اقوام کی قیادت اب رہنما نہیں کرتے، بلکہ اب وہ ممالک بھی اخلاقی یا تہذیبی اقدار سے تہی داماں ہو چکے ہیں‘ جو جمہوریت کے بانی اور چیمپئن کہلاتے ہیں۔ ہماری دنیا کی بدقسمتی قائدین کی قلت نہیں، قومی اور عالمی سطح پر اہل قیادت کا قحط ہے۔ ذرا دیکھیں کہ دو رہنمائوں، صدر بش اور وزیر اعظم بلیئر نے دنیا اور اس کے لوگوں کے ساتھ کیا کیا۔ بش نے پہلے عوام کی مرضی کو روندتے ہوئے عراق پر فوج کشی کی، پھر دہشت گردی کو کچلنے کے بہانے اپنے ہی شہریوں کی آزادیوں کو سلب کیا۔ اس حماقت کا فیصلہ سنانے میں تاریخ نے زیادہ دیر نہ لگائی۔
بغداد کے گزشتہ دورے کے دوران جارج ڈبلیو بش پر کسی صحافی نے پوری قوت سے دس نمبر جوتوں کے دو جوڑے کھینچ مارے۔ یہ اس صحافی کا جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی طرف سے صدر بش کے لیے ''الوداعی تحفہ‘‘ تھا۔ اپنے دیگر پیش روئوں کے برعکس صدر بش توہین آمیز تاثر، جو عوام کی یادداشت کا حصہ ہے، چھوڑ کر رخصت ہوئے۔
اسی طرح ٹونی بلیئر کا ترکہ بھی وہ جھوٹ ہیں‘ جن کی وجہ سے برطانیہ چھ سالوں میں پانچ مرتبہ میدان جنگ میں اترا۔ یہ میدان جنگ عراق (1998ء)، کسوو، سری لیون، افغانستان اور ایک مرتبہ پھر عراق تھے۔ اب وہ اپنی غلطیوں پر تواتر سے معافی مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخ انہیں ''بش کے چمچے‘‘ کے طور پر یاد رکھے گی۔ ان رہنمائوں کی پیچھے رہ جانے والی بدنما یاد کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہیں جو تاریخ کے منصف نے پوچھنے ہیں۔ کیا بش اور بلیئر کو درحقیقت یقین تھا کہ عراق پر جنگ مسلط کرنا ہی دنیا کا امن اور امریکی اور برطانوی عوام کو تحفظ دینے کا بہترین اور واحد راستہ ہے؟ کیا یہ ایک فاش غلطی تھی جس کا مقصد درحقیقت قبل از وقت کارروائی کرتے ہوئے وسیع تر سیاسی طاقت حاصل کرنا تھا؟ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کہانی صرف بش اور بلیئر پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ 2008ء کے انتخابات میں، جان ایف کینیڈی کے بعد، امریکی تاریخ کے ایک مختلف رہنما نے اقتدار سنبھالتے ہوئے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن کی اور دنیا کے دیگر باشندوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دے گا۔ یہ صاحب کینیا سے تعلق رکھنے والے ایک سیاہ فام شخص اور امریکی ریاست کنساس سے تعلق رکھنے والی ایک سفید فام عورت کی اولاد بارک اوباما تھے۔ ایک سیاہ فام شخص کے وائٹ ہائوس میں داخلے نے امریکی معاشرے کو جکڑنے والی نسلی پرستی کی زنجیر کو توڑ ڈالا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اوباما کو وراثت میں جنگیں، ڈگمگاتی ہوئی معیشت، آخری ہچکیاں لیتی ہوئی سوشل سکیورٹی، بحران کا شکار ہیلتھ کیئر اور خستہ حال تعلیمی نظام ملا، جبکہ عالمی سطح پر امریکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ چکا تھا۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ کے اقتدار سنبھالنے پر 1933ء کی شدید کساد بازاری کا سامنا کرنے کے علاوہ کبھی کسی امریکی صدر کو اتنے سنگین چیلنجز کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا‘ جتنا صدر اوباما کو حلف اٹھانے پر؛ تاہم ایک سیاہ فام رہنما کے وائٹ ہائوس داخلے کو امریکی ساکھ کی بحالی کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا گیا۔ اُس وقت امریکہ کو دُہرا معیار اور یک طرفہ پالیسیاں رکھنے والی ایک خود سر اور مغرور عالمی طاقت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ہر کسی نے صدر اوباما کی فتح کو امریکی ساکھ کی بحالی اور اس کے رویّے میں تبدیلی کی علامت سے تعبیر کیا۔
اپنے پہلے ہی خطاب میں صدر اوباما نے وضاحت کی کہ کس طرح داخلی طور پر بیمار معیشت کی رگوں میں زندگی کی لہر دوڑائیں گے، نیز عراق میں جنگ بند کر دی جائے گی اور افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شکست سے دوچار کر دیا جائے گا۔ بطور صدر اپنی آئینی مدت کے پہلے دور میں وہ ان میں سے کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ امریکی معیشت سنبھل نہ سکی، محاذ جنگ سے آنے والی خبریں بھی کم حوصلہ شکن نہ تھیں‘ اور اُن کا امریکہ کو داخلی اور عالمی سطح پر ایک پُرامن ملک بنانے کا خواب جزوی طور پر بھی شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہو سکا۔ دونوں محاذوں سے جزوی طور پر فوجی دستے نکالنے کے باوجود افغانستان اور عراق میں امن قائم نہ ہوا، اور جہاں تک القاعدہ کا تعلق ہے تو وہ آج بھی پہلے کی طرح ایک چھلاوہ ہے‘ جس کے خلاف کوئی ایکشن کارگر نہیں ہو پا رہا۔ یہ تاثر کہ امریکہ کو ایک مختلف قسم کا رہنما میسر آیا، بہت جلد بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ابھی صدر اوباما کو اقتدار سنبھالے نو ماہ سے بھی کم عرصہ ہوا تھا کہ نوبل کمیٹی نے اُنہیں ''عالمی سفارت کاری اور تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے کی گئی غیر معمولی کوششوں‘‘ کی بنا کر 2009ء کے نوبل انعام برائے امن کا حق دار قرار دے دیا۔ اوباما تیسرے امریکی صدر تھے‘ جنہیں منصب کے دوران ہی نوبل انعام سے نوازا گیا۔ دوسرے امریکی صدور، جنہیں امن کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا، وہ 1906ء میں تھوڈور روزویلٹ (Theodore Roosevelt) تھے، جنہیں روس اور جاپان کے درمیان جنگ بندی کے لیے کی گئی کوششوں کی وجہ سے نوبل انعام دیا گیا۔ اس کے بعد 1919ء میں تاریخی معاہدے ''Treaty of Versailles‘‘ کی وجہ سے صدر ووڈرو ولسن (Woodrow Wilson) کو نوبل انعام دیا گیا۔ صدر اوباما کے سینے پر ایسی کسی کامیابی کا تمغہ نہ تھا۔ انہوں نے عراق اور افغانستان میں جنگ بند کرنے کا محض وعدہ ہی کیا تھا۔ کم از کم اُس وقت تک انہوں نے عملی طور پر عالمی امن کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔ اگر کوئی پیش رفت تھی تو ان کے حق میں منفی تھی اور ان کو نوبل انعام دینے کے فیصلے کو چیلنج کر رہی تھی۔ انعام وصول کرنے کے چند دن بعد صدر اوباما نے افغانستان میں فوجی کارروائیاں تیز کرنے کے لیے تیس ہزار اضافی دستے بھجوانے کی منظوری دے دی۔ اس کے بعد یہ دستے جزوی طور پر نکالنے میں انہیں چار سال لگ گئے، جبکہ یہ انخلا ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ اب بھی افغانستان میں ایک بڑی تعداد میں امریکی فوجی دستے موجود ہیں۔ اوسلو میں ایک نوبل انعام یافتہ شخص کو جنگی نعرے لگاتے سنا گیا۔ وہ عالمی امن ساز سے یکایک عالمی جنگ آزما رہنما کے طور پر سینہ تان کر سامنے آئے۔ نوبل انعام وصول کرتے ہوئے اُن کے ہونٹوں پر امن کے گیت گانے کی بجائے جنگی ترانے تھے۔ دنیا نے سنا کہ انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر جنگ کے جواز کا دفاع کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ امن کے لیے جنگ ضروری ہے۔ دنیا کے سامنے یہ اوباما کا نیا روپ تھا اور وہ قدیم حکمت کی عملی تعبیر پیش کر رہے تھے کہ ''اچھے مقاصد کے لیے گھٹیا ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں‘‘۔ یہ نوبل امن کمیٹی اور تقریب میں موجودہ محدود سے شرکا کے لیے بہت پریشان کن لمحہ تھا جب اوباما نے افغانستان میں موجود اپنے فوجی دستوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا... ''کچھ ہلاک کریں، کچھ ہلاک ہو جائیں گے‘‘۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ''طاقت کا استعمال ضروری ہے‘‘ اور یہ کہ ''ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس جنگ کو ختم ہوتے نہ دیکھیں‘‘۔
تین سال قبل تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستوں میں سنی انتہا پسندوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ کچھ ریاستوں کی طرف سے اسد کے جابرانہ اقتدار کے خاتمے کے لیے انتہاپسند گروہوں کو فنڈنگ شروع کر دی گئی۔ اس کا مطلب بہار عرب کا ''منطقی اختتام‘‘ تھا، لیکن یہ بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس جنونی گروہوں نے متنازع خلافت، داعش کے قیام کا اعلان کر دیا۔ 2014ء میں صدر اوباما نے اپنی نئی جنگی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے داعش کو ''شام‘ عراق اور مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں، بشمول امریکی شہریوں، کے لیے عظیم خطرہ‘‘ قرار دیا۔ اس سے پہلے 2011ء میں اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر لبییا کے آمر معمر قذافی کو منظر عام سے ہٹانے کے لیے فضائی کارروائی کی گئی۔ اس کا بظاہر مقصد شہریوں کو آمریت کے جبر سے رہائی دلانا تھا۔ اس وقت عراق اور شام کی صورت حال ہمیں برتنوں کی دکان میں ہونے والے نقصان کی یاد دلاتی ہے... ''تم نے توڑا، تم ہی اس کی قیمت ادا کرو‘‘۔ اقوام پر بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔
فوجی مداخلت کا شکار اقوام تباہی بربادی کا شکار ہو گئیں، جبکہ نام نہاد کولیشن میں شامل حکومتوں کا رویّہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی برتن توڑ کر اُنہیں واپس رکھتے ہوئے چلتا بنے کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ اس وقت صدر اوباما اپنے عہدے کے اختتام کے قریب ہیں، اگلے صدارتی انتخابات کا ابتدائی مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ جو بھی وائٹ ہائوس میں حکومت سنبھالے گا، تو اُس کے سامنے ویسی ہی شورش کا شکار دنیا ہو گی‘ جیسی آٹھ سال قبل اوباما کے حلف اٹھانے کے وقت تھی۔ جس تبدیلی کا اوباما نے وعدہ کیا تھا، وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ درحقیقت گزشتہ سال تک اوباما نے پرانی جنگ کی آگ کو سلگائے رکھا‘ بلکہ نئے محاذ بھی کھولے۔ کم از کم اُنہوں نے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اعتراف کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا کہ ابھی ''دنیا کے بہت سے حصے، جیسا کہ مشرق وسطیٰ، افغانستان اور پاکستان، وسطی امریکی، افریقہ اور ایشیا کے کچھ علاقے، عدم استحکام کا شکار رہیں گے‘‘۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے جانشین کو افراتفری سے بھرپور دنیا ملے گی۔