تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-02-2016

رہنما

تو یہ ہیں ہمارے رہنما! یہ ہیں ہمارے نجات دہندہ!
لکھنا کچھ اور تھا۔ کل شام سے اس کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ معصوم بچی ثاقبہ مگر کچھ لکھنے نہیں دیتی۔ اس کی بڑی بہن کا انٹرویو سننے کی کوشش کی، مگرسن نہ سکا۔ حیرت سے میں نے سوچا: کیسا دل گردے کا آدمی ہے، جس نے دنیا ٹی وی کے لیے یہ فرض نبھا دیا۔ کسی بھی بیٹی کے ماں باپ پر کیا گزری ہو گی؟ یہ ہے وہ ماحول اور نظام جس میں ہم جی رہے ہیں۔ جی کیا رہے ہیں، جوش کے بقول، جینے کی نقل اتار رہے ہیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے نیب کے چیئرمین کو ڈانٹا ہے کہ اپنا فرض ڈھنگ سے ادا کریں۔ کاش کوئی وزیر اعظم کو بتا سکے کہ نیب کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ اِس کی ناک کے نیچے اسلام آباد میں نون لیگ کا ایم این اے اربوں روپے ڈکار گیا اور وہ کھلا پھرتا ہے۔ کس کی مجال ہے کہ اسے روکے۔ تھانے میں محبوس کیا گیا تو پولیس والوں کو دھکے دے کر نکل گیا۔ آزاد ہے اور آزاد رہے گا۔ قطر میں پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ارشاد کیا کہ تیز رفتار ترقی کے طفیل پاکستان بدل گیا ہے۔ سبحان اللہ کتنا بدل گیا ہے۔ اس مطالبے پر کہ انہیں کچھ اور استاد عنایت کیے جائیں، پوری بارہ عدد بچیوں کے داخلے لینے سے انکار کر دیا گیا۔ جو زیادہ حساس تھی، وہ جان ہار گئی۔ باقیوں کی فریاد اور آنسو پس منظر میں چلے گئے۔ 
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے ازراہ کرم نوٹس لے لیا ہے۔ اب کیا ہو گا؟ کچھ معطلیاں اور کچھ تبادلے۔ کوئی دن ہنگامہ گرم رہے گا، پھر ایسی ہی کوئی اور طوفان خیز خبر آئے گی اور اخبار نویس اس میں جُت جائیں گے۔ بازاری زبان میں اسے ٹرک کی بتی کا تعاقب کہا جاتا ہے۔
قطر کے خطاب میں وزیر اعظم نے کچھ اور خوش خبریاں بھی سنائیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ دہشت گردوں کی کمر ان کی حکومت نے توڑ دی ہے۔ امن و امان کی صورت حال اب خوش آئند ہے۔ ملک میں امن قائم ہے۔ پی آئی اے کو جدید بنا دیا جائے گا۔ اگر کوئی خرابی موجود ہے تو وہ بھی باقی نہ رہے گی۔ مزید یہ کہ ان کا نہیں، یہ گزشتہ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔
111ڈالر سے تیل کی قیمت 27ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی۔ اس کے باوجود خود وزیر خزانہ کا دعویٰ یہ ہے کہ شرح ترقی امسال 4.5 فیصد رہے گی۔ وہی پرانی قیمت اگر برقرار ہوتی۔ توانائی کی درآمد پر اگر تین گنا ادائیگی کرنا پڑتی۔ بھارت میں، جس کے 236 اضلاع میں شورش ہے، کئی سال سے شرح نمو 7 فیصد واقع ہوئی ہے۔ بھارتی معیشت جو 2000ء میں پاکستان سے تین گنا تھی، اب چھ گنا ہو گئی۔ اخبار کی خبر یہ ہے کہ سالِ رواں میں بھارت سے کپاس کی درآمد میں 338 فیصد اضافہ ہوا۔ وزیر تجارت جناب خرم دستگیر مدظلہ العالی کے 27عدد غیر ملکی دوروں کے باوجود برآمدات میں دو ملین ڈالر کی کمی ہوئی۔ اس پر بھی وہ شاد ہیں۔ اس پر بھی وہ برقرار ہیں اور گوجرانوالہ میں اپنی مرضی کا میئر مقرر کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل 
انڈسٹری میں کہ برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی ہے، صف ماتم برپا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقاء کو اس پر کوئی پریشانی لاحق نہیں۔ گلگت بلتستان کے بعد وہ آزاد کشمیر کو فتح کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ سالار وہی ہیں، جناب برجیس طاہر اور انداز وہی ہے۔
گلگت بلتستان میں نون لیگ کی راہ ہموار کرنے کے لیے وزیر اعظم نے ساٹھ سترارب کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔ آزاد کشمیر پر کس قدر ہُن نچھاور کریں گے؟ تحریک انصاف سے خوف زدہ ہو کر لاہور میں میٹرو بنائی گئی۔ شیخ رشید اور اسد عمر جیت گئے تو دارالحکومت کے جڑواں شہروں کو بھی میٹرو کا تحفہ ملا۔ یہ الگ بات کہ نون لیگ کے مقامی لیڈر پر ایفی ڈرین کی سمگلنگ کا الزام ابھی دھل نہیں سکا۔ یہ الزام اپنی جگہ برقرار ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو پر اٹھنے والے اخراجات، اسی اثنا میں امرتسر میں تعمیر ہونے والے ایسے ہی منصوبے کے مقابل تین گنا ہیں۔ چیخ چیخ کر عمران خان نے کہا کہ پشاور میں جو پُل انہوں نے 88 کروڑ روپے فی کلو میٹر کی لاگت سے تعمیر کیا، بالکل ویسا ہی لاہور میں بنا تو 211 کروڑ روپے فی کلو میٹر خرچ ہو گئے۔ کوئی جواب نہ ملا تھا کہ ایک اور انکشاف ہوا۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین پر اخراجات کا تخمینہ 59 ملین ڈالر فی کلو میٹر ہے، جب کہ جکارتہ میں 7 ملین ڈالر۔ سرکار خاموش ہے اور کوئی جواب نہیں دیتی۔ پی آئی اے میں چند دنوں میںساڑھے چار ارب روپے برباد ہو گئے۔ سٹیل مل بند پڑی ہے۔ پنجاب کے سوا، تینوں صوبوں میں بجلی چوری کا سلسلہ برقرار ہے۔ (سب سے بڑھ کر خورشید شاہ اور محمود اچکزئی کے علاقوں میں)۔ اس موضوع پر ایک اجلاس نہ ہو سکا۔ خوش خبریوں کا سلسلہ مگر جاری ہے۔
ایک امریکی اخبار نے لکھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام خرید لیا جائے۔ چند دن گزرے تھے کہ امریکی حکومت کے ترجمان نے اعتراض اٹھایا، شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم بولے اور نہ مشیر خارجہ۔ دفتر خارجہ نے ایک لولی لنگڑی سی تردید کی۔ یہ کہنے کی توفیق کسی کو نہ ہو سکی کہ مسئلہ بھارت نے پیدا کیا ہے۔ 1974ء میں ایٹمی دھماکہ اگر وہ نہ کرتا تو پاکستان میں کبھی اس کی بنیاد ہی رکھی نہ جاتی۔ اس کے چار آرمرڈ ڈویژن، پاکستان کے خلاف ایستادہ ہیں۔ بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے۔ گزشتہ چھ برس سے وہ دنیا بھر میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کو ان اعداد و شمار کے ذکر سے اجتناب کیوں تھا؟ واشنگٹن میں، لندن میں، دلی میں کسی کی طبع نازک پہ گراں نہ گزرے۔ صاف صاف اگر یہ کہا ہوتا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس خطے میں امن کی ضمانت ہے۔ اگر دہرایا ہوتا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے میں اس لیے دشواری ہے کہ اس کی تین لاکھ فوج مشرقی سرحد پہ کھڑی ہے۔ خود فریبی، کوئی حد ہے خود فریبی کی۔
حکومت کا تو کیا رونا، اپوزیشن کی حالت ملاحظہ کیجیے۔ پختون خوا میں کپتان کی حکومت نے محتسب کو چلتا کیا، کہ اس کے اختیارات محدود کر دئیے۔ پہلے ہی کم تھے، باقی ماندہ بھی تحلیل کر دیئے۔ خان صاحب فریاد کناں تھے کہ مئی 2013ء کے الیکشن سے قبل ساز باز ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات محدود کر کے باقی چار ارکان میں بانٹ دیئے گئے۔ اب یہی کارنامہ عالی جناب کی پارٹی نے انجام دیا ہے۔ اس لیے کہ ایک وزیر صاحب گرفت میں آنے والے تھے اور نقب زنی کے نشانات وزیر اعلیٰ کے گھر تک جا پہنچے تھے۔ یہی نہیں، جن بلدیاتی اداروں کے اختیارات پر ناز تھا، ان کی آزادی بھی نوچ لی گئی۔ ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا کہ اگر کوئی نمائندہ، پارٹی کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کی پابندی نہ کرے گا تو وہ برطرف کیا جا سکے گا۔ معلومات کے حصول کی آزادی کا قانون بھی سان پر چڑھا۔ صوبائی اسمبلی کو استثنیٰ ہے۔ سیکرٹریٹ کو بھی، اس کے ارکان کو بھی۔ سبحان اللہ!
تو یہ ہیں ہمارے رہنما؟ یہ ہیں ہمارے نجات دہندہ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved