سابق حکمرانوں کی پالیسیوں سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سابق حکمرانوں کی پالیسیوں سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا‘‘ جسے ہم نے وہاں سے نکال کر لوڈشیڈنگ کی نعمت سے مالا مال کیا ہے کہ چلو کبھی کبھار تو بجلی آ ہی جاتی ہے حالانکہ گیا وقت پھر نہیں آتا‘ اگرچہ آنے والا وقت زیادہ خطرناک ہے جس کے بارے میں بُری بُری خبریں آنے لگی ہیں کہ آپریشن پنجاب میں بھی شروع ہونے والا ہے حالانکہ ہم اسحق ڈار اور سیف الرحمن کے ساتھ مل کر جو آپریشن کر رہے ہیں وہی بہت کافی تھا‘ تاہم اگر بھائی جان کو آرام بھی کروانا پڑا تو ان کی جگہ چوہدری نثار موجود ہیں جس کے لیے وہ بھاگ دوڑ بھی بہت کر رہے ہیں لیکن ہم انہیں یہی سمجھا رہے ہیں کہ وقت تو آنے دیں‘ آپ کے علاوہ کوئی اور چوائس ہی نہیں ہے‘ اور اگر سعودیہ وغیرہ بھی جانا پڑا تو بھی آپ کے لیے میدان کُھلا ہے اور اگر خدانخواستہ بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی تو بھی شہزادگان کی سفارش تو موجود ہی ہے جبکہ سعودیہ میں بھائی جان کی ویسے بھی بڑی ضرورت ہے کیونکہ شام پر متحدہ فوجوں کی یلغار ہونے کو ہے اور بھائی صاحب کے قیمتی مشورے ان کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں کہ نابغۂ روزگار ہستی ہیں اور فہم و فراست تو گویا اُن کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''محکموں میں عوام کے مسائل فوری حل ہونے چاہئیں‘‘ اگرچہ پولیس اور مال سمیت جملہ محکمے پہلے ہی کافی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں اور کوئی دھیلے کی بھی رشوت نہیں لیتا کیونکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اگر ایک دھیلے یا ایک پائی کی رشوت ثابت ہو گئی تو یا تو میں اپنا نام تبدیل کر لوں گا یا گھر چلا جائوں گا جبکہ اب تو گھر جانے کی باری ہے کیونکہ نام تو الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدے پورے نہ ہونے پر بدل کر خادمِ اعلیٰ رکھ لیا تھا جبکہ گھر جانے کی پریکٹس بھی ابھی سے شروع کر دی ہے اور شام کو ہر روز گھر چلا جایا کرتا ہوں جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کچھ ثابت ہو گیا تو گھر میں بھی کہاں رہنے دیا جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
صحت تعلیم اور پینے کے صاف پانی
کی فراہمی ترجیح ہے۔ گورنر رجوانہ
گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ ''صحت ‘ تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی ترجیح ہے‘‘ اور ‘ اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ جس چیز کو حکومت اپنی ترجیح بنا لے‘ اس کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ خدا کے حوالے کر دی جاتی ہے کہ وہ جانے اور ترجیح‘ جبکہ حکومت کو اپنے کارناموں کے علاوہ اللہ میاں پر بھی پورا پورا یقین ہے اور ہیپا ٹائٹس سی کی ویکسین چونکہ کسی ہسپتال میں بھی موجود نہیں ہے اور شدید مصروفیت کے باعث درآمد بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ مہنگی بہت ہے اور حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے اور جتنا بھی تھا اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس جیسے ''عوامی‘‘ منصوبوں پر لگایا جا رہا ہے ؛ علاوہ ازیں جڑی بوٹیاں بھی علاج میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں‘ اُن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے‘ نیز‘ تعویز دھاگہ بھی دینی علاج ہے جس کے لیے عامل حضرات ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب ہیں‘ جو جن نکالنے کے ساتھ ساتھ شافی علاج کی سہولت بھی بہم پہنچاتے ہیں اور جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو مدارس کھلے ہوئے ہیں جہاں تعلیم کے علاوہ کھانا اور رہائش وغیرہ بھی فراہم کی جاتی ہے اورجہاں سے گنہگار لوگوں کو جنت میں بھیجنے کا بھی انتظام موجود ہے جبکہ بھٹّوں سے بھی وزیر اعلیٰ صاحب نے سینکڑوں بچے نکلوا کر انہی مدرسوں میں داخل کروانے کا بندوبست کیا ہے تاکہ ووٹ بینک میں بھی برکت کا باعث بن سکیں‘ اور جہاں تک پینے کے صاف پانی کا تعلق ہے تو لاہور ہی کی 80فیصد آبادی گٹر ملے پانی کی عادی ہو چکی ہے اور صاف پانی سے اُنہیں چھپاکی نکلنے کا فوری خطرہ لاحق ہو جاتا ہے‘ اس لیے یہ مسئلہ بھی حل ہی سمجھیے ؛تاہم کچھ عزیز ٹھیکیداروں کا تقاضا ہے کہ اگر ان کی خدمات حاصل کی جائیں تو وہ مقررہ مدت میں اس کمی کا تدارک کر دیں گے جس کے لیے بھی حکومت کچھ عزیزوں کی فہرست تیار کر رہی ہے تاکہ یہ کام انہیں سونپا جا سکے تاکہ وہ اسے اپنا ہی سمجھ کر سرانجام دیں‘ اگرچہ زیادہ تر کے پاس پہلے ہی اتنا کام ہے کہ سر کُھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی اور سر کُھجائے بغیر ہی سارا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کے لیے جتنا کم سوچا
جائے‘ ملک کے لیے اچھا ہو گا۔ ماروی میمن
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن ماروی میمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے لیے جتناکم سوچا جائے‘ ملک کے لیے اچھا ہو گا‘‘بلکہ ان کی بجائے اگر میرے لیے سوچا جائے تو ملک کے لیے اور بھی اچھا ہو گا کیونکہ جب میں ق لیگ میں تھی تو انہوں نے میرے لیے سوچنا بہت کم کر دیا تھا لیکن ادھر ن لیگ والوں نے جب میرے لیے زیادہ خشوع و خضوع سے سوچنا شروع کیا تو میں نے بھی ایسا ہی کیا کیونکہ میں نے بھی کافی عرصے سے کسی کے لیے کچھ سوچا نہ تھا اور اس سوچ بچار کے نتیجے میں یہ ذمہ داری مل گئی جبکہ دوسری طرف سے ‘ یعنی میاں صاحب کی جانب سے زیادہ سوچا گیا تھا کیونکہ اُن کا سوچنا سمجھنا ویسے بھی بہت مشہور ہے اور ماشاء اللہ سوچنے کے دوران ہی انہیں بُھوک بھی لگتی ہے کیونکہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں ہی سوچ رہے ہوتے ہیں‘ حتیٰ کہ کھانا کھانے کے دوران اور بعد میں سوچتے رہتے ہیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز سکھّر میں مستحق خواتین اور میڈیا سے خطاب کر رہی تھیں۔
ایل این جی سے 400ملین ڈالر
سالانہ بچت ہو گی۔ شاہد خاقان عباسی
وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ '' ایل این جی سے 400ملین سالانہ بچت ہو گی‘‘ اور یہ ماشاء اللہ اُسی طرح کی بچت ہے جس کا ذکر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ صاحب اپنی تقریروں میں کیا کرتے ہیں کہ فلاں منصوبے میں ہم نے اتنے ارب روپوں کی بچت کی ہے اورفلاں میں اتنے ارب کی‘ جس کا مقصد لوگوں کو محض مطمئن اور خوش کرنا ہوتا ہے کیونکہ عوام کو خوش رکھنا حکومت کی ترجیحاتِ اوّل میں سے ہے‘ اور اسی لیے ہمارا ہر بیان کافی مزاحیہ سا لگتا ہے کیونکہ مُدعا عوام کی دل پشوری ہوتا ہے چنانچہ ان مخولیہ بیانات کی وجہ سے عوام کو ہنسنے مسکرانے کے نہایت قیمتی لمحات مفت میں دستیاب ہو جاتے ہیں جس کا اُن کی صحت پر بھی بہت اچھا اثر پڑتا ہے بلکہ ہم لوگوں کی صحت بھی کافی بہتر رہتی ہے اور جتنی خدمت ہم کر رہے ہیں ہماری صحت کا بہتر رہنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے جبکہ حکومت کی ساری خوش فہمیاں بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
آج کا مطلع
رُک سکیں گے نہ یہ سیلاب کے دھارے ہرگز
اپنے دریا کے نہیں کوئی کنارے ہرگز