پاکستان میں دوائو ں کی قیمتوں میں اضافہ‘ آنے والے دنوں کی پہلی جھلک ہے۔ یہی وہ سال ہے جس میں ایڈم سمتھ کے درجے کے اکانومسٹ ‘ جناب اسحاق ڈار‘ ہمیں زرمبادلہ کی ریل پیل کی خوشخبریاں سناتے ہیں۔پچھلے چند ہفتوں سے وہ بار بار اس بھوکی قوم کو جتا رہے ہیں کہ وہ ‘ان کے سنہرے دور میں مالا مال ہو چکی ہے۔خصوصاً 20ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کا ڈھول تو مسلسل پیٹا جا رہا ہے‘جس میں قرضوں کی ادائی کی پے در پے فون کالز کا جواب نظر آرہا ہے۔ہمارے ساتھ اب تک جو ہوتی آرہی ہے‘ ریکارڈ کی روشنی میں لگتا ہے کہ پھر سے وہی ہونے والی ہے۔قرض خواہوں کے ساتھ ‘ہم نے قسطوں کی ادائیوں کے جو مسلسل وعدے کر رکھے ہیں‘ ان کا جنکشن اسی سال میں آنے والا ہے۔ماہرین میں شرطیں لگا ئی جا رہی ہیں کہ اسی سال کے دوران‘ قرضوں کی ادائی کے معاملے میں پاکستان خاکم بدہن ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ڈار صاحب کی پہلی چھلانگ یہ ہو گی کہ وہ سرمایہ کاروں کو لبھانے کے لئے ‘شرح منافع میں کمی لانے کا وہ سلسلہ بدستور جاری رکھیں گے‘ جو انہوں نے وزارت خزانہ سنبھالنے کے فوراً بعد کرنا شروع کر دیا تھا۔پاکستان کا رواج یہ ہے کہ یہاں جب کوئی شخص کام کاج سے ریٹائرہونے کے بعد اپنی گزر اوقات کا حساب لگاتا ہے کہ زندگی بھر کی جمع شدہ پونجی‘ بنکوں میں طویل مدتی ڈپازٹ کا اندازہ لگا کر جائزہ لیتا ہے کہ اس کی ماہانہ آمدنی کیا بنے گی؟ جمع شدہ پونجی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس شخص کا زندگی بھر معیار زندگی کیا رہا ہو گا؟ موجودہ دور میں دیکھا جائے تو جو شخص ہر سال جتنی جمع پونجی رکھتا ہے‘ وہی اس کے معیار زندگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو انسانوں کی گنتی میں لانا ہی نہیں چاہئے جو پاکستان جیسے غریب ملک میں عام آدمی کا گوشت کاٹ کر اپنی جیبیں بھرتا ہے۔بطور وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار کے ملاقاتیوں کی فہرست بنا کر دیکھ لیں۔ ان میں نوے فیصد کھرب پتی ہوں گے۔آٹھ فیصد ارب پتی اور دو فیصد ہر ماہ پوری تنخواہ خرچ کر کے گزر اوقات کرنے والے۔ ان میں میڈیا کے لوگوں کی اکثریت یقینی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی کے بارے میں‘ڈار صاحب کی معلومات کا حقیقت سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ میں خود ایک بوڑھا آدمی ہوں۔پچاس سال سے متوسط طبقے کی بالائی سطح کی ملازمت کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود بچت کی گنجائش برائے نام رہی۔ تین چار سال سے اتنی تنخواہ ملنے لگی ہے‘ جس پر ٹیکس بھی دیتا ہوں اور بچت بھی ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ میں نے تھوڑی بہت سرمایہ کاری بھی کی اور مطمئن ہو گیا کہ یہ رقم بنک میںڈپازٹ رکھ کے‘ اطمینان سے بسر اوقات کر لوں گا لیکن ڈار صاحب نے حکمران طبقوں کی خوشنودی کے لئے‘ میری ماہانہ آمدنی پر ایسا کلہاڑا چلایا کہ آج ایک بار پھر میں پچاس سال پہلے والی تنخواہ پر آگیا ہوں۔اطلاعاً عرض ہے کہ پچاس سال پہلے میری تنخواہ12سو روپے ماہوار تھی۔ میری عمر کے جن لوگوں کو‘اس دور کے نرخ یاد ہیں‘ وہ لوگ یقیناً بتائیں گے کہ اس تنخواہ کے ساتھ‘ اس دور میں خوشحالی کی زندگی گزاری جا سکتی تھی۔یہ اوربات ہے کہ میں کبھی نہ گزار سکا۔
عالمی مالیاتی نظام میں قرضے اٹھانے والوں کی قوتِ ادائی کی آخری حد‘56 پوائنٹس رکھی گئی ہے۔ جس پر گزشتہ دنوں یونان‘ وینزویلا اور پرتگال کو اپنی کرنسی کی شرح گھٹا کر بحران زدہ ملکوں کی کل آمدنی کے برابر کرنا پڑی۔ایک ماہرانہ اندازے کے مطابق ان ملکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر کی آخری حد50ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ پاکستان کو2016ء میں جو مجموعی ادائی کرنا پڑے گی‘ وہ50ارب ڈالر کے قریب ہے ‘جو سلوونیہ کی معیشت کے برابر ہے۔ ایک اور بات بھی ذہن میں رکھئے کہ ماضی میںہمارے فوجی آمر‘ دہشت گردوں کو مارنے کے عوض امریکہ سے ڈالر وصول کیا کرتے تھے لیکن جتنے دہشت گردوں کو مارنے کا بل آمر وصول کرتے رہے‘ وہ غلط ہوتا تھا۔ آمروں کی تھیوری یہ تھی کہ امریکہ کو زیادہ سے زیادہ دہشت گرد مارنے کا بل‘ ڈبل کر دیئے جبکہ مارے جانے والے کم ہوتے لیکن یہ چالاکی پکڑی گئی۔وصولیوں میں کی گئی چالاکی کا راز کھل گیا۔امریکہ نے مٹھی بھینچی۔ پھر یہ کھیل دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کھیلا جانے لگا۔جب تک جنرل کیانی رہے یہ نظام چلتا رہا۔موجودہ حکومت نے بھی وہی سلسلہ چلانے کی کوشش کی لیکن امریکہ جھانسے میں نہیں آیا۔ امریکہ کی طرف سے سختی کے ساتھ کہا گیاکے اب کے مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد قابل تصدیق ہونا چاہئے ۔ یہ بندوبست ہماری منتخب حکومت نہیں کر پائی ۔ اس نے دہشت گرد لیڈروں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے بل بنانے کی کوئی نئی ترکیب تیار کرنے کے لئے‘ مذاکرات کے اعلانات کر دیے۔ امریکی سمجھ گئے کہ سابق آمروں کا تیار کردہ فارمولا‘نئے دلائل اور دعوئوں کے ساتھ ‘پھر سے پیش کیا جائے گا لیکن فوج کی نئی قیادت نے امریکی ترکیبوں کا اندازہ لگانے میںکوئی غلطی نہیں کی۔ یہ بات فوج کی نئی قیادت سمجھ گئی اور جنرل راحیل شریف نے‘ درمیان میںکود کر معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ ایک طرف انہوں نے ڈالر دینے والی طاقتوں کو مطمئن کیا اور دوسری طرف شمالی وزیرستان پر حملہ کرکے‘ حقیقی نتائج دنیا کو دکھانا شروع کر دیے۔ فوج نے میدان عمل میں اتر کے‘ نہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کئے بلکہ پاکستان میں پھیلے ہوئے‘ نام نہا دمجاہدین کا‘ قلع قمع کرنا بھی شروع کر دیا۔واضح رہے جب جنرل مشرف اور جنرل کیانی کے ادوار میں‘ حکومت کی ملی بھگت سے دہشت گردی کرنے والے نمائشی قاتل بھی سرگرم تھے۔ میں صرف ماضی کی مثالیں دے کر ہی لکھ سکتا ہوں کہ جن دہشت گردوں نے حکومت کی تبدیلی کے بعد تباہ کاریاں کیں وہ اور تھے۔ نتیجے میں حکومت اورفوج کے مابین پرانی''ہم خیالی‘‘ ختم ہو گئی۔فوج نے یک رخی پالیسی اختیار کر کے دہشت گردوں کے خلاف حقیقی اور ٹھوس کارروائیاں شروع کر دیں‘ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔رواں سال میں بہت کچھ پرکھا جائے گا۔
2016ء کے درمیان طویل اور قلیل مدتی قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔اس مقصد کے لئے نجکاری کی پالیسی پر پوری توجہ ہے۔ڈار صاحب کا خیال ہے کہ وہ پانچ ارب ڈالر کا بڑا حصہ قومی اثاثے فروخت کر کے قرض خواہوں کو بڑی حد تک مطمئن کر دیں گے لیکن ڈارصاحب اتنے ذہین نہیں ہیں کہ وہ سرمائے کی عالمی مارکیٹ کے سوواگروں کو جھانسہ دے سکیں۔یہ سوداگر جو یونان جیسے ملکوں کو گھیر کے ''اونے پونے ‘‘کی پالیسی پر لا سکتے ہیں اس کے سامنے ڈار صاحب کس ''کمال فن‘‘ کے ماہر ہیں؟ادھر ڈار صاحب ‘اثاثوں کو ڈالر کے موجودہ ریٹ پر فروخت کرنے کے طریقے سوچ رہے ہیں تاکہ سودا کاری میں جتنے ڈالر حصے میں آئیں ان پر صبر شکر کر لیا جائے جبکہ سرمائے کے عالمی سوداگر اپنا دائو لگائے بیٹھے ہیں ۔ انہوں نے ڈالر کے موجودہ نرخوں میں پی آئی اے‘ سٹیل ملز اور دیگر بڑے قومی اثاثوں کی قیمت اسی طرح کم کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے جس سے کہ یونان‘وینزویلا اور پرتگال بھی نہیں بچ سکے۔اس وقت قومی اثاثے فروخت کرنے کے راستے میں جو ''سیاسی رکاوٹیں‘‘ پیدا ہو رہی ہیں ‘ وہ ایک دلچسپ کھیل کا حصہ ہیں۔آج کے نرخوں پر اگر یہ اثاثے ڈالروں میں فروخت کئے گئے توا ن کی قیمتیں پاکستانی کرنسی کے موجودہ نرخ کے مساوی ملیں گی جس میںپس پردہ خریداروں کو ان کے اندازوں کے مطابق سرمایہ نہیں ملے گا۔
اگر2016ء گزر گیا تو پاکستان پر عالمی ادائیوں کا دبائو بڑھ جائے گا۔پاکستان کے 50ارب ڈالر کے متوقع قرضے مزید بڑھیں گے۔ روپے کی قدر مزید کم ہو گی اور ہمارے قومی اثاثے جن ڈالروں میں فروخت ہوں گے‘ ان کے نئے نرخ کافی بڑھ چکے ہوں گے۔ اگر آج ڈالر 103روپے کا ہے توموجودہ سال گزرجانے کے بعد ڈالر کی قیمت20,15روپے بڑھ جائے گی۔ اس وقت عالمی خریدار بھی سرگرم ہو جائیں گے۔ ہمارے جن لوگوں نے ‘دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹ کر ڈالروں میں منتقل کر رکھی ہے وہ بھی ہمارے قومی اثاثوں کو اونے پونے خریدنے والوں کے ساتھ مل جائیں گے اور اس طرح پاکستان قرضوں کی ادائیگی کے لئے قومی اثاثے بیچ کر ڈالر جمع کرے گا اور ہمارا حال یونان جیسا ہو جائے گا۔دوسر ی طرف پاک فوج کے ماہرین معاشیات نے اپنے تخمینے بھی لگا رکھے ہوں گے۔ اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ فوج کے جن افسروں نے دولت کما کر باہر جمع کر رکھی ہے و ہ ریٹائر بھی ہو چکے ہوں گے اور موجودہ فوجیوں کا سارا مستقبل پاکستان اور پاک فوج کے ساتھ وابستہ ہے۔ ان کے اثاثے محفوظ رہے تو یہ مستقبل سے بھی اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے موجودہ سال کے دوران ہی‘ پاکستان کو مالیاتی چوٹیں لگا دی گئیں تو خود فوج کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔ یہ معما بہت مشکل ہے۔جس نے بھی اس کا صحیح حل ڈھونڈ نکالا‘ وہ خود بھی فائدے میں رہے گا اور پاکستان بھی۔ اگر2016ء کے کھیل میں حصہ لینے والے کامیاب ہو گئے تو وہ مالا مال ہو جائیں گے اور پاکستان سے اپنا مستقبل وابستہ کرنے والے خسارے میں رہیں گے۔