تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-02-2016

رحمن کے بندے

اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کائنات ہیں۔ زمین اور کائنات کے دیگر مقامات پر جتنی بھی مخلوقات ہیں ان کے خالق ومالک اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے دو مخلوقات یعنی انسان اور جنات کو نیکی اور بدی کے داعیے کے ساتھ پیداکیا اور اسی صلاحیت کے حوالے سے ان کے لیے قیامت کے بعد جنت اور دوزخ کو تیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر انسانوں اور جنات کی آزمائش کے لیے مختلف طرح کی ترغیبات اور ترحیصات کے امکانات کو پیدا فرمایا۔ تاکہ اس کے ذریعے جن وانس کو آزمایا جا سکے۔ 
گو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جمیع انسانوں سمیت پوری کائنات اور کائنات کی ہر شے کے خالق ہیں۔ لیکن خالق نے اپنے بعض بندوں کی نسبت اس اعتبار سے اپنی ذات کے ساتھ کی ہے کہ وہ اُس کی تابعداری اور اس کے احکامات پر عمل پیرائی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو وقف اور صرف کرتے رہتے ہیں۔ ایسے بندوں کو قرآن مجید میں متعدد القابات کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے۔ سورہ مومنون کے پہلے حصے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان مومنوں کی صفات کا ذکر کیا۔ جنہیں قیامت کے قیام کے بعد جنت الفردوس میں داخل کیا جائے گا۔ اسی طرح سورہ فرقان میں اپنے ان بندوں کا ذکر کیا گیاجنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کل قیامت کے دن جنت میں داخل فرمانے والے ہیں۔ عباد الرحمن یعنی رحمن کے بندوں کی جب صفات پر غور کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یقینا ان صفات کے حامل لوگ دنیا وآخرت میں کامیابیوں کے مستحق ہیں۔ 
سورہ فرقان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمن کے بندوں کی جن صفات کا ذکر کیا وہ یہ ہیں:
1۔ رحمن کے بندے زمین پر متانت(عجز و انکساری) کے ساتھ چلتے ہیں : انسانوں کی بہت بڑی تعداد زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوںکو زمین پر اکڑ کر چلنے سے روکا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نہ تو اس طریقے سے انسان زمین میں دراڑ ڈال سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر انسان اپنا شمار رحمن کے بندوں میں کروانا چاہتا ہے تو اس کو زمین پر متانت کے ساتھ چلنا چاہیے ۔
2۔ جاہلوں کو سلام متارکت: رحمن کے بندے بلا سبب اپنے وقت کو ضائع نہیں کرتے اور اگر ان کا پالا کسی جاہل کے ساتھ پڑ جائے تو اس سے کَج بحثی کرنے کی بجائے اس کودور سے ہی سلام کرتے ہیں، یعنی وقار کے ساتھ علیحدگی کو اختیار کر لیتے ہیں۔ کج بحثی میں اپنے وقت ضائع کرنا انسان کے لیے کسی بھی اعتبار سے مفید نہیں ۔ انسان کو بحث اس مقام پر کرنی چاہیے جہاں پر بحث نتیجہ خیز ہو اور مخاطب کی اصلاح کے امکانات نظر آرہے ہوں ۔
3۔ راتوں کو عبادت میں گزارنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے رات کو گو آرام کرنے کے لیے بنایا ہے لیکن اسی رات کے کچھ حصوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کرنے سے انسان خالق و مالک کی قربت کی راہوں کو تلاش کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اللہ پاک نے رحمن کے بندوں کی صفت کو بیان کیا ہے کہ وہ اپنی راتوں کو صرف آرام کرنے میں صرف نہیں کرتے بلکہ سجدے اور قیام کی حالت میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ 
4۔جہنم سے پناہ مانگنا: انسان کی سب سے بڑی کامیابی جنت کا حصول اور سب سے بڑی ناکامی جہنم میں چلے جانا ہے۔ چنانچہ رحمان کے بندوں میں یہ صفت پائی جاتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر جہنم کے عذاب سے پناہ کو طلب کرتے ہیں۔ یقینا جس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جاتی ہے تو وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول ومنظور فرما کر انہیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما دیتے ہیں ۔
5۔ اعتدال کے ساتھ خرچ کرنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمان کے بندوں کی اس صفت کو بھی بیان کیا ہے کہ نہ تو وہ فضول خرچی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ان دونوں رویوں سے مختلف راستے اختیار کرتے ہیں۔ جہاں ضرورت ہو وہاں مال خرچ کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد نمود ونمائش کو اختیار کرنا یا اپنے مال کو روک کے رکھنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ غرباء،مساکین اور یتیم لوگوں پر بھی اپنے مال کو صرف کرتے ہیں ۔
6۔گناہ کبیرہ سے اجتناب: اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمن کے بندوں کی اس صفت کو بھی بیان کیا ہے کہ وہ تین کبیرہ گناہوں شرک، قتل اور زنا سے کلی طور پر اجتناب کرتے ہیں۔ ان ہلاکت خیز گناہوں سے اجتناب کرنا یقینا ہر مومن کی شان ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص شرک، قتل یا زنا کا مرتکب ہو جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس کے لیے اپنے خاص بندوں میں شامل ہونے کے راستے کو کھلا رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص ان گناہوں کے ارتکاب کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر توبہ کرے ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کرتے بلکہ اس کی سیئات کو نیکیوں کے ساتھ تبدیل فرما دیتے ہیں۔
7۔ جھوٹی گواہی سے اجتناب: رحمان کے بندوں میں یہ صفت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ جھوٹی گواہی کے نتیجے میں کسی نہ کسی انسان کی حق تلفی یا کسی کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ رحمن کے بندے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کل قیامت کے دن انہیں اپنے اعمال کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ چنانچہ وہ ہر صورت جھوٹی گواہی سے اجتناب کرتے ہیں۔
8۔ لغویات سے اعراض: رحمن کے بندوں میں یہ صفت بھی پائی جاتی ہے کہ اگر وہ کسی لغو کام والی جگہ سے گزریں تو متانت اورباوقار انداز میں گزر جاتے ہیں وہ حالات کے تناظر میں ''امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ لیکن اگر امر بالمعروف نہی عن المنکر کے نتیجے میں فتنہ انگیزی کا خدشہ ہو تو بڑے پر وقار انداز میں اس جگہ رکے بغیر آگے گزر جاتے ہیں ۔
9۔ اپنے بیوی اور بچوں کے لیے دعا: رحمن کے بندوں میں یہ صفت بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس بات کی دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی بیویوں اور بچوں کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمن کے بندوں کی صفات کو بیان کرنے کے بعد اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان تمام کارہائے نمایاں کو انجام دینے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے سرخرو ہوں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جنت کے بالاخانوں کو تیار کر دیا ہے۔ جہاں پر ہر وقت ان کے لیے تحائف اور سلام موجود ہوگا وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر اپنی نعمتوں کی مسلسل برکھا برساتا رہے گا۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نیکی اور بدی کے راستے کو چننے کا اختیار دیا ہے اور اسی اختیار کے حوالے سے انسان کو اپنے اعمال کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے اجروثواب یا عذاب کا مستحق ٹھہرنا پڑے گا۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ نیکی کی شاہراہ اختیار کرتا ہے یا بدی کے راستے پہ چلتا ہے۔ وہ جنت کی شاہراہ کو تلاش کرتا ہے یا جہنم کی پر پیچ وادیوں کی طرف سفرکرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام حمید میںانسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اعلیٰ ترین پیغام اور نصیحتوں کو کھول کھول کے بیان کر دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے خاص بندوں میں شامل فرمائے۔ تاکہ ہم دنیا میں بھی سربلند ہوسکیں اور آخرت کی حقیقی کامیابی بھی ہمارا مقدربن جائے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved