آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں متحرک دہشت گردوںکو مالی معاونت ''مخالف‘‘ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کی جا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایسا انکشاف پہلی بار نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس بارے میںکیا کِیا گیا ہے؟ کم از کم ایسا توکچھ بھی نہیں جسے قابلِ ذکر سمجھا جا سکے! بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہمارے میاں نواز شریف کے بڑے دوست بنے پھر رہے تھے، میاںصاحب کو سالگرہ کی مبارکباد دینے بھی وہ اچانک آگئے، لیکن بھارت واپس پہنچتے ہی انہوں نے پھر وہی الزام تراشیاںشروع کر دیں۔ ان کے ملک میں تو جو بھی برا ہوتا ہے اس کاالزام پاکستان پہ دھر دیا جاتا ہے۔کوئی بھی اہم امریکی شخصیت جب بھارت کادورہ کرتی ہے تو بھارتی جرنیلوں کی جانب سے انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا جوہری پروگرام بند کرنے کا کہیں۔ ایک عرصے سے یہی سب ہوتا آیا ہے اور اب جبکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے امریکی صدر اوباما پاکستان کو آٹھ جنگی جہاز دے رہے ہیں تو اس پر بھی بھارت حسد کے مارے حواس کھو بیٹھا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے واضح طور پر بھارت کا نام تو نہیں لیا لیکن ہم جانتے ہیں کہ جب اپنے کورکمانڈروں کو انہوں نے یہ بتایا کہ دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہی ہیں اور ان کے مقامی ہمدرد انہیں پناہ اور تحفظ فراہم کر رہے ہیں تو اس سے مراد بھارت ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں ورنہ یوں ہی بھارت پہ و ہ کیوں الزام لگاتے؟
آئی ایس آئی تو ویسے بھی خفیہ طور پر کام کرتی ہے اور اپنی چالیں کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتی، لیکن اب تو انٹیلی جنس بیورو کا ٹریک ریکارڈ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان نے
پچھلے دنوں سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں دا عش ایک ابھرتا ہواخطرہ ہے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ تحریکِ طالبان پاکستان، سپاہِ صحابہ (جو اب اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے) اور لشکرِ جھنگوی جیسی مقامی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیمیں اس کی حمایت کر رہی ہیں۔ تاہم دفترِخارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں اس بات کی تردید کی گئی ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں داعش کوئی منظم وجود نہیں رکھتی۔ دفترِخارجہ والے ایک عرصے سے یہی مؤقف اپنائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے داعش کسی خطرے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن پھر ان خبروںکے بارے میں آپ کیا کہیںگے جن میں تقریباً روزانہ ہم سنتے اور پڑھتے ہیں کہ سکیورٹی ایجنسیوں نے داعش کے لئے بھرتیاں کرنے والے سہولت کاروں کو دھر لیا ہے۔ وزارتِ داخلہ بھی یہی کہتی ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی خطرہ موجود نہیں اور ایسی باتیں محض ایک پروپیگنڈا ہیں۔ لیکن انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان کا انتباہ ان سب باتوں کے بالکل برعکس معلوم ہوتا ہے۔ اس بارے میں ہم وزیر ِداخلہ چودھری نثار کا مؤقف معلوم کرنا چاہیں گے۔ ان کی وزارت والے تو یہی کہتے ہیں کہ داعش کا کوئی خطر ہ نہیں تو پھر انہی کی ماتحتی میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ نے سینیٹ کی کمیٹی کو یہ کیوں بتایا کہ داعش کا خطرہ واقعی ایک حقیقت ہے؟ چودھری نثار کو چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پی پی پی کے مولا بخش چانڈیو سے الجھنے کی بجائے اپنی وزارت کے معاملات درست کریں۔ ان کے آئی بی چیف کے بیانات ان کے اپنے بیانات سے کھلم کھلا تضاد رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے آئی بی چیف کے ساتھ بات کر کے اس معاملے کوسلجھانا چاہئے۔ فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ ان کی اپنی وزارت ہی ان کے کلی اختیار میں نہیں۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس ضمن میں القاعدہ کا تجربہ خاص طور پر خطرناک مثال ہے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں نے القاعدہ کی فرقہ واریت کے تصورات اپنا لئے تھے اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں نے بھی مختلف حربے القاعدہ سے سیکھے اور اس کے وسائلِ کار میں بھی شریک بنے۔ اگر القاعدہ کے نظریات اور اس کے حربے پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں کے لئے پر کشش ثابت ہوئے تھے تو داعش کے نظریات تو خوفناک حد تک ان فرقہ وارانہ تنظیموں کو اپنی جانب کھینچنے کا امکان رکھتے ہیں۔ شریف برادران کا اصرار تو یہ ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں، لیکن باخبر ماہرین ایک الگ کہانی سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی نرسریاں پنجاب میں خاص طو ر پر متحرک ہیں، جہاں نون لیگ کی تمام تر تردیدوں کے باوجود ضربِ عضب کے آغاز کے بعد قومی استحکام کے لئے شدید ترین خطرات موجود ہیں۔کئی عشروں سے جس طرح دہشت گردوں کو افرادی اور نظریاتی لحاظ سے پنپنے دیا گیا ہے، اس کے باعث صرف جنوبی علاقہ ہی نہیں بلکہ پنجاب کے کئی ایک علاقے فرقہ واریت کے لحاظ سے ایک آتش فشاں کے دہانے پہ ہیں۔ بدقسمتی سے دیہی علاقوں میں تو فرقہ واریت تھی ہی لیکن اب پورے صوبے کے کئی شہروں اور قصبوں میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شاید ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ سب جانتی بھی ہیں، لیکن پھر بھی اس پہ چپ سادھ رکھی ہے۔
اس وقت ضرورت ایسے تحقیق کار صحافیوں کی ہے جو حوصلہ رکھتے ہیں اور جنہیں اپنے اداروں کی معاونت بھی حاصل ہے۔ ایسے صحافیوں کو ان ممنوعہ علاقوں میں جا کر دیکھنا چاہئے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے اور کس طرح یہ لوگ مقامی آبادیوں پہ رسوخ رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی انہیں سکھایا جاتا ہے وہ کس طرح اس پہ ایمان لے آتے ہیں؟ عجیب بات یہ ہے کہ متعدد مذہبی گروہوں نے تھر کا رخ کر لیا ہے حالانکہ وہاں کی آبادی زیادہ تر ہندئووں پر مشتمل ہے۔ یہ مذہبی گروہ کنوئیں
کھودنے اور مدرسوں کے ذریعے مفت تعلیم جیسی سماجی خدمات بلا معاوضہ فراہم کر کے اپنا رسوخ جما رہے ہیں۔ 2009ء میں نیوز لائن میں مائنارٹی (اقلیت)رپورٹ کے عنوان سے چھپے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ غیر مقامی افراد کی مداخلت کے باعث اس علاقے میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو خطرات لاحق ہیں۔ ایک مقامی لکھاری اور دانشور ارباب نیک محمد کے حوالے سے اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ صرف تھر میں اُس وقت یعنی سات سال قبل تین ہزار مدرسے موجود تھے۔ ہر مکتبہ فکر کے مذہبی گروہ اس علاقے میں اپنی حیثیت مستحکم کرنے اور اپنا رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہمیں ایک باخبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ تھر میں ہر جگہ متعدد نئے مدرسوں کی عمارتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ ایک اہم مقامی شخص کا کہنا ہے کہ یہ عمارتیں اہم مقامات پہ بنائی جا رہی ہیں۔ ہمارے ذریعے نے ہمیں بتایا کہ اس نے خود مختلف دیہات کے دوروں میں یہ عمارتیں زیرِ تعمیر دیکھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندو اکثریتی علاقے میں یہ مدرسے آخر کیا کر رہے ہیں؟ آئی بی چیف آفتاب سلطان نے سینیٹ کمیٹی کے سامنے داعش کے خطرات کا جو ذکر کیا، اگر اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو خاص طور پر شمالی وزیرستان میں جنگی کارروائیوں کی معدومی کے بعد قومی سطح پر جو خطرات منڈلا رہے ہیں، فوجی قیادت ان سے باخبر معلوم ہوتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان میں متحرک دہشت گردوں کی پشت پر کارفرما بیرونی قوتوں کی شناخت تو کر لی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان کے مقامی ہمدردوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو ان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔ سلامتی کے شعبے کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ پناہ گاہیں یقیناً زیادہ تر پنجاب میں ہی ہیں جو واحد ایسا صوبہ ہے جہاں کسی بھی جگہ کوئی بڑا کریک ڈائون نہیں ہوا۔ دہشت گردی چونکہ ایک قومی مسئلہ ہے لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ اس کے پنجاب سے مختص پہلوئووں پر بھی توجہ مرکوز کر لی جائے۔