تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     17-02-2016

ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول

ایک اور جنم دن آیا اور گزر گیا!
مجید امجد نے اپنی پچاسویں سالگرہ پر کہا تھا ؎ 
وہ سنبھلتی ہوئی نازک سی دھڑکتی ہوئی لہر
مجھ سے کہتی ہے کہ ''دیکھ! ایک برس اور بجھا
دیکھ اب کے تری بتیسی پہ دھبا سا پڑا‘ دانت گرا
مملکت پاکستان کی عمر پورے چھ ماہ تھی جب کھیری مورت کے مغرب میں اور کالا چٹا پہاڑ کی جنوبی طرف‘ ایک مٹیالی سی ‘دھندلی بستی میں وہ بچہ پیدا ہوا جو بڑا ہو کر بستی سے نکل پڑا مگر آہ! وہ بستی اُس کے اندر سے نہ نکل سکی! خاندانی روزنامچے میں‘ جو جّد امجد فارسی میں لکھا کرتے تھے‘ اندراج یوں ہے:۔
''تاریخ پیدائش عزیزم محمد اظہار الحق خلف الرشید قاضی محمد ظہور الحق کہ نام تاریخی او غلام رسول است ۔مورخہ 3 ماہ ربیع الآخر 1367ھ بمطابق 3 ماہ پھگن 2004موافق 14 ماہ فروری 1948ء در شب ِشنبہ‘‘۔
اس کے بعد عربی میں ایک دعا کا اندراج ہے جو پڑھا نہیں جا رہا۔
سونے کے چمچ کا اُس علاقے میں رواج نہ تھا چنانچہ پیدائش کے فوراً بعد نوٹ کیا گیا کہ بچے کے منہ میں سونے کا کیا‘ پیتل کا چمچ بھی نہ تھا۔ اس علاقے میں زر و مال کی فراوانی نہ تھی۔ بارانی سلسلہ تھا۔ بارش ہو جاتی تو گھروں میں مٹی کی سکاری (بھڑولا) گندم سے بھر جاتی ورنہ روزگار کی سختیاں بادلوں کی طرح چھائی رہتیں! یہ گندم بھی ادھیڑ عمر اور معمر حضرات اگاتے اس لیے کہ جوان تو فوج میں بھرتی ہو جاتے! اس علاقے میں آسودگی نام کی کوئی شے نہ تھی۔ پرندے جیسے پتھر کے تھے۔ بادل جیسے لوہے کے‘ اور درخت جیسے بے ثمر! گھوڑے ہانپتے ہوئے اور خدّام طلسم زدہ!
اس پر طرفہ تماشا یہ کہ جو تھوڑی بہت زمین تھی۔ اُس پر توجہ دینے کے بجائے جِدّ امجد نے حویلی کتابوں سے لبالب بھر لی! دور و نزدیک 
سے طلبہ آنے شروع ہو گئے۔ سعدی کی گلستاں بوستاں‘ جامی کی یوسف زلیخا اور نظامی کا سکندر نامہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ ترکیبِ نحوی کے لیے بھی یہ بستی اس قدر مشہور ہوئی کہ آسام سے لے کر کابل تک شائقین ادب جھنڈیال والے بابے سے فارسی پڑھنے آنے لگے۔ جب تعداد ان دلدادگان ِادب و شعر کی تین سو سے تجاوز کر گئی تو کھانا فراہم کرنے کے لیے بستی ناکام ہوئی اور اردگرد کے قریوں کو کھانا بھیجنا پڑتا۔ آج کے نوجوان سُن کر حیران ہوں گے کہ اُس زمانے میں کتابیں استاد فراہم کرتا اور خور ونوش کا انتظام اہِل قریہ کرتے ؛چنانچہ آبائی کتاب خانہ ‘جو اس کم مایہ اور بے علم کالم نگار کو ورثے میں ملا ‘اس میں ایک ایک کتاب کے کئی نسخے تھے۔ مثنوی رومی‘ مطلع انوار‘ خسرو تحفتہ الاحرار‘ جامی مخزن اسرار‘ نظامی رباعیات‘ ابوسعید ابوالخیر اور کئی دوسری کتابوں کے انبار تھے جو افسوس! دار و گیِر وقت سے بچائے نہ جا سکے۔ کچھ نسخے باقی ہیں جو حرزِجاں ہیں۔ گلستانِ سعدی کا ایک نسخہ ‘جو آب زرّیں سے سبز کاغذ پر لکھا ہوا ہے‘ دھوپ میں اور سائے میں الگ الگ رنگ دکھاتا ہے۔ ایک بار یوں بھی ہوا کہ نقد رقم نہ تھی تو کتاب خریدنے کے لیے انہوں نے پیرہن کتاب فروش کو دے دیا۔ گھر والی شور مچاتی کہ بھاگوان جہاں جاتا ہے‘ وہیں سے پھڑ کے اٹھا لاتا ہے! پھر سفید فام ڈپٹی کمشنر نے اس معروف و مشہور استاد اور سکالر کو تحصیل کا میرج انسپکٹر مقرر کر دیا تو ہر ماہ کے آٹھ دس دن دورے میں صرف ہو جاتے۔ جہاں قیام کرتے‘ تلقین کرتے کہ مہمان کا کم اور مہمان کی گھوڑی کا زیادہ خیال رکھا جائے۔ دورانِ سفر‘ کچھ طلبہ ساتھ ساتھ پیدل‘ کتابیں کھول کر‘ اسباق پڑھتے رہتے! 
مگر بات جنم دن کی ہو رہی تھی۔ بیٹی نے کیک بنایا‘ پھر بچے ‘عمر رسیدہ جوڑے کو عشائیہ کے لیے ایک وسط ایشیائی ریستوران میں لے گئے‘ جہاں چھت سے غبارے اٹکے تھے اور میزوں پر شمعیں جھلملا رہی تھیں۔ صابر ظفر کا شعر یاد آ گیا ؎
خزاں کی رت ہے‘ جنم دن ہے اور دھواں اور پھول
ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول
صابر ظفر کیا یاد آیا‘ پورا گروہ‘ اور وہ وقت اور شاعری کا ایک پورا عہد‘ خانۂ خیال میں در آیا! صابر ظفر‘ ثروت حسین‘ جمال احسانی اور یہ بے بضاعت! غلام حسین ساجد اور محمد خالد بھی اسی کارواں میں تھے! صابر ظفر نے تو مجموعوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں مگر شہکار اس کی کتاب ''رانجھا تخت ہزارے کا‘‘ ہے۔ تین سو اشعار میں یہ لوک کہانی ایک ہی ردیف اور ایک ہی فضا میں لکھ ڈالی ہے ؎
باپ مرتے ہی اس طرح بھائی اکڑے اپنی سب زمیں کے کیے حصے بخرے
اور رانجھڑے کو دیے کھیت بنجر‘ بال آ گیا اس طرح شیشے اندر
افضال احمد سید کے کچھ اشعار تو اُن دنوں ہمارے ورد ِزبان ہو گئے تھے۔
میں دل کو اُس کی تغافل سرا سے لے آیا
اور اپنے خانۂ وحشت میں زیردِام رکھا
اور
بانوئے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے
ورنہ ہم جنگ کریں گے وہ شروعات کرے
پھر زمانے نے ایک پختہ کار‘ تربیت یافتہ گھوڑے کی طرح چال بدلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دُلکی سے بگٹٹ ہو گیا۔ گروہ بکھر کر رہا گیا۔ پہلے ثروت اور پھر جمال احسانی افق پار اتر گیا۔ افضال احمد سید سے ملاقات ہوئے زمانے گزر گئے ہیں ۔غلام حسین ساجد اور محمد خالد لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے۔ آلِام روزگار یا خاندانی علائق لاہور لے بھی جائیں تو احمد ندیم قاسمی کے بقول احوال یہ ہوتا ہے کہ ؎
تو وہاں زیر افق چند گھڑی سستا لے
میں ذرا دن سے نمٹ کر شبِ تار آتا ہوں
جنم دن اگر ویلنٹائن ڈے پر آن پڑتا ہے تو اس میں اُس دن پیدا ہونے والے کا کیا قصور؟ اُس زمانے میں ویلنٹائن ڈے ہوتا بھی نہیں تھا۔ تقسیم کو پیش آئے کچھ ہی مہینے گزرے تھے۔ ہندو اور سکھ عیدین کے موقع پر مسلمان دوستوں کے گھروں میں آتے اور مسلمان ہولی اور دیوالی کے مواقع پر تحائف دیتے اور دعوتیں کرتے۔ مذہب کو خطرہ لاحق ہوتا نہ قومیت کو۔ تقسیم کے بعد زمانوں تک مّحرم اور ربیع الاوّل کے ایام سنی شیعہ باہم مل کر مناتے رہے۔ مذہبی تہوار‘ ثقافت کا حصہ بن جائیں تو ہم آہنگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مگر یہ داستان پرانی ہے۔ اب تو ہمارا مذہب‘ ہماری قومیت‘ ہماری پاکستانیت‘ ہمارا نظریہ... سب اتنے کچے‘ نازک اور بھر بھرے ہو چکے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے تو دور کی بات ہے‘ سالگرہ اور بسنت سے بھی ان کے مجروح ہونے کا احتمال ہے! ہمارے صدر مملکت جو پشاور اور چارسدہ جیسے دلخراش سانحوں پر بھی خاطر جمع رکھتے ہیں ویلنٹائن ڈے پر سخت خطرہ محسوس فرماتے ہیں اور قوم کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ دن نہ منائے‘ یہ تنبیہ انہوں نے سردار عبدالرب نشتر کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کی۔ ویسے برسی منانا بھی اسلامی روایات کا حصہ نہیں! عہد رسالت میں اور عہدِ خلفائے راشدین میں کسی کی برسی نہیں منائی جاتی تھی! عید کے موقع پر وہاں سویّاں بھی نہیں پکتی تھیں! یہ بھی تحقیق کرنا ہو گی کہ حلیم عربی اور اسلامی غذا ہے یا نہیں!
سُنا ہے جناب ِصدر کا تعلق آگرہ سے ہے! آگرہ میں ایک صاحب رہا کرتے تھے نظیر اکبر آبادی! جدید اردو نظم کے بانی اور عہد آفریں شاعر! اُن کی کلیات پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ثقافت اُس وقت کتنی ہمہ گیر تھی! یاد رہے یہ وہی نظیر اکبر آبادی ہیں جن کی نظمیں ضرب المثل بن چکی ہیں جیسے ع
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا
بنجارا اور بے شمار اور! ذرا ان کی نظموں کے عنوان ملاحظہ فرمائیے : بسنت‘ ہولی (دس نظمیں) دیوالی (دو نظمیں) بلدیوجی کا میلہ‘ جوگی کا سّچا روپ‘ جوگن‘ جنم کنہیا جی‘ درگا جی کے درشن‘ نظیر اکبر آبادی کی شاعری پورے شمالی ہندوستان میں مشہور ہوئی۔ فقیروں نے گائی‘ گویّوں نے سنائی۔ سکولوں کے نصابوں میں شامل ہوئی۔ 1735ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 1830ء میں انتقال ہوا۔ دہلی‘ آگرہ اور لکھنؤ اُس زمانے میں چوٹی کے علما اور فقہا سے چھلک رہے تھے۔ خاندانِ ولی اللہ کے چراغ روشن تھے۔ پوری تاریخ چھان ماریے‘ کبھی کسی نے ان ثقافتی مظاہر میں شامل ہونے سے‘ یا ایسی شاعری پڑھنے‘ سننے اور گانے سے منع نہیں کیا۔ ہمارا مذہب کمزور پڑا نہ ہماری شناخت! مگر اب تو قدم قدم پر ایمان کو خطرہ ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ ایمان کمزور ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved