وزیراعظم نوازشریف نیب پر برہم ہیں۔ بہاؤلپور کے اجتماع میں وزیراعظم نے صرف نیب کو معصوم لوگوں کے گھروں میں گُھسنے سے نہیں روکا یہ بھی کہا کہ عوام حکومت کو ووٹ دیتے ہیں مگر اُسے توڑ کوئی اور دیتا ہے‘ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ گویا نیب محض بہانہ ہے کوئی اور نشانہ ہے۔
نیب کی کارکردگی مثالی کبھی نہیں رہی۔ سربراہ اس کے سیف الرحمن تھے‘ جنرل امجد اور شاہد عزیز یا اب قمر الزمان۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اربوں اور کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث مگرمچھوں سے یہ ادارہ سگی ماں کا سلوک کرتا ہے۔ شفقت‘ نازبرداری اور مہر و محبت۔ چھوٹی مچھلیوں کے لیے سوتیلی ماں کی طرح سنگدل و سفاک۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے وزیراعظم شوکت عزیز نے پلی بارگیننگ کی اجازت دے کر مگرمچھوں کے لیے سہولت پیدا کی ۔پچاس ساٹھ ارب روپے لوٹو اور پکڑے جانے پر پانچ دس کروڑ روپے دے کر چھوٹ جائو‘ شائد شوکت عزیز کو دلاو رفگار کا مشورہ پسند آیا ؎
میں بتائوں تُجھ کو تدبیرِ رہائی‘ مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے‘ دے کے رشوت چھوٹ جا
بعض لوگوں کی اب بھی یہی رائے ہے کہ وزیراعظم کا بیان نیب کے خلاف نہیں اس کی ساکھ بڑھانے کی تدبیر ہے‘ میاں صاحب نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا دبائو ناقابل برداشت ہونے لگا تھا۔ آصف علی زرداری‘ اُن کے برخوردار بلاول اور سید خورشید شاہ کو مطمئن کرنا ضروری ہو گیا تھا کہ نیب وفاق کی ہدایت پر نہیں‘ اپنے آپ کارروائیاں کر رہا ہے اور اس کا ٹارگٹ وفاقی و پنجاب کے صوبائی افسران و حکمران بھی ہیں۔ مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب کل کلاں کو نیب حکومتی چہیتوں کو پلی بارگیننگ کی سہولت یا کلین چٹ دے تو کوئی شک کرے نہ ملی بھگت کا الزام لگائے۔
یہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمران اشرافیہ کے مائنڈ سیٹ کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں اقتدار چور دروازے‘ چاپلوسی‘ سازش اور دھاندلی سے ملے یا عوام کے ووٹوں سے‘ اسے آئین کو توڑنے‘ مروڑنے‘ قانون کو موم کی ناک بنانے ‘ قومی وسائل و اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنے اور ملکی خزانے کو لوٹنے کا جادوئی آلہ سمجھا جاتا ہے‘ نہ سمجھنا حماقت ہے جس کی توقع کم از کم مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی تجربہ کار جماعتوں کے گرگ باراں دیدہ‘ گرم و سردچشیدہ رہنمائوں سے نہیں کی جا سکتی۔پاکستان دُنیا کا واحد مُلک ہے جہاں عوامی مینڈیٹ کا مطلب ہر قانون‘ ضابطے اور اخلاقی حدودوقیود سے استثنیٰ ہے‘ منتخب رکن پارلیمنٹ اور وزیر‘ مشیر عرصہ اقتدار میں سیاہ کرے یا سفید‘ قومی خزانہ لوٹے‘ نجی املاک اور اثاثوں پر ہاتھ صاف کرے اُسے کوئی ادارہ پوچھ نہیں سکتا۔ عوامی نمائندگی کا مطلب سات خُون معاف‘ صرف عوامی نمائندوں نہیں ان کی بداعمالیوں میں حصہ دار سرکاری افسران کو بھی ...میاں صاحب کو یہی گلہ ہے کہ عوام کا ووٹ لینے والوں کو (بداعمالیوںپر) گھر کوئی اور بھیج دیتا ہے۔
اقتدار ملنے کے بعد اورنج لائن پراجیکٹ کا کوئی ٹھیکیدار پنجاب حکومت کا ڈیفالٹر ہو یا بوگس وصولیوں کا مرتکب‘ کوئی وزیر خزانہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہو یا وزیراعظم کا کوئی مشیر شوگر سکینڈل میں ‘ آزاد کشمیر کے سابق صدر کا بیٹا کار کے سکینڈل میں گرفتار ہو یا کوئی صوبائی وزیر یوتھ فیسٹیول سکینڈل کا ملزم‘ ایل این جی ٹرمینل اور ایفیڈرین کیس میں کوئی وزیر یا رکن اسمبلی مطلوب ہو یا ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کا مرتکب نیب یا کسی دوسرے احتسابی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے پوچھ گچھ کر سکے‘ یہ معصوم لوگ ہیں ‘ جن سے بازپُرس زیادتی ہے۔ ان کا تحفظ وزیراعظم اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور موجودہ حکمران اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں نہ اپنے وفاداروں کے باب میں لاپروا۔
نیب کے چیئرمین نے لاہور میں صوبائی افسروں سے جو خطاب کیا وہ رسمی اور روایتی قسم کا تھا۔ '' ہر ایک سے قانون کے مطابق برتائو کریں‘ کسی سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے اور کسی دبائو کے بغیر اپنے منصبی فرائض انجام دیں وغیرہ وغیرہ‘‘ افسران اور عوام پانچ چھ دہائیوں سے یہ خطبات سنتے چلے آ رہے ہیں اب عوام کسی بات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں نہ افسران۔ سب جانتے ہیں کہ اس مُلک میں طاقتور و کمزور‘ بااختیار وبے اختیار اور امیر و غریب کے لیے الگ الگ قوانین‘ الگ ضابطے ‘ الگ رسم ورواج ہیں۔ بکری چور ‘کلرک‘ پٹواری کا کوئی والی وارث نہ ہو تو وہ عمر قید کا مستحق ٹھہرتا ہے برسوں تک اس کا چالان پیش نہیں ہوتا اور وہ جیل میں سڑتا رہتا ہے مگر اربوں اور کھربوں کی لوٹ مار میں ملوث لوگوں کو ریاست کا لاڈلا داماد سمجھا جاتا ہے وہ جیل میں بھی اُن سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں جن کا متوسط طبقے کے شریف لوگ زندگی میں بس خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
1993ء سے ہم ان گناہگار آنکھوں سے بڑے بڑے مگرمچھوں کی جیل یاترا کا مشاہدہ کر رہے ہیں‘ فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے‘ گھر سے کہیں زیادہ رہائشی اور طبّی سہولتیں اور اپنا جرائم پیشہ نیٹ ورک چلانے کے بہترین مواقع ان فورسٹار اور فائیو سٹار ڈاکوئوں اور مجرموں کو حاصل ہوتے ہیں جبکہ ان کے جیالے اور متوالے باہر احتجاجی مظاہروں میں پولیس کی لاٹھیاں کھا رہتے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں کو چیئرمین کی باتوں سے سازش کی بُو آئی‘ شائد چور کی داڑھی میں تنکا کھٹکا اور وہ بولنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک آزاد‘ خودمختار آئینی ادارے کے سربراہ کو یہ دھمکی دینا کہ وہ ازخود نیب کا رویّہ درست کریں ورنہ حکومت کارروائی کرے گی۔ کیا وزیراعظم کے حلف کی خلاف ورزی نہیں؟ جب تک نیب سندھ اور دوسرے صوبوں میں سرگرم عمل رہی وزیراعظم خاموش رہے مگر جونہی اُس نے پنجاب میں قدم رکھا‘ فیڈریشن کے پاسبان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور اطلاع یہ ہے کہ نیب چیئرمین کے اختیارات سلب اور نیب کے پر کاٹنے کے لیے ایک آرڈیننس تیار ہے تاکہ وہ باقیماندہ کیسوں پر کسی قسم کی پیشرفت کے قابل نہ رہے۔ وفاقی اور صوبائی وزیر اور اُن کے چہیتے بیورو کریٹس سکھ چین کا سانس لیں ۔ پنجاب بے چارہ ہماری اشرافیہ کے اس بھونڈے طرزعمل کی وجہ سے بدنام ہے۔
مختلف کرپشن مقدمات میں ملوث ریٹائرڈ فوجی افسروں کو سزائیں سنائی گئیں تو سیاستدانوں اور عوام نے تالیاں بجائیں‘ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں کا سکینڈل سامنے آیا اور نیب نے بریگیڈیئر (ر) امجد کیانی کو طلب کیا تو ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر وفاقی حکومت کا یہ موقف رہا کہ احتساب کے ادارے نیب اور ایف آئی اے آزاد ہیں وہ کسی کو پکڑیں‘ چھوڑیں ہمارا کسی معاملے سے لینا دینا نہیں۔ کے پی کے حکومت نے اپنی نیب کے اختیارات پر ڈاکہ ڈالا تو سب سے پہلا بیان ایک وفاقی وزیر کا آیا۔ مگر اب نیب نے کچھ کیا نہیں‘ صرف ایک اجلاس ہوا اور چیئرمین نیب کا روایتی خطاب سامنے آیا تو لاہور سے اسلام آباد تک خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں اور آئین اور قانون میں ترمیم کا مسوّدہ تیار ہو گیا جو کرپشن کو فروغ اور قومی مجرموں کو تحفظ دینے کی بدنیتی پر مبنی تدبیر ہے‘ یہ میثاق جمہوریت کا تقاضا ہو سکتا ہے‘ آئین و قانون کے مطابق ہرگز نہیں۔
اب طے کرنا پڑے گا کہ یہاں قانون کی حکمرانی چلے گی یا مختلف مافیاز کی برتری و بالادستی۔ سراج الحق نے کہا کہ کرپشن‘ دہشت گردی سے بڑا ناسور ہے تو کچھ غلط نہیں کہا۔ یہ اُم الامراض ہے۔ بلوچستان اور فاٹا کے علاوہ جنوبی پنجاب میں قومی وسائل چند افراد کی جیبوں میں جانے اور تعلیم‘ صحت اور روزگار کی سہولتیں نہ ہونے کے سبب نوجوان نسل کا احساس محرومی بڑھا‘ سرداروں‘ وڈیروں‘ پولیٹیکل ایجنٹوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف نفرت نے بغاوت کا روپ دھارا اور دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور پاکستان دشمنوں کو جذبات ایکسپلائٹ کرنے کا موقع ملا ہمارے سیاستدان اور حکمران دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر کرپشن کا کاروبار جاری رکھنے پر بھی مُصر ‘جو کھلا تضاد ہے۔
کسی صولت مرزا‘ عزیر بلوچ‘ عاصم حسین اور معظم علی کے احتساب میں اگر رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقائی و صوبائی شناخت کو ملحوظ رکھا گیا تو یہ معاشرہ کبھی سدھر سکتا ہے نہ نفرتوں‘ تعصبات‘ دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ اغواء برائے تاوان‘ کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ ممکن‘ یہ ایک دوسرے کی سگی بہنیں ہیں اور ایک ہی ماں کی اولاد۔ سب کا سدّباب ایک ساتھ ہونا چاہیے‘ تبھی امن و امان کا قیام اور ریاست کی رٹ برقرار رکھنا ممکن ہے۔ آخر یہ مذاق کب تک چلے گا کہ وائس چانسلر خواجہ علقمہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مگر بی زیڈ یو کا لاہور کیمپس بدستور چلتا رہے اور اس سے پیسے کھرے کرنے والے وزیر‘ مشیر بھی اپنی سیٹوں پر براجمان ۔
وزیراعظم اگر بولے ہیں تو اندر خانے کوئی نہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ نثار علی خان کے بقول کسی کی دُم پر پائوں ضرور آیا ہے۔ آگ جلتی ہے تو دھواں اُٹھتا ہے۔ نیب نے کوئی نہ کوئی واردات ضرور کی ہے۔ خوش گمانی میری یہی ہے...؎
کیسے ممکن ہے کہ دھواں بھی نہ ہو اور دل بھی جلے
چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں