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آپریشن کو آخری حد تک لے جائیں گے ''جس میں فوج بھی مدد کر رہی ہے حالانکہ اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اس کے لیے حکومت اکیلی ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے‘‘ اور اداروں کو بتا دیا ہے کہ ایسے کام کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پی آئی اے کو جدید بنایا جائے گا‘‘ اس لیے آگے کسی عزیز کے نام پر خریدا جا رہا ہے تا کہ اس کی تقدیر کے ساتھ ساتھ کچھ اوروں کی تقدیر بھی بدل جائے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز دوحہ میں پاکستانیوں سے خطاب کر رہے تھے۔
فضول احتجاج
ایک اخباری اطلاع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کا ترقیاتی بجٹ میٹروبس پر لگانے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا ہے جبکہ اسے اس ملک دشمنی سے باز آنا چاہیے اور جنوبی و وسطی پنجاب میں تفریق پیدا کرنے سے احتراز کرنا چاہیے جو کہ ایک متحد صوبے کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے حالانکہ اگر انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس منصوبے سے جنوبی پنجاب کے عوام بھی بھرپور استفادہ کر سکتے ہیں اور لاہور آ کر اس کی سواری سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور واپس جا کر اپنے بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے بھی میٹروبس پر سفر کیا ہے بلکہ بہت جلد انہیں اورنج ٹرین کی سہولت بھی حاصل ہو جائے گی جبکہ لاہور آنا تو ہر پاکستانی کے لیے ویسے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بات ان کے ایمان میں شامل ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا؛ چنانچہ لاہور دیکھنے اور پیدا ہونے کا کام ایک ہی بار سرانجام پا جائے گا۔ ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
شوگر ملوں کی مجبوری
ایک اور خبر کے مطابق زمینداروں کے ایک ارب ہڑپ کرنے کے بعد شوگر ملوں نے تنخواہیں دینے سے بھی انکار کر دیا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ شوگر ملیں زیادہ تر بلکہ تمام کی تمام حکومتی شخصیات کی ملکیت ہیں اور چونکہ حکومت کا سارا کاروبار گھاٹے میں جا رہا ہے؛ حتیٰ کہ خاقان عباسی صاحب کی ہوائی کمپنی بھی پی آئی اے کی ریس کرتے ہوئے نقصان میں جا رہی ہے اور شوگر ملز مالکان کی نوبت فاقہ کشی تک پہنچ گئی ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے اس لیے کسانوں اور ملازمین کو قطع رحمی کا ثبوت دینے کی بجائے صبر و شکر سے کام لینا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ میاں ان بیچاروں کے دن پھیر دے تا کہ وہ کسانوں کی حق رسی اور تلافی کے علاوہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے بھی قابل ہو سکیں کہ انسانوں کے حالات سدا ایک سے نہیں رہتے؛ چنانچہ امید ہے کہ مل مالکان کی یہ قربانیاں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی اور ان کی غربت بھی دور ہو جائے گی جبکہ آزمائش کے دن اللہ کے نیک بندوں پر ہی آیا کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی دھمکی...؟
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت غریبوں کو بنیادی حقوق
دے ورنہ سخت ایکشن لیں گے اور کہا ہے کہ بے گھروں کو چھت دینے کے لیے قانون سازی کی جائے اور یہ کہ حکومت قبضہ گروپوں کو خود ڈیزائن بنا کر دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہا سرآنکھوں پر لیکن اسے حکومت کی مجبوریوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، اور اندازہ لگانا چاہیے کہ حکومت چلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر عدلیہ کو حکومت کرنی پڑے تو اسے لگ پتا جائے اور جہاں تک بنیادی حقوق کا تعلق ہے تو حکومت خود بھی انہی حقوق کو ترس رہی ہے؛ چنانچہ عوام اس زندگی سے اگر واقعی تنگ ہیں تو اس کے حل کے لیے بھی مختلف طریقہ ہائے کار موجود ہیں اور جن پر کم و بیش ہر جگہ عمل بھی ہو رہا ہے، مثلاً اپنے بچوں کو فروخت کر کے ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور ایسا کر بھی رہے ہیں کیونکہ اس سے انہیں دوہرا فائدہ ہے کہ پیسے بھی مل جاتے ہیں اور بچوں کے خرچے سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے بلکہ کئی دور اندیش افراد تو بچوں سمیت خود کشی کر کے بھی اپنے تمام مسائل کا خاتمہ کر سکتے ہیں، جس پر کسی طرح کی قدغن نہیں ہے؛ البتہ اگر اپنی ہی نالائقی کی وجہ سے خود کشی ناکام ہو جائے تو اس کوتاہی کے لیے سزا ضرور موجود ہے۔
آج کا مطلع
کہاں گئے جو تیرے دل میں بسنے والے تھے
کہ دُور دُور سے ہم تو ترسنے والے تھے