تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-02-2016

کل والے‘ آج والے

میں نے وزیر داخلہ‘ چوہدری نثارعلی خان کی طویل پریس کانفرنس سنی۔ مجھے معلوم تھا کہ ہر چینل پر وزیرداخلہ ہی جلوہ افروز ہوںگے لیکن چینل بدل بدل کر دیکھنا بھی دلچسپ ہوتا ہے۔چودھری صاحب فرما رہے تھے کہ''پاکستان میںپہلے سے موجوددہشت گرد تنظیمیں ‘داعش کا نام استعمال کر رہی ہیں۔داعش کے ہونے یا نہ ہونے کے تناظرمیں نہیں پڑنا چاہیے ۔پاکستان میں داعش کا وجود نہیں لیکن میڈیا ایسی خبریں چھاپتا ہے جیسے داعش پاکستان میں موجود ہے‘‘۔وہ میڈیا پر خفا تھے کہ جس چیز کا پاکستان میں وجود ہی نہیں‘ میڈیا بار بار اس کی خبریں کیوں منظر عام پر لاتا ہے؟ انہوں نے داعش کے وجود سے انکار کرتے ہوئے مزیدکہا کہ '' کئی لوگ تنظیمیں چھوڑ کر داعش کا نام لے کر فرنچائز کھول لیتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ'' کراچی میںجو لوگ پکڑے گئے ان کی وابستگی دوسری تنظیموں سے تھی۔ دہشت گرد فرار ہو رہے ہیں‘ سیاست دان جن کو کچھ پتہ نہیں ہوتا ‘بیان دیتے ہیں کہ داعش موجود ہے‘‘۔ چودھری صاحب نے 28جنوری کی اپنی مشہور و معروف دُم والی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ''میرا پائوں کس کی دم پر ہے؟ مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے اور اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جس کی دُم پر میرا پیر ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی والے ہر بات کو اپنے اوپر کیوں لے جاتے ہیں؟ مجھے معلوم ہے کہ میرا پیر کس کی دُم پر آتا ہے؟ اور آخر کار یہ معاملہ کرپشن سے جا ملتا ہے‘‘۔
چودھری صاحب نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کوئی موضوع ایسا نہیں چھوڑا ‘جس کی دُم پر ان کا پائوں نہ آیا ہو۔اصل میں ان کی پریس کانفرنس‘ دُم پر پائوں والی اس پریس کانفرنس کا تسلسل تھی‘ جو انہوں نے28جنوری کو کی ۔ حسب روایت اس میں وہ اپنے مخالفین پر خوب برسے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر‘ سید خورشید شاہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے جتنے فائدے اٹھائے‘ ان کی فہرست لمبی ہے۔ اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اپوزیشن لیڈر کا رویہ غیر سنجیدہ ہے‘ ان کے نام کے ساتھ سید ہے لیکن پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ جوابی پریس کانفرنس میں سید خورشید شاہ نے کہا کہ ''بے بنیاد الزامات لگانا حکومت کا وتیرہ بن چکا ہے۔وزیراعظم کی آستین میں سانپ چھپے ہوئے ہیں۔ وہ آستین کے ان سانپوں سے بچیں‘‘۔ شاہ صاحب نے حسب روایت اپنی پارٹی کی قربانیوں کا ذکر کیا۔ دونوں معزز لیڈروں کے بیانات پڑھ کر کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔ چودھری صاحب نے داعش کا بھید نہیں کھولا۔ صرف یہ بتایا کہ پہلے سے موجود‘45دہشت گرد تنظیموں میں سے ‘کوئی نہ کوئی اٹھ کر داعش کا نام استعمال کر لیتا ہے۔ خورشید شاہ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے کس بیان سے وزیرداخلہ کو وٹامن کی گولیاں مل گئی ہیں؟ چودھری صاحب نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں میڈیا کو مشورہ دیا ہے کہ '' وہ سیاست دانوں کے آدھے بیانات نہ چھاپے‘‘۔ ایک سینئر صحافی نے میڈیا کو مشورہ دیا کہ '' وہ آدھی خبریں اور بیانات نہ چھاپے ‘ ‘ ۔ یہ دونوں مشورے انتہائی قیمتی ہیں۔ نہ سیاست دان ٹاک شو اور پریس کانفرنس میں بولیں گے اور نہ اخبارات آدھی خبریں چھاپیں گے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ میڈیا کے قارئین و ناظرین‘ جو کچھ پڑھیں اور دیکھیں گے‘ اس سے ان کی تفریحی ضروریات بھر پور طریقے سے پوری ہوتی رہیں گی۔ ذرا سوچ کر دیکھئے۔جب آپ نے کوئی ٹاک شو لگایا‘ اس میں فرید احمد پراچہ‘ طلال چودھری‘ ظفر علی شاہ ‘ زبیر احمد اور علی محمد خان کی دلچسپ اور جذبات کو ابھارنے والی باتوں سے بچنے کے لئے‘ جب آپ چینل بدلیں گے تو سامنے تروتازہ دیپکاپڈوکون‘ سونم کپور‘ کرینہ کپور‘ملائکہ شراوت دکھائی دیں گی تو فرید پراچہ کتنے بورہوں گے؟ یہ اپنی اپنی پسند کا معاملہ ہے۔ ہم فرید پراچہ کو سکرین پر دیکھ کر لطف اندوز ہوں گے اور فرید پراچہ‘ مندرجہ بالا خواتین کو دیکھ کر افسردہ۔ کبھی صدا کاروں (جیسے فرید پراچہ) اور اداکاروں کو بیک وقت چینل بدل بدل کر دیکھیں گے تو ان کا شام کا لطف‘ تہہ و بالا ہو جائے گا۔
چودھری نثار کا مشورہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ''میڈیا ‘سیاست دانوں کے آدھے بیانات نہ چھاپے‘‘۔مجھے چودھری صاحب کا یہ مشورہ بہت پسند آیا حالانکہ ہمارے ایک میڈیا پرسن نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ''میڈیا خبریں اور بیانات آدھے نہ چھاپے ‘‘۔ مجھے یہ دونوں باتیں بے حد پسند آئیں۔ سیاست دانوں کے بیانات سننا اور پڑھنا کند ذہنی کو مزید چمکاتا ہے۔سچی بات ہے ‘ناظرین وقارئین‘ میڈیا سے جتنا بھی استفادہ کریں‘ معاشرے میں بڑھ چڑھ کے ترقی کریں گے۔ سچی بات ہے ‘وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ مجھے دور حاضر کے کسی بھی سیاست دان کی تقریر یا بیان کا حوالہ دے کر بتائیے کہ اس میں عقل یا دانش مندی کی کوئی بات دکھائی دی؟ میں نے سیاسی شوق اس دورمیں پورے کئے‘ جب حسین شہید سہروردی‘ میاں افتخار الدین‘ لیاقت علی خان‘ ذوالفقارعلی بھٹو‘ خان عبدالولی خان‘ میر غوث بخش بزنجو‘ میاں محمودعلی قصوری اور عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے مقررین کو سننے کا اعزاز حاصل ہوتا تھا۔یہ مقررین جس دور کے تھے‘ اس دور کے سامعین بھی ووٹ دینے سے پہلے‘ اپنے نمائندوں کا انتخاب سوچ سمجھ کے کیا کرتے تھے۔ آج ان میں سے کوئی ایک مقرر بھی جلسہ عام یا پریس کانفرنس میں اظہار خیال کرنے آجائے‘ تو یہ سوچ کر اپنے اس تصور پر شرمندہ ہو جاتا ہوں کہ اس مرتبے کے سیاست دانوں کو میں کہاں دھکیل رہا ہوں؟ کون سمجھے گا لیاقت علی خان کی باتیں؟ کس کے ذہن میں آئے گا بھٹو صاحب کا سیاسی فلسفہ؟کون سنے گا میاں محمود علی قصوری کے دلائل؟ کس کو پسند آئے گی عبدالحفیظ پیرزادہ کی منطق؟ کون ہضم کر پائے گا حسین شہید سہروردی ‘ میر غوث بخش بزنجو‘ میاں افتخار الدین اور خان عبدالولی خان کی پر مغز تقریریں؟ سوچتا ہوں ‘آج کے ٹیلی ویژن ٹاک شوز یا پریس کانفرنسوں میں ‘مذکورہ بالا لیڈروں میں سے کوئی بولنا چاہے‘ تو کیا بولے گا؟ ان کی باتیں کون سمجھے گا؟ ان کے دلائل کی تہہ تک کون جائے گا؟
جب پاکستان بنا تھا‘ وہ دنیا اور طرح کی تھی۔ جس دنیا میں پاکستان ٹوٹا تھا‘ وہ دنیا مزید اور طرح کی تھی۔ اور جس میں آج ہم ‘سیاسی تماشہ دیکھ رہے ہیں‘ یہ دنیا مختلف ہے۔ درست ہے کہ وقت تیزی سے بدلتا ہے۔ لیکن وقت کسی اور طریقے سے بھی بدل سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں وقت بدلنے کے بعد تباہی کے مناظر کیوں دکھاتا ہے؟ اس میں لاشوں کی گنتی کے مشاغل اور دعوے کیوں ہوتے ہیں؟ دین کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والے سرخرو کیوں ہیں؟ اور سچے عالمان دین‘ منظر عام سے ہٹ کر ‘خدا کی پناہ کیوں مانگتے ہیں؟ 
میں نے اپنی بات دور حاضر کے سرکردہ سیاست دانوں سے شروع کی تھی۔ ان کے بیانات بھی اکتائے ہوئے ذہن کے ساتھ نقل کئے ہیں۔ مجھے عہد حاضر کے نوجوانوں کو حاصل ہونے والے علم اور معیار سیاست کو دیکھ کر افسوس کیوں ہوتا ہے؟پڑوس میں بھارتی معاشرے کی حالت دیکھ کر بھی‘ مجھے اسی طرح افسوس ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کا معیار سیاست دیکھ کر‘ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اور کشمیر ی عوام پر پاکستان اور بھارت‘ دونوںکی طرف سے ہونے والے سلوک کو دیکھ کر مجھ پر کیا گزرتی ہے؟ آزادکشمیر کے وزیراعظم ‘ چودھری عبدالمجیداور مقبوضہ کشمیر کے جتنے بھی وزرائے اعلیٰ آئیں گے‘ ان کا فرق کم از کم نئے حالات میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ہمارے زیر انتظام کشمیر کا لیڈر اورمقبوضہ کشمیر کا منتخب لیڈر دونوں ہی پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے ماتحت ہیں۔نہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی لیڈر عوام کا منتخب کردہ ہے نہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کوئی وزیراعظم عالمی سطح پر کوئی حیثیت رکھتا ہے؟ اور دونوں ملکوں کے زیرانتظام زندگی گزارنے والے کشمیری عالمی رائے عامہ کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ہم کہاں سے چلے تھے؟ اور کہاں آ پہنچے؟ آئیے !دورحاضر کے لیڈروں کی طرف دیکھیں۔ عوام کی طرف دیکھیں۔ مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ میں اپنے گریبان میں جھانکوں۔ آپ اپنا دل کریدیں۔ نہ میری جھولی میں کچھ پڑے گا‘ نہ آپ کے ہاتھ کچھ آئے گا۔دونوں کے خواب ویران۔دونوں کے ہاتھ خالی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved